کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے عمرو سے مسجد اور کنواں بنانےکے لیےزمین مانگی،عمرو نے زمین مسجد اور کنویں کے لیےوقف کردی، پھر اس زمین میں مسجد اور کنواں تیارہوگیا، بعد مدت کے وہ مسجدمسمار ہوگئی ، مگر کنواں موجود ہے پھر زید بانی مسجد و چاہ اور عمرو واقف زمین دونوں مرگئے بعدہ عمرو کی زوجہ نے وارث بن کر اس زمین مسجد ویران کومع چاہ فروخت کردیا، بکر مشتری نے اسزمین پرمکان بنا لیا اور چاہ وقف شدہ کو جو فیض عام تھا مقیم اور مسافر اور مواشی اس سے پانی پیتے تھے، اپنے مکان میں لے لیا تو اس صورت میں زمین ویران مسجد اور چاہ فروخت کرنا یاخرید کرنا شریعت غرائے محمدیہ میں درست ہوا یا نہیں۔افتونا لکم الثواب۔
ان الحکم الا للہ مسجد اگر منہدم اور ویران ہوجائے اور اس کانام و نشان بھی نہ رہے ، تب بھی وہ زمین مسجد کی تاابد الآباد مسجد ہی رہتی ہے اوروقف ہونے سے خارج نہیں ہوتی اور بیع و شرا اس کی حلا ل نہیں ہےعلی الاصح اگر واقف مر جائے تو اس کے وارثون کی ملک میں نہیں آتی۔ فی[1] مجمع الانھر شرح ملتقی الابحرو اذ صح الوقف ای لزم الوقف فلا یملک مبنی للفعول ای لایکون مملوکا لاحد اصلا و لایملک مبنی للمفعول من التفصیل ایلایقبل التملیک لغیرہ بوجہ من الوجوہ وفی فتاویٰ الحامدیۃ لابن عابدین و بیع الوقف لا یصح وفی کتاب الاسعاف فی احکام الاوقاف للشیخ الامام برھان الدین ابراہیم بن موسی ولو خرب المسجد و ماحولہ و تفرق الناس عنہ لا یعود الی ملک الواقف، پس یہ بیع نا درست ہوئی، اورمشتری اس کامالک نہیں ہوا اور وہ مکان منہدم ہونا چاہیے اور اس زمین کا احاطہ بنا کر محفوظ رکھنا چاہیے کہ تلوث نجاسات سے محفوظ رہے اور کنواں اپنی حالت پر رہے یعنی جیسا کہ مسجد کی آبادی کے وقت فیض عام تھا اور خلق اللہ اس سے نفع لیتے تھے، اسی طرح چھوڑا جائے اور جس مکان نے اس کو روک لیا ہے، وہ مکان منہدم کیا جائے کہ وہ بھی کسی کی ملک نہیں ہوسکتا ۔ واللہ اعلم بالصواب، حررہ الفقیر محمد حسین عفا اللہ عنہ۔ (سید محمد نذیرحسین)
[1] جب وقف صحیح ہوجائے تو وہ کسی کی ملکیت میں نہ آئے گا ۔ وقف کی بیع درست نہیں۔ اگر کوئی مسجد ویران ہوجائے اور آبادی وہاں سے اُٹھ جائے تو پھر بھی وقف زمین واقف کی ملکیت نہیں بن سکے گی۔