سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) پہلے سے اس زمین میں دو منزلہ مکان بنا ہوا تھا..الخ

  • 5596
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1024

سوال

(89) پہلے سے اس زمین میں دو منزلہ مکان بنا ہوا تھا..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ ایک شخص نے کچھ زمین مسجد کے واسطے خریدی، پہلے سے اس زمین میں  دو منزلہ مکان بنا ہوا تھا ،مشتری اوپر کی منزل کو مسجد اور نیچےکی منزل کو کرایہ پر واسطے خرچ مسجد کے دینا چاہتا ہے اس صورت میں  مسجد، مسجد کا حکم رکھے گی اور مکان کرایہ پر دینا جائز ہوگا یا ہیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ بالا میں  معلوم کرنا چاہیے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہﷺ کی تعلیم کی رُو سے  صورت مسئول عنہا جائز و درست معلوم ہوتی ہے اور یہ مسجد، مسجدکا حکم رکھتے اور مکان مسجد کے مصالح کے لیےکرایہ پر دینا جائز ہوگا تاکہ مسجد کی درستی رہے اور ہمیشہ آباد رہے ، اس کے اخراجات ضروریہ کے لیے آمدنی کی صورت نکالنا درست و جائز ہے جیساکہ آنحضرتﷺ نے خادم مسجد نبوی کے آرام کے لیے مسجد نبوی میں  یعنی نہ کنارے میں  نہ ادھر نہ ادھر بلکہ اندرون مسجد کے ایک حجرہ بنایاتھا اور اس کارہنا سہنا وہاں ہی ہوتا تھا جیساکہ صحیح بخاری صفحہ 63 میں  موجود ہے اور نیز صحیح بخاری صفحہ 66 میں  موجود ہے کہ آنحضرتﷺ نے مسجد نبوی میں  بعض لوگوں کے فائدہ کے لیے خیمہ لگوا دیا وہ اس میں  مدت تک رہے۔

غرضکہ اندرون مسجد یا تحت مسجد یا بالائے مسجد میں  کوئی مکان بنانا مصالح مساجد کے لیے درست و جائز ہے ، وہ مکان مسجد کو مسجد کے حکم سے خارج  نہ کرے گا جیسا کہ یہ دونوں حدیثیں دلالت کرتی ہیں اور یہ بھی حکم خدا و رسولﷺ ہے کہ جہاں خاص حکم شرعی نہ ہو،وہاں عام حکم شرعی سے استدلال کرنا جائز ہے، جیسا کہ صحیح بخاری  و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں  اور خاص کر بخاری کے صفحہ نمبر 1093 میں  موجود ہے۔ سئل[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن العمر فقال ما انزل اللہ علی فیہا الاہذا الایۃ الجامعۃ فمن یعمل مثقال ذرہ خیرا یرہ ۔ الایۃ اور اس پر امام بخاری علیہ الرحمۃ نے باب یوں منعقد کیا ہے : باب الاحکام التی تعرف بالدالائل الخ اور نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جن احکام ک وناجائس فرمانا تھا، ناجائز فرمایا اور جن کو جائز فرمانا تھا ان کو جائس فرمایا اور جن حکموں سے خاموشی کی ہے تم مت کرید کرو یعنی وہ معاف ہے جیسا کہ مشکوٰۃ صفحہ 24 میں  موجود ہے ابوثعلبہ خشنی سے۔

اور یہ اظہر من الشمس ہےکہ اللہ اور رسول نےکہیں منع نہیں فرمایا کہ اوپر مسجد اور نیچے مکان کرایہ مصالح مسجد کے لیے نہ بنانا بلکہ اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا ہے ، ما[2] جعل علیکم فی الدین من حرج  اور رسول اللہ ﷺ نے یوں ارشادفرمایا: یسر[3] واولا تعسر وا الحدیث یعنی عالموں کو چاہیے کہ جہاں کہیں اللہ تعالیٰ اور رسول نے سختی نہیں فرمائی، تنگی نہ کریں بلکہ آسانی کا فتوے دیں  دلائیں، اب ہر شخص ژی فہم بتا سکتا ہے کہ اس مسجد کے جواز  میں  مشتری مکان مذکور کے لیے آسانی ہے یا تنگی، اور نیز احادیث صحیحہ میں  اضاعت مال سے ممانعت وارد ہوئی ہے اب ہر شخص ذی شعور بتا سکتا ہے کہ مسجد مذکور فی السوال کے عدم جواز میں  اضاعت مال ہے یا نہ۔

غرض کہ ان احادیث و آیات کے رُو سے ثابت ہوتا ہےکہ مسجد مذکور فی السوال مسجد ہی کے حکم میں  ہے اورنیچے کا مکان کرایہ پر دینا واسطے مصالح مسجد مذکور کے جائز و درست ہے، تفسیر کبیر میں  تحت آیت فلا[4] وربک لا یؤمنون حتی یحکموک الایۃ کےلکھا ہے کہ عمومات کتاب اور سنت مقدم ہوتے ہیں عمومات قیاس پر واللہ اعلم و علمہ اتم واحکم۔ حررہ العاجز ابومحمد عبدالوھاب الملتانی نزیل الدھلی تجاوز اللہ عن ذنبہ الخفی والجلی فی اوائل شہر جمادی الاولی من 1319ھ علی صاحبہا افضل صلوۃ وازکی تحیۃ اللھم ارزقنی علما نافعا والعمل بما  تحب و ترضی۔                                       (سید محمد نذیر حسین)

ھوالموفق:

صورت مسئولہ میں  اگر مشتری نےنیچے کی منزل کو مصالح مسجد کے واسطے وقف کردیا ہے اور اپنا کوئی تعلق باقی نہیںرکھا تو بے شک وہ مسجد، مسجدکے حکم میں  ہے اس  واسطے کہ اس مسجد کے مسجدنہ ہونے کی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے اورنیچےکی منزل کو واسطے خرچ مسجد کے کرایہ پر دینا بھی جائز ہے کیونکہ عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے،  فقہائے حنفیہ نے بھی   تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں  مسجد، مسجد کے حکم میں  رہے گی۔ درمختار میں  ہے:

’’اگر مسجد کے اوپر امام کی رہائش کے لیےمکان بنایا جائے تو درست ہے کیونکہ یہ مسجد کی آبادی ہے ہاں اگرمسجد پوری ہوجائے ، پھر اس پرمکان بنایا جائے تو منع ہے اگر اگرکہے کہ میری پہلے ہی سے یہ نیت تھی تو اس کو سچا نہیں سمجھاجائے گا۔‘‘

اور شامی میں  ہے:

’’اسکا دارومدار تو سبب ہے، اگر مسجد ہی کی مصلحت کیلئے اس کے نیچے تہ خانہ یا اوپر کوئی مکان بنایا جائے تو درست ہے اور اگر ایسا نہ ہوتو جائز ہے۔‘‘

 نیز شامی میں  ہے:

’’اگر وقف کرنا والا مسجد کے لیے کوئی بیت الخلا بناوے تو جائز ہے یا نہیں۔ اس کی صاف جزئی تو میں  کہیں دیکھی نہیں، ہاں یہ تو ہے کہ اگر مسجد کے نیچے کوئی تہ خانہ بنائے یا اس کے اوپر کوئی مسجد کی مصلحت کے لیےبنائے تو جائز ہے۔‘‘

اور فقہ حنفی کی رو سے نیچے کی منزل کو واسطے مصارف مسجد کے کرایہ پر دینے کاجواز مستفاد ہوتا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔

کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ



[1]   آنحضرتﷺ سے گدھوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا،  ان کے لیے کوئی الگ حکم تو مجھ پر نازل  نہیں ہوا بس یہ آیت جامع موجود ہے  جو ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کرے گا اس کو دیکھ لے گا۔

[2]   اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین میں  کوئی نیکی نہیں رکھی۔

[3]   آسانی کرو اور تنگی نہ کرو۔

[4]    تیرے رب کی قسم جب تک آپ کو حاکم نہیں بنائیں گے ان کو ایمان نصیب نہ ہوگا۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے