سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) جادو کی حقیقت

  • 5569
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-26
  • مشاہدات : 2130

سوال

(62) جادو کی حقیقت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جادو کی حقیقت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جادو کی حقیقت و وجود علمائےاہلسنت کے نزدیک ثابت ہے ، خداتعالیٰ کی مخلوق ہے، چنانچہ صاحب معالم التنزیل اور ملا علی قاری نے تصریح کی ہے کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک جادو کی حقیقت ثابت ہے۔ معتزلہ اور ابوجعفر استر آبادی اس کے قائل نہیں ہیں، میں  کہتا ہوں کہ ہاروت  اور ماروت کے قصہ سے اس کی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس پرنص فرمائی ہے۔ وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت و ماروت یہ جادو ہی کا علم ہے جسے لوگوں کی آزمائش کے لیے نازل کیا گیاہے، اگر ایمان کی شرائط کی تردید کرے تو اس کا کرنے والا اور سیکھنے والا کافر ہے، شیخ عبدالحق نے ترجمہ مشکوٰۃ میں  کہا ہے کہ جادو کی تاثیر اور اس کا وقوع خدا کی تخلیق سے حق اور ثابت ہے ، جادو کی بالتفصیل معرفت لغوی اور اصطلاحی معانی سے کھل جاتی ہے۔مبتدی اس سے کافی فائدہ اٹھائیں گے۔

لغت کے لحاظ سے سحر (جادو) ہر وہ چیز ہے جس کا مآخذ لطیف ہو، اسباب مخفی ہوں، چنانچہ کہتے ہیں کہ ’’عالم آدمی جادو گر ہوتا ہے‘‘ مطلب یہ کہ بڑی باریک باتیں عالم کو معلوم ہوتی ہیں، شریعت کے لحاظ سے اس کی تعریف میں  اختلاف ہے، سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ  سحر ایک ایسا علم ہے جس سے خرق عادت کی قوت پیدا ہوتی ہے کسی قول یا فعل حرام کی پیہم مزادلت سے، پھر اگر اس چیز کو جادو گر خدا کے سوا کسی اور چیز کی طرف اس طرح نسبت کرے کہ وہ مؤثر بالذات ہے جیسے کہ ستاروں کو مؤثر بالذات سمجھ کر ان کی طرف کسی چیز کو منسوب کرے تو وہ کافر ہے، اگر ان کو مؤثر بالذات نہ جانے اور فعل یا قول حرام سے جادو کرے تو وہ فاسق ہے اور اگر قول یا فعل حرام نہ ہو اور کسی چیز کو مؤثر بالذات نہ سمجھے تو وہ مومن ہے چنانچہ حدیث میں  آیا ہے کہ ’’بعض بیان جادو ہیں‘‘ اور یہ سحر حلال ہے کہ اس سے مشکل چیز کی وضاحت ہوجاتی ہے ، بیان سے قبیح چیز خوبصورت معلوم ہونے لگتی ہے اور خوبصورت قبیح۔

خرق عادت کئی قسم کا ہے ، اگر دعوے نبوت ہو اور اس سے خرق عادت ظاہر ہو تو وہ معجزہ ہے اگرکسی مؤمن متقی سے بغیردعوے نبوت بغیر ظاہری اور خفیہ اسباب کے کوئی چیز خرق عادت ہو تو وہ  کرامت ہے، اگر مومن سے کوئی چیز اسباب خفیہ کے ماتحت ظاہر ہو تو وہ جادو  حلال ہے ،اور اگر عامی آدمی سے خفیہ اسباب کے تحت کوئی خرق عادت ظاہر ہو اور اس کو غیر خدا کی طرف مجازاً منسوب کرے تو اس کا کرنے والا فاسق ہے اور اگر حقیقۃ غیر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ جادو حرام ہے اور اس کا کرنے والا کافر ہے۔

اس کی مثال بالکل یہی ہے کہ مؤمن آدمی ادویہ اور جڑی بوٹیوں سے علاج معالجہ کرتے ہیں لیکن ان کی تاثیر کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں، ان کے ایمان میں  کوئی خلل نہیں پڑتا یا کسی نیک آدمی سے دعا کراتے ہیں کہ وہ بھی ایک غیر حسی علاج ہے اور اس آدمی کو مؤثر بالذات نہیں سمجھتے تووہ مؤمن ہی رہتے ہیں اور اگر کوئی ادویات کو مؤثر بالذات جانے یا کسی نیک آدمی یا بد کو مؤثر بالذات سمجھ کر اس چیز کو اس کی طرف منسوب کردے تو وہ کافر ہوجاتا ہے جیسا کہ مشرکین اپنے بتوں وغیرہ سے جاکر طلب رزق یا فرزند وغیرہ کرتے ہیں۔

پھر جادو کی کئی قسمیں  ہیں، ایک تو کلدانیوں کا جادو تھا، یہ قدیم زمانہ کے لوگ تھے، ستاروں کی پوجا کرتے تھے، ان کو مدبر عالم مانتے تھے، ان کے مقالات کوباطل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو  مبعوث فرمایا اور جادو کی ایک قسم وہمی لوگوں کی ہے کہ ان پرنفسوس  تویہ اثر انداز ہوتے ہیں،وہم کی کیفیت کا اثر انسانی طبیعت پرہوتا ہے مثلاً اگر ایک لکڑی زمین پر پڑی ہو تو انسان اس آسانی سے چل سکتا ہے اور اگر وہی لکڑی کسی نہر یادریا پر پل بنا کررکھ دی جائے تو اس پر انسان نہیں چل سکتا کیونکہ قوت وہمیہ نے غلبہ پالیا کہ میں  اس سے گر جاؤں گا ،حکماء کہتے ہیں جس کو نکسیر بہتی ہو،وہ سرخ چیزوں کی طرف نہ دیکھے، اور مرگی والا چمک دار اور سریع الحرکت چیزوں کونہ دیکھے کہ قوت وہمیہ اس پر اثر انداز ہوگی اور بیماری کا حملہ ہوجائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ احوال حیمانیہ احوال نفسانیہ کے ماتحت ہیں، تمام امتوں کا اجماع ہے کہ دعاء میں  قبولیت کا گمان ہوگا ہے بعض بادشاہوں کو فالج کی بیماری ہوئی، حاذق حکیم نے اس کو گالی دے کر اس کی حرارت عزیزی کو تیز کردیا تو وہ فوراً تندرست ہوگیا، نظر کالگ جانا بھی اسی قبیل سے ہےکہ روح جب بدن پر غالب آجاتا ہے تو عالم بالا کی طرف جاتی ہے تو وہ روح سماوی کی طرح قوی التاثیر ہوجاتی ہے ، پھراگر اس کو بیرونی امداد بھی مل جائے ، مثلاً غذا کم کھائے لوگوں سے علیحدگہ رہے، خواہشات نفسانی سے آزاد ہوجائے تو اس روح کی تاثیر دوسرے بیرونی جسم پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اگر اتنی طاقت نہ ہو تو کم از کم اپنے بدن پر اثر کرلیتی ہے، جھاڑ پھونک کی بھی یہی کیفیت ہے،اگر اس میں   الفاظ معلوم ہوں تو پھر ان کی تاثیر طبیعت انسانی پر ظاہر ہے ورنہ انسانی طبیعت پرحیرت اور دہشت غالب آجاتی ہے اور وہ طبیعت پر اثر انداز ہوتی ہے،بعض جادو تاثیرات سماوی رکھتے ہیں، مثلاً کواکب کی تاثیر اگر قوت نفس کے ساتھ متفق ہوجائے تو وہ قوی التاثیر ہوجاتی ہے اور بعض میں  قوت ارضی ہوتی ہے مثلاً جنوں کی تسخیر وغیرہ اور بعض دفعہ صرف نظر کا دھوکا ہوتا ہے اور نطر کے دھوکے عجیب و غریب قسم کے ہوتے ہیں مثلاً گاڑی میں  سوار آدمی جب باہر دیکھتا ہے تو اسے دوسری چیزوں دوڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اور گاڑی کھڑی معلوم ہوتی ہے ،بارش کے قطرے جب متواتر گرتے ہیں تو پانی کی ایک مسلسل دھار معلوم ہوتی ہے، بڑی چیز دور س چھوٹی دکھائی دیتی ہے جب انسان ایک چیز کو غور سے دیکھ رہا ہو تو کسی دوسرے آدمی کی بات سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی اس کو سمجھ سکتا ہے اگرچہ وہ قریب ہی کیوں نہ ہو، ایک کاریگر جادو گر بس یہی  وہ کام کرتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو کسی دوسری طرف منتقل کردیتا ہے اور سرعت حرکت سے ایک چیز کرجاتا ہے جس کی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جادو گر کسی آدمی کا علاج تو جڑی بوٹیوں سےکرتا ہے لیکن مریض پر اسطرح اثر ڈالتا ہے ک  جن میرے ماتحت ہیں یا مجھے اسم اعظم یاد ہے تو مریض کے ذہن پر ان چیزوں کا اثر ہوتا ہے اور قوی حساسہ کمزور ہوجاتے ہیں پھر جادو گر جو اثر ان پر ڈالنا چاہیے ڈال سکتا ہے۔

جو آدمی لوگوں کے حالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کام کے پورا کرنے میں  دل کے تعلق کا بڑا اثر ہوتا ہے، مثلاً ایک مریض جب کسی سے تعویذ لے لیتا ہے تو اس کے دل میں  آجاتا ہے کہ اب اس پر بیماری کا حملہ نہیں ہوگا۔ یہ تمام جادو کی قسمیں  ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک اللہ کی قدرت کی طرف منسوب ہیں، پھر اس پر علماء کا اجماع ہے کہ جادو کا علم فی نفسہ بُرا نہیں ہے اور نہ اس کا سیکھنا منع ہے لیکن اس سے بچنا بہتر ہے۔ بالکل  اس یطرح جس طرح فلسفے کی تعلیم سے بچنا چاہیے کیونکہ گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔

جو آدمی جادو سے کافر ہو، اس کا  حکم مرتد کا ہے اور اگر کسی انسان پر جادو کرے اور وہ مرجائے تو اگر وہ اپنے جادو کا اقرار کرے اور کہے کہ میرے جادو سے عموماً آدمی مرجاتا ہے تو اس پر قصاص واجب ہے اور اگر اس کا جادو کبھی مارے اور کبھی نہ مارے تو اس کاحکم شبہ عمدکا ہے اگر کسی اور پر اس نےجادو کیا، اور وہ کسی دوسرے پر جاپڑا تو اس کا حکم قتل خطا کا ہے ، امام رازی کہتے ہیں کہ جادو گر کو قتل کردینا چاہیے ، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے اور اس کی توبہ قبول نہ کرنی چاہیے اور اگر کہے کہ میں  نے اب جادو چھوڑ دیا ہے تو اس کا  اعتبار نہ کرنا چاہیے کیونکہ حدیث میں  ہے کہ جادوگر کی حد تلوار ہے۔

سے سب مشکل ترین جادو چاہ بابل کا ہے ، جس کو حکماء نے نمرود کے وقت بنایا تھا یہ چھ قسم کا جادو تھا، اس جادو کے حاصل  کرنے میں  بڑی مشقت اٹھانا پڑتی ہے اور اگر وہ حاصل ہوجائے تو آدمی جو چاہے، کرسکتا ہے۔ وہ خلاف عادات امور کرجاتا ہے اور عادت کے امور کو روک لیتا ہے بعض دفعہ ایسے بیماروں کا علاج کرلیتا ہے جس کے علاج سے حکماء عاجز آجاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی جسم فلکی اختیارکرلیتا ہے اور عناصر و موالید روحی حاصل کرلیتا ہے اور اجسام کی تاثیرات تمام روح کے ذریعہ ہیں، جب عالم ارواح اس کے ماتحت ہوجاتاہے ،تو گویا سارے جہان کا مالک بن جاتا ہے پس وہ بغیر جنگ و قتال کے دشمنوں کو شکست دیتا ہے چنانچہ ارسطو نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ حکیم برہماطوس اور بیداغوس کاشہر بابل میں  مقابلہ ہوگیا ، بیداغوس نے کہا کہ تو میرا مقابلہ نہیں کرسکتا کہ مریخ اور زحل میرے مقابلہ سے عاجز ہیں، برہماطوس ن ےجب یہ بات سنی تو اس نے ترنج جلا کر مریخ کی روح سے مدد حاصل کی اور اسی وقت بیداغوس کو جلا دیا۔

قصہ مختصر جادو کا  وجو دحق ہے ، ثابت ہے۔ معتزلی اس کے قائل نہیں ہیں کیونکہ معجزہ اور جادو کے ظاہر حال پرکوئی فرق اور حد فاصل نہیں ہے، لہٰذا وہ اس کے منکر ہوگئے لیکن اہل سنت کے نزدیک جادو مؤثر بالذات نہیں ہے، بلکہ  اس کی تاثیر خدا تعالیٰ کی مشیت پرموقوف ہے اور پہلے جو فرق معجزہ اور جادو میں  بیان ہوچکا ہے اس کی بنا پر معتزلہ کا قول رد ہوجاتا ہے ۔واللہ اعلم۔ حررہ السید محمد نذیر حسین عفی عنہ           (سید محمد نذیر حسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے