کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اونی و سوتی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں؟ یہ تو معلوم ہے کہ جرابوں پرمسح کرنے کی حدیث ضعیف ہےاور امام ترمذی نےجو اس کو صحیح کہا ہے، محدثین نے اسے قبول نہیں اور اگر موزوں کے مسح پراس کو علت مشترکہ کی بنا پر قیاس کیا جائے تو اس سے فرض غسل جو قرآن سے ثابت ہے ساقط ہوجائے گا یا نہیں؟ اور ائمہ نے جو جراب کے لیے موٹا ہونے اور پانی کے نفوذ نہ کرنے کی قید لگائے ہے تو کیا اس سے زیادہ کسی اور علت کا بھی اضافہ ہوسکتا ہے یا نہیں؟ پاؤں کا دھونا فرض ہے اور موزے پر مسح رخصت ہے ، کیا رخصت شرعیہ شارع کے بیان پر موقوف ہے یا نہیں، جواب مفصل عنایت فرمائیں۔
مذکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے ، کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے ، اس میں خدشات ہیں، استدلال تین چیزوں سے کیا گیا ہے ، حدیث مرفوع، فعل صحابہ اور قیاس۔
حدیث مرفوع تو وہ ہے ، جس کو ترمذی نے مغیر بن شعبہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور جراب اور جوتے پر مسح کیا، ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے، اس پر اعتراض یہ ہے،کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،اس سے استدلال صحیح نہیں ہے، عبدالرحمٰن بن مہدی یہ حدیث روایت نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ مغیرہ سے مشہور روایت موزے پر مسح کرنےکی ہے،ابوموسیٰ اشعری نے بھی جراب پرمسح کرنےکی روایت نقل کی ہے لیکن اس کی سند متصل نہیں، امام مسلم نے اس کو ضعیف کہا ہے، مغیرہ بن شعبہ سے جتنے لوگوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ، انہوں نے موزے پر مسح بیان کیا ہے ، صرف ابوقیس اردی اور ہذیل بن شرجیل نے جراب کا لفظ بیان ہے لیکن یہ دوسرے راویوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، عبدالرحمٰن بن مہدی نے سفیان ثوری سے کہا اگر آپ مجھے ابوقیس عن ہذیل کی حدیث سنائیں تو میں اس کو آپ سے قبول نہیں کروں گا، سفیان نے کہا وہ حدیث واقعی ضعیف ہے ،علی بن مدینی نے کہا مغیرہ کی حدیث کو مدینہ، کوفہ اور بصرہ والوں نے روایت کیا ہے ، سب موزہ کا ذکر کرتے ہیں، صرف ابوقیس جراب کا تذکرہ کرتے ہیں، بیہقی نے کہا یہ حدیث منکر ہے، اس کو سفیان ثوری اور عبدالرحمٰن بن مہدی ، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی ،امام مسلم نے ضعیف کہا ہے۔
اگریہ سوال کیا جائے کہ ابن دقیق العید نے اس کی تصحیح پر اعتماد کیا ہے اور کہا ہے کہ ابوقیس کی روایت دوسروں کے مخالف نہیں ہے، کیونکہ وہ تو ایک ارم زائد بیان کررہے ہیں ۔اس کاجواب یہ ہے کہ اگر اس روایت کے یہ الفاظ ہوتے کہ آنحضرتﷺ نے موزوں پر اور جرابوں اور جوتی پر مسح کیا تو ایک امر زائد تھا، لیکن اس نے تو موزے کے بجائے جراب اور جوتی کا ذکر کیا ہے ، تو یہ امر زائد نہیں ہے بلکہ ثقات کی مخالفت ہے، باقی رہا ترمذی کا اس کو حسن صحیح کہنا، تو امام نووی نے کہا کہ جن لوگوں نے اس حدیث کی تصنیف کی ہے ، ان میں سے ہر ایک امام ترمذی سے مقدم ہے اور پھر یہ اصول بھی ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ لفظ جراب مختلف المفہوم ہے ، موزے کے اوپر جولفافہ پہنا جاتا ہے اس کو جرموق کہتے ہیں اور جرموق پر جو پہنا جاتا ہے اس کو جراب کہتے ہیں، تو ممکن ہے ، جراب سے چمڑے کا وہ لفافہ مراد ہو جو جرموق پر پہنا جاتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ دلیل تو ہماری ہوگی نہ کہ تمہاری اور پھر یہ بھی خیال کرنا چاہیے کہ جراب پر مسح کرنے والوں کا مقصد تو یہ ہے کہ صرف جراب پر مسح کرنا جائز ہے، حالانکہ اس حدیث میں جراب اور جوتی پر مسح کا ذکر ہے یعنی جراب کے اوپر جوتی پہنے ہوئے آپ نے مسح کیا، صرف جراب پرمسح نہیں کیا۔
یہاں ایک اور خدشہ بھی ہے کہ جراب سوتی بھی ہوتی ہے اور اونی بھی، موٹی اور باریک بھی ، اور وہ بھی جس کے نیچے چمڑا لگا ہوتا ہے تو جب تک کسی خا ص لفظ سے پتہ نہ چلے کہ وہ جراب جس پر آنحضرتﷺ نے مسح کیا وہ چمڑے والی نہ تھی، تب تک مقصود مجوزین ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ چمڑے والی جراب تو موزہ ہی کے حکم میں ہے، اگر کہا جائے کہ دوسری جراب کا بھی احتمال تو ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس میں جب صراحت نہیں ہے تو نفس مطمئن نہیں ہوسکتا اور حضور نے فرمایا ہے ’’شک والی چیز کو ترک کردو‘‘
باقی رہا صحابہ کرام کا عمل تو ان سے مسح جراب ثابت ہے اور تیرہ صحابہ کرام کے نام صراحۃ سے معلوم ہیں کہ وہ جراب پر مسح کیا کرتے تھے یعنی حضرت علی ؓ، ابومسعود انصاریؓ، انسؓ، اب عمرؓ، براء بن عازبؓ، حضرت بلالؓ، عبداللہ بن ابی اوفیؓ، سہل بن سعدؓ، ابوامامہؓ، عمرو بن حریثؓ، عمرو بن عباسؓ، اگر حدیث مرفوع کے بجائے ان کے عمل سے استدلال کیا جائے تویہ اس سے بہتر ہے ، لیکن ان کے عمل میں ایک اور شبہ پیدا ہوتا ہے ، وہ یہ کہ یہ فعل ایک ایسا کام ہے جس میں اجتہاد کو دخل ہے اور جس میں اجتہاد کو دخل ہو، صحابی کا وہ فعل مرفوع حکمی نہیں کہلا سکتا۔
باقی رہا قیاس کا مسئلہ کہ جب موزہ پر مسح جائز ہے تو قیاسات جراب پر بھی جائز ہونا چاہیئے، کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق مؤثر نہیں ہے اس پر شبہ یہ ہے کہ اگر مسح موزہ کی کوئی علت منصوص ہوتی تو اس علت کی بنا پر جراب کے مسح کو اس پر قیاس کرلیا جاتا لیکن یہاں کوئی علت منصوص نہیں ہے، ممکن ہے ہم کوئی اور علت سمجھیں اور حقیقت میں کوئی اور ہو،اگر سوال کیا جائے کہ صحابہ کی شان اس سے ارفع و اعلیٰ ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کی مخالفت کریں تو آخر کسی دلیل کی بنا پر ہی صحابہ نے جراب پر مسح کیا ہوگا۔ اگرچہ وہ ہم کو معلوم نہیں تو ہم بھی اسی وجہ سے مسح کرلیں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر صحابہ سے کوئی نقلی دلیل ہے تو وہ کہاں ہے، کیسی ہے، جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے، ہم قرآن اور متواتر حدیث کے مضمون کو کیوں چھوڑ دیں اور اگر صحابہ کے فعل سے استدلال کیا جائے، تو اس کا جواب پہلے گذرچکا ہے کہ اس میں اجتہاد کو دخل ہے اور پھر یہ بھی تو معلوم نہیں کہ صحابہ کون سی جراب پر مسح کیا کرتے تھے، جب تک ان تمام باتوں کی وضاحت نہ ہوجائے ہم کتاب اللہ کے مضمون کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔