سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(63) جو یہ آیۃ ہے کہ ان الحسنات یذھبن السیئات اس کے معنی

  • 5570
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1458

سوال

(63) جو یہ آیۃ ہے کہ ان الحسنات یذھبن السیئات اس کے معنی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ قرآن شریف میں  جو یہ آیۃ ہے کہ ان [1]الحسنات یذھبن السیئات اس کے معنی قرآن میں  یہ لکھے ہیں کہ نیکیاں لے جاتی ہیں بُرائیوں کو، اگر کوئی اس کےمعی یوں کہے کہ برائیاں لے جاتی ہیں نیکیوں کو، پس وہ شخص کس فریق اور کس مذہب کا ہے اور کس دلیل سےمعنی کی مخالفت کرتا ہے اس کاجواب بیان کریں۔ اللہ تعالیٰ اجر دے گا۔



[1]    نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

باتفاق مفسرین اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ’’نیکیاں لے جاتی ہیں بُرائیوں کو‘  اور شان نزول سے اورعربیت کے قاعدہ سے بھی اس آیت کا یہی معنی متعین ہے اس آیت کے  معنی جوشخص یہ کہے کہ بُرائیاں لے جاتی ہیں نیکیوں کو وہ بالکل جاہل اور نالائق ہے کیونکہ جو شخص ذرا بھی عربیت سے واقف  ہوگا، وہ ہرگز اس آیت کے یہ معنی نہیں کہے گا اور اس کوصاف غلط سمجھے گا جو شخص اس آیت کے یہ معنی کہتا ہے کہ بُرائیاں لےجاتی ہیں نیکیوں کو، اگر اس کایہی عقیدہ ہے کہ بُرائیوں سے نیکیاں جاتی رہتی ہیں توایسا عقیدہ ایک شاخ مذہب  خوارج کی ہے کیونکہ ان کا یہ مذہب ہے کہ معاصی سے مسلمان کافر ہوجاتا ہے چنانچہ فتح الباری میں  ہے  ۔ الخوارج[1] یکفرون بالمعاصی۔ انتہی واللہ تعالیٰ اعلم۔

حررہ محمد عبدالحق ملتانی عفی عنہ                                                                   (سید محمدنذیر حسین)

ہوالموفق:

جواب صحیح ہے ، بےشک آیت مذکورہ کے یہی معنی ہیں کہ نیکیاں لے جاتی ہیں بُرائیوں کو، یعنی نیکیاں کی کفارہ ہوجاتی ہیں اور نیکیوں کی وجہ سے گناہ مٹائے جاتے ہیں، مگر ہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نیکیاں اسی حالت میں  بُرائیوں کا کفارہ ہوں گی جب کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے گا  اور اگر کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں کیا جائےگا تو نیکیاں بُرائیوں کی کفارہ نہیں ہوں گی،حافظ ابن حجر فتح الباری جزو 19 صفحہ 215 میں  لکھتے ہیں:

وتمسک [2]بظاہر قولہ تعالیٰ ان الحسنات یذھبن السیئات المرجیۃ و قالوا ان الحسنات تکفر کل سیئۃ کبیرۃ کانت او صغیرۃ وحمل الجمہور ھذا المطلق علی المقید فی  الحدیث الصحیح ان الصلوٰۃ ان الصلوٰۃ کفارۃ لما بدیہما ما اجتنب الکبائر فقال طائفۃ ان اجتنبت الکبائر کانت الحسنات کفارۃ لماعدا الکبائر من ذنوب وان لم تجتنبت الکبائر لم تحط الحسنات شیئا وقال اخرون ان لم تجتنبت الکبائر لم تحط الحسنات شیئا منہا و تحط الصغائر منہا انتہی واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم۔کتبہ محمد عبدالرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ



[1]    خوارج گناہوں کے مرتکب کی تکفیر کرتے ہیں۔

[2]    مرجیہ نے اللہ تعالیٰ کے قول ان الحسنات یذھبن السیئات کے ظاہر الفاظ سے تمسک کرتے ہوئے کہا کہ نیکیاں ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں، خواہ گناہ کبیرہ ہوں  یا صغیرہ  اور جمہور نے اس مطلق آیت کو صحیح حدیث سے مقید کیا ہے کہ نماز دوسری نماز تک کے گناہوں کا کفارہ ہے جب تک کہ آدمی کبیرے گناہوں سے پرہیز کرے، پھر ایک گروہ کہتا ہے  ک ہاگر کبائر سے پرہیز  کیا جائے تو نماز صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور اگر اجتناب نہ کرے تو پھر صغیرہ کا کفارہ بھی نہیں بنتی اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ صغیرہ بہرحال معاف ہوجاتے ہیں ، کبیرہ معاف نہیں ہوتے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے