کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے مسجد چھاؤنی میں بنوائی اور اسے ایک متولی مسکین کو دے دی اور کہاکہ تم اس کی باختیار خود خدمت کرو جب چھاؤنی اس جگہ سے انگریزوں نے تور ڈالی اور مسجد بھی ساتھ ہی ٹوٹ گئی اور متولی نان و نفقہ سے تنگ ہے جوعملہ مسجد مذکور کا ملے اس کو فروخت کرکے اپنے کام میں لائے یانہیں۔
در صورت مرقومہ معلوم کرنا چاہیے کہ مسجد مذکور کو جو انگریزوں کے منہدم کردیا ہے حقیقت میں وہ مسجد حکم مسجد کانہیں رکھتی، کیونکہ بنا اس کی سرکاری زمین یعنی چھاؤنی کی زمین پر تھی۔ تو بقاء حق العباد ساتھ اس کے متعلق تھا، پس وہ مسجد خالصتاً للہ نہ ہوئی تواس حالت میں بیع عملہ کی واسطے مالک کے جائز ہے شرعاً جیسا کہ ہدایہ سے واضح ہے : ومن[1] جعل مسجد اتحتہ سرداب اوفوقہ بیت وجعل باب المسجد الی الطریق و عزلہ عن ملکہ فلہ انیبیعہ وان مات یورث عنہ لانہ لم یخلص للہ تعالیٰ لبقاء حق العبد متعلقابہ کذا فی الھدایۃ۔ پس اوّل مستحق اس عملہ کا مالک ہے اور وہ جو مرگیا ہو تو وارث اس کے مستحق ہوں گے اور جووہ بھی نہ ہوں مرگئے ہوں تو بلا شک متولی مسکین عملہ مذکور کو فروخت کرکے اپنے کام میں لائے۔ واللہ اعلم الصواب۔ حررہ سید محمد شریف حسین عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)
[1] اگر کوئی مسجد بنائے اور اس کے نیچے اس کا تہ خانہ ہو یا اوپر کوئی مکان ہو اور اس نے مسجد کا دروازہ راستہ کی طرف کھول دیا ہو اور اپنی ملکیت سے الگ کردیا ہو تو اس کو حق پہنچتا ہے کہ اس مسجد کو بیچ سکے اگر وہ مرجائے تو وہ ورثہ میں چلی جائے گی کیونکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ہے ، اس کے ساتھ بندے کا حق ابھی تک متعلق ہے۔