کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسئلوں میں کہ بعض مساجد میں مثل جامع مسجد وغیرہ کے صلوٰۃ تراویح و جمعہ و عیدین کے لیے جگہ روکنا جیسا کہ عام دستور اس شہر میں ہے کہ جو شخص آتا ہے وہ دوپٹہ یا پگڑی یا چادر وغیرہ ڈال کر اپنے احباب کے واسطے جو ابھی تک مسجد میں نہیں آئے ہیں، ان کے لیےدور تک جگہ روک لیتا ہے اور دوسرے شخص کو اس جگہ بیٹھنے نہیں دیتا اور اگر کوئی اس جگہ بیٹھ جاتا ہے تو اس سے جھگڑتا ہے اور لڑتا ہے اورمار پیٹ اور خون نکلنےتک نوبت پہنچتی ہے، یہ جائز ہے یا نہیں اور جگہ روکنے والاعند الشرع الشریف گنہگار ہوتا ہے یا نہیں؟
دوسرا یہ کہ کوئی شخص مسجد میں آکر بیٹھا اور پھر کسی حاجت شرعی یا اور کسی واسطے اُٹھ گیا اور کپڑاوغیرہ صرف اپنی ہی جگہ پر چھوڑ گیا یعنی جتنی جگہ میں بیٹھا تھااس لئے کہ وہی شخص اس جگہ کامستحق ہے اور دوسرے شخص کو نہیں بیٹھنے دیتا یہ امر جائز ہے یا نہیں، و نیز امام و متولی و مہتمم مسجد جن کو اختیار ہے کہ ایسی خلاف حرکات سے نمازیوں کو روک سکتے ہیں بالکل اس طرح توجہ نہیں کرتے، ان کے حق میں شرع شریف کیا حکم دیتی ہے۔ بینوابالکتاب و افتونالکم الثواب فی یوم الحساب۔
ان الحکم الا للہ سبحانک لاعلم لنا الاما علمتنا۔ اس طرح جگہ روکنا مساجد میں ہرگز جائز نہیں اور ایسے کام کرنے والاخطاکار و گنہگار ہے۔ اس لیے کہ مساجد سب خاص حق تعالیٰ شانہ کی ہیں ان میں کسی کا استحقاق دوسرے سے زیادہ نہیں۔ سب برابر ہیں۔ قال اللہ تعالیٰ وان[1] المساجد للہ فلاتدعوا مع اللہ احدا وقال اللہ تعالیٰ سواء العاکف فیہ والباد ومن یرد فیہ بالحاد یظلم نذقہ من عذاب الیم۔ پس کوئی شخص سبقت کرکے آیا تو بقدر اپنےجلوس کے جس محل میں بیٹھ گیا، اس محل کا مستحق ہوگیا کہ کسی کو اس کا اٹھا دینا وہاں سے درست نہیں اور اگر وہ زیادہجگہ روکے گاتو البتہ اس کو دوسرا آنے والالےگا کیونکہ حصر اس کااس کو جائز نہیں کہ وہ حق دوسرے حاضر ہی کا ہے، چنانچہ حدیث بخاری ومسلم کی ناطق ہے۔ وھو[2] قولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یقیمن احدکم اخاہ یوم الجمعۃ ثم یخالف علی مقعدہ فیقعد فیہ ولکن یقول تفسحوا متفق علیہ۔ پس اوّل منطوق حدیث سے استحقاق سابق کا اور اس کو اٹھانے کی حرمت ثابت فرمائی اور آخر حدیث سے زیادہ جگہ لینے کی ممانعت سابق کو اور اس زیادہ کا لے لینا دوسرے حاضر کو ارشاد فرمایا کیونکہ اگر زیادہ کاکوئی اور مستحق نہ ہوتا تو کلمہ تفسحوا کہہ کس طرح اپنی جگہ اس سے نکال سکتا کہ وہ پہلے سے آیا ہوا تھا، پس ظاہر ہوگیا کہ اگر زائد جگہ کہیں ہو، تو حاضر اس کو لےلیوے کیونکہ حاضر اس کا مستحق ہے اور سواوے اس دلیل قوی کے اوردلیل محکم امر مسئول میں یہ بھی ہے کہ ایک وقت جب صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کی جناب خاص میں آپ کے لیے منیٰ میں مکان بنانے کو عرض کیاتو آپ نےفرمایا لا منی مناخ من سبق یعنی میرے لیے مکان مت بناؤ کہ منیٰ فرودگار ہر سابق کے لیے ہے اور در صورت بنانے مکان کے تخصیص بانی کی ہوجاتی ہے اور حصر محل کا قبل از حضوری حاضر لازم آتا ہے اورمنیٰ اس حکم مساوات تصرف عامہ میں مثل مسجد کے ہے کما لا یخفی علے الماہر الفطین۔
پس ظاہر ہوا کہ ایسے الکنہ یعنی مکانوں میں کسی کو پہلے سے جگہ روکنا روا نہیں جوشخص آتا جائے اپنی جگہ لیتا جائے ، نہ یہ کہ اپنے اقارب و احباب کے لیے جائے خاص کررکھے اور کپڑے ڈال کرروکے رکھے، کیونکہ یہ فعل ایک نوع کا ظلم ہے، دیکھو تو کہ خود حضرت فخر عالم ﷺ نے بھی اپنی ذات پاک کے لیے اس کو پسند نہیں فرمایا پھر اور کسی کی تو کیا حقیقت رہی اورمار پیٹ آپس میں خاص ایسے الکنہ مبارکہ میں کرنے اور خون جاری کردینا تو سراسر نفس و شیطان کی پیروی ہے اور شناعت او حرمت اس کی ظاہر ہے ۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا۔
جواب مسئلہ ثانیہ کا یہ ہے کہ جو شخص پہلے سے آکر پھر ضرورت کے لیے اپناکپڑا رکھ کر چلاجائے ، سو اگر یہ شخص حاجت ضروری قریب کے لیےمثلاً وضو یا استنجا کرنے کو گیا ہے تو البتہ یہ مستحق اس جگہ کا اوّل ہوچکا تھا ، اب بھی وہی احق ہے یعنی حق دار ہے، بدلیل محکم حدیث النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن[3] النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قام الرجل عن مجلس ثم رجع الیہ فھوا حق بدرواہ ابوداؤد فی سننہ ہاں اگر وہ بھی جگہ کو حبس کرکے اپنے اور کاروبار اور گیردار دنیاوی کے لیے چل دیاتو اب وہ مستحق نہ رہا بلکہ مثل اور غیر حاضرین کے ہے، چنانچہ حدیث بناء منیٰ سے معلوم ہوسکتا ہے۔
بعد اس کے مخفی نہ رہے کہ جب یہ امور منکرہ شنیعہ قبیحہ مساجد میں سرزد ہوتے ہیں اگر متولی مسجد یا امام اور مہتمم اس کے جو ایسے امور کے دفع کرنے اور رد کرنے پر قاد رہیں اورجان کر ان کا ازالہ اور رد نہ کریں تووہ بھی گنہگار اور ماخوذ ہوں گے۔ لقولہ [4]علیہ الصلوٰۃ والسلام مامن رجل فی قوم یعمل فیہم بالمعاصی یقدرون علی ان یغیروا علیہ ولا یغیرون الا اصابہم اللہ منہ بعقاب قبل ان یموتوا رواہ ابوداؤد۔ پس ہرشخص قادر پراصلاح اور ازالہ اس فساد کا لازم ہے۔ واللہ اعلم و علمہ اتم۔ حررہ الفقیر محمد حسین عفا اللہ عنہ۔
[1] مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ہیں، سو تم اللہ کے ساتھ کسی کومت پکارا کرو ۔ اس میں رہنےوالے اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں اور جو اس میں ظلم کی وجہ سے ٹیڑھا ہونے کا ارادہ بھی کرے تو ہم اس کودردناک سزا دیں گے۔
[2] رسول اللہﷺ نے فرمایا: جمعہ کے روز کوئی آدمی تم میں سے اپنے بھائی کو اُٹھا کر اس کی جگہ میں نہ بیٹھے، ضرورت ہو تو فراخ ہوجایا کرو۔
[3] آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ جب کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے اور پھر واپس آجائے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حق دار ہے۔
[4] آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ اگر کوئی آدمی کسی قوم میں رہ کر گناہ کرے اور وہ اس کو روکنے پر قادر ہوں اور پھر بھی نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ ان کومرنے سے پہلے پہلے اس کی سزا ضرور دیں گے۔