سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(77) زید کے مکان کے چند پرنالے جنگی عرصہ دراز سے بجانب ایک قطعہ..الخ

  • 5584
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1160

سوال

(77) زید کے مکان کے چند پرنالے جنگی عرصہ دراز سے بجانب ایک قطعہ..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ زید کے مکان کے چند پرنالے جنگی عرصہ دراز سے بجانب ایک قطعہ اراضی افتادہ آتے تھے، عرصہ تقریباً چالیس سال کا ہوا کہ زمین افتادہ مذکور پرزر چندہ سے مسلمانان اہل محلہ نے مسجد تعمیر کی ، بروقت تعمیر مسجد یا نیان نے پرنالہائے جنگی مذکورہ مالک مکان مذکورہ سے قلفی دار کرا کر اندرون مسجد قائم رکھے، چنانچہ دو پرنالے حرف (الف) و (ب) جو دالان مسجد کی حد میں  آئے،ان کو مسجد کی چھت پرلے کر پانی ان کا پشت مسجد کے کوچہ میں  اتار دیا اور دو پرنالے (ج) و (دال) صحن مسجد میں  واقع ہونے ، ان کا پانی لینے کے واسطے ایک نالی زیر دیوار مکان زید برنگ سرخ از حرف (ز)  تارح ، سراسر حق پشتہ برنگ زرد چھوڑ کر تعمیر کی گئی، اس نالی میں  ایک پرنالہ حرف (واؤ) خاص مسجد کی چھت کا اور  دو پرنالے مذکورہ جو مکان زید کے صحن مسجد میں  واقع ہوئے تھے لےلئے گئے اور نال مذکور ہمرہ فرش صحن مسجد پتھر کے چوکون سےڈھانک دی گئی ، پانی پرنالہائے مذکور کا بذریعہ نالی مذکور وضو کی نالی کشادہ میں  ملا دیا گیا، چنانچہ اسی شکل میں  اب تک جاری ہے ، علاوہ ان کے ایک پرنالہ حرف (ہ) جو مکتب خانہ کی چھت پرسے ہوکر آرہا ہے، اس کا پانی مکتب خانہ کی چھت کے پرنالہ قلفی دار میں  سائل ہوکر وضو کی نالی میں  آتا ہے۔

اب زید کی وارث ہندہ نے اپنے مکان پر پختہ دو منزلہ تعمیر کرایا اور بروقت تعمیر بلحاظ مسجد گندہ پانی مثل پاخانہ و غلسخانہ کامسجد کی طرف سے ہٹا کر دوسری جانب کو پھیر دیا، جو اس وقت ممکنات سے تھا، باقی پانی یعنی صحن بالا خانہ کا و نیز سقفہائے بالاخانہ مذکورہ کابدستور جانب مسجد جاری رکھا، مکان ہندہ کے جو پانچ پرنالے حرف (الف) و (ب)و (ج)و (دال) و (ہ) قدیم سے بجانب مسجد آتے تھے اسی شکل سے اب تک قائم ہیں جیسا کہ نقشہ منسلے فتوے ہذا سے ظاہر ہے۔

اب اہل محلہ چاہتے ہیں کہ جو پانی صحب بالا خانہ ہندہ کابذریعہ پرنالے حرف (ج) اور (دال) صحن مسجدکی نالی قدیمہ میں آتا ہے وہ موقوف کردیاجائے کیونکہ وہ مستعمل یا گندہ پانی ہونےکی وجہ سے  وضو کے پانی میں  آکربدبو دیتا ہے جس سے وضو کرنے والوں کوتکلیف ہوتی ہے، ہندہ یا اس کے رفقاء شکایت بدبو کی مدافعت بلحاظ ادب و پاس مسجد بزرلاگت خود بذریعہ نل آہنی وغیرہ کردینے کو تیار ہیں لیکن ادھر سے بالکل پرنالے پھیر لینے سے نہایت وقت و ہرج و نقصان اس کو اپنی جائداد کامعلوم ہوتا ہے ، بالخصوص ایسے وقت میں  جب کہ کام تعمیر کا بالکل ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ اپنیحقیقت چھوڑ دینے سے معذور ہے۔

اب سوال یہ ہے نمبر 1 ۔کہ از روئے شرع شریف بصورت مندرجہ بالا ہندہ کا عذر قابل تسلیم ہوگا یا نہیں اور وہ اپنی  حقیقت کی بابت ایسے عذر سےعنداللہ گنہگار ہے یا نہیں۔ اور جو لوگ ایسے فعل پر ہندہ کو جس کو وہ محال و مضرت بخش خیال کرتی ہے مجبور کریں تو عنداللہ وہ مستحق اجر و ثواب کے ہیں یا نہیں۔

نمبر 2۔ دوسرے ہندہ اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کی بلا معصیت استحقاق رکھتی ہے یا نہیں رکھتی ہے؟

نمبر3۔ تیسرے صحن مسجد میں  زیر دیوار مکان ہندہ جونالی پرنالہائے مذکورہ چوکون سے ڈھکی ہوئی ہے جس کی گہرائی تقریبا پاؤ درعہ ہے کہ تری نالی کی غالباً چوکون تک نہیں پہنچ سکتی آیا اس پر نماز جائز ہے یا نہیں؟

نمبر4۔ چوتھے جو اہل اسلام اپنے بھائی مسلمان کو کسی ایسے فعل پر مجبور کریں یامطعون کریں یا اس کی توہین کے درپے ہوں یانقصان پہنچا دیں اور حق الامر کو چھپانے کی کوشش کریں تو عند اللہ ان کے واسطے کیا حکم ہے۔ بینوا توجروا۔ المرقوم 2 جمادی الثانی 1324ہجری۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مذکورہ فی السوال میں  چونکہ پرنالے ہندہ کے بجانب زمین افتادہ جس میں  مسجد تیار ہوئی تھی قدیم سے جاری تھے اور وقت تیاری مسجدکے حق پشتہ اور حق نالی مکان کو مورث ہندہ اور بانیاں مسجد نے قائم رکھا تھا پسجو زمین پشتہ اور زمین نالی ہے وہ خالصتاً لوجہ اللہ نہیں ہے، بلکہ اس میں  حق العبد باقی ہے، عالمگیری میں  ہے۔ حکی[1] الفقیہ ابواللیث انہم استحسنوا ان المیزاب اذا کان قدیما وکان تصویب السطح الی دارہ وعلم ان التصویب قدیم و لیس بمحدث ان یجعل لہ حق التسییل ۔ لہٰذا جو پشتہ کہ  نقشہ میں  برنگ زرد دکھایا گیا ہے اور جو زمین نالی کی ہے اگرچہ اس کو پتھر سے ڈھانک دیا گیا ہے وہ شرعاً مسجد کی حکم میں  نہیں ہے اور اس قدر زمین کو مسجدنہیں کہہ سکتے ہیں اور ہندہ اپنے  پرنالہ قائم رکھنے کی شرعاً مستحق ہے ۔ ہدایہ میں  ہے۔ ’’اگر کوئی شخص مسجد بنائے اور اس مسجد کے نیچے اس کا کوئی تہ خانہ ہو یا اوپرمکان ہو اور وہ مسجد کا دروازہ شارع عام کی طرف رکھ دے اور اس کو اپنے ملک سے خارج کردے تو وہ اس کو فروخت کرسکتا ہے اور اگر وہ خود فوت ہوجائے تو وہ ورثہ میں  تقسیم ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے لئے خاصد نہیں ہوا اس میں  بندے کا حق ہے۔‘‘

پس صورت مذکورہ میں  ہندہ کا عذر قابل تسلیم ہے اور ہندہ شرعاً گنہگار نہیں ہے بلکہ جو لوگ ہندہ پر جبر کرنا چاہتے ہیں وہ شرعاً بے راہی پر ہیں، بالخصوص ایسی حالت میں  جبکہ ہندہ   یارفقائے ہندہ رفع شکایت بدبو کے واسطے اپنی لاگت سے نل آہنی وغیرہ بنا دینے کو تیار ہیں۔

دوسرے ہندہ شرعاً اپنے حقوق کی حفاظت کا استحقاق بلا معصیت رکھتی ہے۔

تیسرے جب کہ چوکون تک اثر نالی کے پانی کانہیں پہنچتا ہے تو شرعاً اس پرنماز درست ہے۔

چوتھے جولوگ کہ مسلمان کی توہین کے درپے ہوں اور حق کو چھپا دیں اور ناحق پر اڑیں تو وہ لوگ شرعاً خطا پر ہیں فقط واللہ اعلم بالصواب کتبہ محمدمطہر اللہ۔

الجواب وباللہ التوفیق:

اصل یہ ہے کہ کوئی زمین اس وقت تک مسجد  نہیں ہوسکتی کہ اس سے تعلق مالک کا نہ اٹھ جائے اور ہندہ کا کوئی حق اس میں  باقی نہ رہے۔ قال[2] الشامی و فی القہستانی ولا بدمن افرازہ ای تمییزہ عن ملکہ من جمیع الوجوہ فلو کان العلو مسجد اوا لسفل حوانیت او بالعکس کایزول ملکہ لتعلق حق العبد بہ کما فی الکافی صفحہ 403 جلد3۔پس جب کہ ہندہ و مو رث ہندہ کے پرنالے اسی زمین میں  قدیم سے پڑتے تھے اور بوقت تعمیر مسجد وہ پرنالے برابر جاری ہے تو وہ جگہ نالی کی حکم میں  داخل نہیں ہوئی اور جبکہ وہ  جگہ حکم مسجد میں  داخل نہیں ہوئی تو ہندہ اپنے مکان کے پرنالے باقی رکھنے اور اپنا حق نہ چھوڑنے سے گنہگار نہ ہوگی بلکہ مجبور کرنا اس کو جائز نہیں ہے اور مجبور کرنے والے گنہگار ہیں، البتہ یہ مناسب ہے کہ رفع بدبو کی مناسبت تدبیر کرا دی جائے۔

نقشہ منسلکہ میں  جو پشتہ برنگ زرد اور جو نالی پانی کے نکلنے کی دکھلائی گئی ہے وہ حکم مسجد میں  نہیں ہے ، ہندہ کے مکان کا تعلق اور حق اس میں  ہے۔ ہندہ کو اپنےحقوق کی حفاظت میں  جس کا اس کو شرعاً اختیار ہے کچھ گناہ نہیں ، نماز ان پتھروں پر درست ہے اگرچہ وہ داخل مسجدنہیں۔کما مرعن الشامی۔

چوتھے جو لوگ بلا وجہ کسی مسلمان کی توہین اور اس کے حقوق زاول کرنے کے درپئے ہوں وہ گنہگار ہیں۔ عن[3] ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ التقوی ھٰہنا و یشیرالی صدرہ ثلث مرار بحسب امرء من الشران یحقر اخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ و عرضہ رواہ مسلم۔مشکوٰۃ شریف ۔واللہ اعلم۔                                                    کتبہ عزیز الرحمٰن عفی عنہ دیو بندی مفتی المدرسۃ

بلاشک ہندہ کو شرعاً مجبور نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اپنے پرنالے اکھیڑ کر دوسری طرف بنالے کیونکہ بناوےمسجد سے پیشتر وہ پرنالے جاری تھے ، جس کا حق اس کو حاصل تھا، مگر ادب اور تعظیم مسجد اس کی متقاضی ہے کہ ہندہ بہ نیت ثواب آخرت دنیا کا خرچ قبول کرکے پرنالے دوسرے طرف پھیر دے۔ عبدالحق مفسر تفسیر حقانی۔

سوال سائل صرف اس قد رہے کہ اجرائے میزاب کا حق ہندہ کو ہے یا نہیں اس کو جبراً اٹھانے کا کوئی مجاز رکھتا ہے یا ہیں، ہندہ عاصی اور نافرمان ہوسکتی ہے پرنالہ کے قائم رکھنے میں  یا نہیں سو جملہ علماء کی مواہر ثبت ہیں اس فتوے پر تحریرفرما رہے ہیں کہ حق ہندہ کا ثابت ہے اس کو مجبور کرنا جائز نہیں اور پرنالہ کے قائم رکھنے میں  نہ عاصی ہے اور نہ گنہگار پھر اس کو مطعون کرنا اور اس کی توہین کرنا کیسےدرست ہوگا ، ہاں مسجد کی تعظیم ہرمسلمان پر لازم ہے اگر بدبو آتی ہو تو اس کا رفع کرنا کسی تدبیر سے ضروری ہے جس میں  حق ہندہ بھی تلف نہ ہو، اور تطہیر و تنظیف مسجد بھی باقی رہے ، وہ دو صورت سےمتصور ہے یابطور نل آہنی کے ، یا دو میزاب کا ایک کردیا جائے کسی واسطے کہ احقر اس موقع کو خود جاکر دیکھ آیا ہے اس میں  تلویث مسجد کا تو احتمال ہی نہیں، اگر ہے تو بدبو کا ہے، اس کو رفع کرنابحق مسجد  جملہ مسلمین کو لازم ہے اور چونکہ بحکم شرع شریف ہر ذی حق کو اس کا حق دلوانا چاہیے تو ہندہ کی حق تلفی کیونکر جائز ہوگی، کافر کا بھی حق دلوانا شارع علیہ السلام کا کام ہے ، پس بفتوے علمائے کرام ہندہ پر جبر نہیں پہنچتا، ہاں ہندہ اگر برضا مندی خود اپنا حق چھوڑ دے اور مسجد کی عظمت کا خیال کرکے پرنالہ کیابلکہ سارا مکان ہی اپنا قربان کردے مسجد پرتو عنداللہ ماجور و مثاب ہوگی، جنت میں  درجات عالیہ کی مستحق ہوگی، مگر یہ بات دوسری ہے اور حکم اور ہے اس میں  ہندہ کی کیا خصوصیت ہے ہرمسلمان کو یہی چاہیے، مگر اس پرکسی کومجبور تو نہیں کیاجاسکتا، ایسا ہی ہندہ متساوی الاقدام ہے ، یہ تشریح ہے عبارات مسطورہ بالا کی، جوعلماء نےتحریر فرمائی ہیں، واللہ اعلم ۔ حررہ کرامت اللہ عفا اللہ عنہ۔ الجواب صحیح ،محمد بشیر۔



[1]   اگرپرنالہ قدیمی ہو اور مکان کی چھت کی ڈھلوان اس کے گھر کی طرف ہو اور یہ معلوم ہوکہ یہ ڈھلوان قدیمی ہے، نئی نہیں ہے تو وہاں پرنالہ رکھنے کا اس کو حق ہے۔

[2]   اور ضروری ہے کہ (مسجد) آدمی کی ملکیت سے پوری طرح الگ ہوکر اگر مسجدکے اوپر یا نیچے دکانیں یامکان ہو تو اس سے بندہ کا حق چونکہ متعلق ہے لہٰذا اس کی ملکیت سے پوری طرح وہ مسجد علیحدہ نہیں ہوگی۔

[3]   رسول اللہﷺ نے فرمایا، مسلمان مسلمان کابھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرسکتاہے نہ ذلیل کرسکتا ہے و حقیر سمجھ سکتا ہے۔پرہیزگاری یہاں ہے آپ نکے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کیا اور تین دفعہ فرمایا ، آدمی کو یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل سمجھے، ہرمسلمان پر ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے