سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) عبادات شافقہ اور نفس کشی ثواب کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں یا

  • 5564
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1637

سوال

(57) عبادات شافقہ اور نفس کشی ثواب کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں یا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ عبادات شافقہ اور نفس کشی ثواب کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں یا رسول اللہ ﷺ کی اتباع زیادہ بہتر ہے ؟ امید ہے کہ کتاب و سنت سے اس کا جواب عنایت فرمائیں گے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں  ثواب زیادہ ہے، نہ کہ عبادات شاقہ میں  جو سنت کے خلاف ہیں، رسول اللہﷺ کو آسان دین دے کر بھیجا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ابراہیم حنیف کے مذہب کی پیروی کرو‘‘ الآیۃ اس نےتم پر دین میں  کوئی تنگی نہیں رکھا‘‘ الآیۃ ’’اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتے ہیں نہ کہ تنگی‘‘ وغیرہ ، بخاری شریف میں  ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کےنزدیک سب سے  پیارا دین حنیف ہے جو آسان ہے ، مطلب یہ ہے کہ دین کے تمام امور ہی خدا تعالیٰ کو پسند ہیں لیکن سب سے زیادہ پیارا آسان مسلک ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’بہترین دین وہ ہے جو آسان ہے ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہندؤوں کو تعلیم فرمایا ہے کہ خدا کے بندے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھنہ ڈالنا جیسا پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے ’’دین آسان ہے‘‘ اس حدیث سے ان لوگوں کارد ہونا  ہے، جوکہتے ہیں کہ دین پرعمل کرنا بڑا مشل ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا، جو دین میں  سختی اختیار کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا‘‘ یعنی وہ ریاضات شاقہ سے تنگ آکر بالآخر رخصت پرعمل کرنے پر مجبور ہوجائے گا اور اس صورت میں  طلب الکل فوت الکل کا مصداق بن جائے گا، شریعت کامقصد یہ ہے کہ ایسی نفلی افراط سے بچنا چاہیے جو ترک افضل کرائے یا واجب و فرض میں  خلل ڈالے مثلاً کوئی ساری رات نفل پڑھے اور آخری وقت میں اس پرنیند غالب آجائے اور صبح کی نماز ضائع ہوجائے‘‘ پس تم افراط و تفریط سے بچو‘‘ اور ریاضت سے بچتے ہوئے سہولت اختیار  کرو کہ اس پرتم مواظیت اختیار کرسکو گے اور لوگوں کومداومت پراجر جزیل کی بشارت سناؤ اور کچھ سفر پہلے پہر کرلیا کرو اور  کچھ پچھلے  پہر اور کچھ رات کی تاریکی میں ‘‘

آنحضرت ﷺ نے عامل کو مسافر سے تشبیہ دی ، کہ اگر کوئی مسافر دن رات چلتا رہے گا تو آخر تھک جائے گا، اور اگر کوئی مسافر کچھ دیر آرام کرلے اور کچھ سفر کرلے تو وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے گا اور حضورﷺ کی یہ تشبیہ بہت صحیح ہے کیونکہ دنیا سے آخرت کو چلنا بھی ایک سفر ہے۔ بخاریشریف میں  اس حدیث سے پہلے قیام اور صلوۃ وغیرہ کے فضائل کی حدیثیں بیان ہوئی تھیں، ان کے بعد امام بخاری اس حدیث کو لاتے ہیں کہ اعمال بجا لانے میں  میانہ روی اختیار کرنا چاہیے۔ بخاری شریف کی دوسری حدیث یہ ہے کہ ’’اللہ کو پیارا دین وہ ہے جس پر عامل ہمیشہ عمل کرسکے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہمیشگی اسی عمل پر  کرسکتا ہے جو آسان ہو اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعمال کو دین کہا گیا ہے کیونکہ تنگی یا آسانی تو اعمال میں  ہی ہوسکتی ہے نہ کہ تصدیق میں  اور دوام سے مراد حقیقی نہیں ہے کہ ہر وقت معل ہوتا رہے بلکہ اس سے مراد دوام عرفی ہے حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور  حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ آپ نے پوچھا یہ کون عورت ہے، حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا یہ فلاں عورت ہے (یعنی بنو  اسدیہ) جو رات کو کبھی نہیں سوتی،یہ مدینہ میں  سب سے زیادہ عبادت کرنے والی عورت ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا، اے عائشہؓ اس بات کو چھوڑ، تم پر اتنا ہی ضروری ہے  جس کی تم طاقت رکھو، جب تم اکتا جاتے ہو تو خدا تعالیٰ بھی اکتا جاتے ہیں۔ اللہ کو سب سے پیارا دین وہ ہے جو آسان ہو۔‘‘

اس حدیث کوملحوظ رکھتے ہوئے بہت سے علماء نے استنباط کیا ہےکہ تمام رات نماز پڑھنا مکروہ ہے۔امام نووی نے کہا ہے کہ تھوڑے عمل کا اجر بسا اوقات ہمیشگی کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے اور زیادہ عمل کا اجر بسسبب منقطع ہوجانے  عمل کے گھٹ جاتا ہے اور اس حدیث میں  قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور رہبانیت کو انہوں نے از خود بنا لیا تھا ، ہم نے ان پر اس کو فرض نہیں کیا تھا،بالآخر وہ اس کو نباہ نہ سکے الآیۃ۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص جب عمل سے تھک جاتے تو اس تکرار پر بڑے پشیمان ہوتے، جو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے تخفیف عبادت کےمتعلق کی تھی اور کہتے تھے  کاش میں  آنحضرتﷺ کی رخصت کو قبول کرلیتا اور اپنے مقرر کردہ عمل میں  کبھی کوتاہی نہ کرتا۔

 حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ جب ان کو کوئی حکم دیتے تو ایسا ہی حکم دیتے جو لوگوں کی طاقت کے مطابق ہوتا اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کو پیارا عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے، لوگوں نےعرض کیا اے اللہ کے رسول1 ہم آپ جیسے تو نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ ن ےآپ کے گناہ تو معاف کردیئے ہیں تو آنحضرتﷺ سخت ناراض ہوئے ، یہاں تک کہ آپ کے چہرے پر غضب کے آثار نظر آنےلگے، پھر آپ نےفرمایا،  میں تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں، تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں، مطلب یہ کہ خداوند تعالیٰ کا قرب حاصل کرنےکے لیے میری اطاعت کرو، میری ہدایات کو ملحوظ رکھو، اپنےاوپر آسان عمل رکھو اور اپنے قیاس  سے عبادات شاقہ اختیار نہ کرو یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے  متعلق ایک الگ باب باندھا ہے کہ ’’عبادت میں  سختی مکروہ ہے‘‘ اور حدیث بیان کی ہے ، انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں  داخل ہوئے اور دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہے۔ آپ نے فرمایا ، یہ رسی کیسی ہے، لوگوں نے کہا یہ زنیب کی رسی ہے، جب وہقیام کرتے کرتے تھے جاتی ہے تو اس سے اپنے آپ کوباندھ لیتی ہے، تو آنحضرتﷺ نے فرمایا، اس کو کھول دو۔ اپنی خوشی تک نماز پڑھنی چاہیے، جب تھک جائے تو بیٹھ جائے اور حضرت عائشہؓ نے کہا، کہ میرے  پاس بند اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی تو آنحضرتﷺ اندر داخل ہوئے ، آپ نے پوچھا یہ عورت کون ہے میں  نے کہا یہ فلاں عورت ہے یہ رات کو کبھی نہیں سوتی، پھر اس کی نماز کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا، اے عائشہ اس بات کو چھوڑ دے۔ اتنا ہی عمل کیا کرو جتنی تمہیں طاقت ہو، اس وقت تک خدا تعالیٰ بھی نہیں اکتاتے جب تک کہ تم نہ اکتا جاؤ۔

اس حدیث سے واضح ہوا کہ عبادات شاقہ مکروہ  وخلاف طبع آنحضرتﷺ ہیں ،کیونکہ ان پرمداومت دشوار ہے ، امام بخاری و مسلم باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘  میں  حضرت انس ؓ سے حدیث لائے ہیں کہ تین آدمی آنحضرتﷺ کی بیویوں کے پاس آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کےمتعلق سوال کیا جب انہوں نے آپ کی عبادت کے متعلق خبر دی تو انہوں نے اس عبادت کو کم محسو س کیا، کہنے لگے ہماری آنحضرتﷺ سے برابری کیسے ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں تو ایک نے کہا کہ میں  تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھاکروں گا، دوسرے نے کہا، میں  ہمیشہ روزے رکھا کروں گا اور کبھی  افطار نہ کروں گا اور تیسرے نے کہا، میں  ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں گا ، کبھی نکاح نہ کروں گا، تو نبیﷺ تشریف لے آئے اور فرمایا کیاتم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے اس طرح کہا ہے، خدا کی قسم میں  تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں  روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور رات کونماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں  نے عورتوں سے نکاح بھی کررکھے ہیں جو شخص میری سنت کو حقیر سمجھے وہ میری امت میں  سے نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ ابن الہمام صاحب فتح القدیر محشی ہدایہ اور ملا علی قاری نے کہا ہے ’’فضیلت نبیﷺ کی اتباع میں  ہے، نہ اپنے خیال کے مطابق عبادات شاقہ میں  جو بظاہر افضل معلوم ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے افضل نبی کے لیے سب سے اشرف اعمال پسند فرمائے ہیں پس جو چیز آنحضرتﷺ کے مزاج کے  خلاف ہے،وہ مردو ہے تفسیر  نیشاپوری اور معالم التنزیل میں  مذکور ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو وعظ فرمایا، قیامت کا حال بیان کیا، لوگوں کی طبیعت نرم ہوئی اور رونے لگے تو دس صحابہ کرام حضرت عثمان بن مظعون جمہی کے گھر میں  جمع ہوئی (یہ آنحضرتﷺ کے رضاعی بھائی تھے) اور آپس میں  مشورہ کیا کہ ان باتوں پر اتفاق کریں کہ ہم راہب بن جائیں گے،موٹے کپڑے پہنیں گے اپنے آپ کو خصی کردیں گے،ہمیشہ روزہ رکھا کریں گے ، رات کو قیام کیا کریں گے، سوئیں گے نہیں، روغن اور گوشت نہیں کھائیں گے، عورتوں کے قریب نہ جائیں گے، خوشبو نہ لگائیں گے، زمین میں  سیاحت کریں گے، جب اس بات کی اطلاع آنحضرتﷺ کو ہوئی تو آپ عثمان بن مظعون کے گھر تشریف لےگئے وہ تو نہ ملے آپ نے اس کی عورت سے پوچھا کیا جو بات تیرے خاوند اور اس کے ساتھیوں کےمتعلق مجھے پہنچی ہے ، وہ صحیح ہے؟ اس نے اپنے کاوند کا راز بتانا بھی مناسب نہ سمجھا اور آپ سے غلط بیان بھی نہ کرنا چاہتی تھی کہنے لگی یارسول اللہﷺ اگر آپ کو عثمان نے بتایا ہے تو پھر صحیح ہی ہوگا آپ واپس تشریف لے آئے پھر جب وہ صحابہ آپ سےملے تو آپ نے  فرمایا،مجھے تم سے اس طرح کی بات پہنچی ہے کیا یہ صحیح ہے؟ ہاں اے اللہ کے رسول! ہمار ا ارادہ تو بھلائی کا تھا، آپ نے فرمایا ، مجھے ان باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے ،تمہاری جانوں کا بھی تم پر حق ہے ، روزے بھی رکھا کرو اور افطاربھی کیاکرو، سویا بھی کرو اور نماز بھی پڑھا کرو، میں  قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، گوشت  اور روغن بھی کھاتا  ہوں، عورتوں سے تعلقات بھی رکھتا ہوں، جو میری سنت کو حقیر سمجھے وہ میری امت میں  سے نہیں ہے، پھر  آپ نے لوگوں کو اکٹھا فرمایااور خطبہ ارشاد فرمایا، ان لوگوں کا کیا حال ہے جنہوں ن عورت، کھانے، خوشبو، نیند، اور خواہشات کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے ، میں  تم کو اس بات کا حکم نہیں دیتا کہ  تم راہب بن جاؤ، یہ میرا دین نہیں ہے، پہلے لوگ بھی اپنے اوپر سختی کرکے ہلاک ہوئے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی اور آج گرجوں میں  یہ انہی کا بقایا ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی،’’اے ایماندارو!اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام مت ٹھہراؤ اور زیادتی نہ کرو اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘

اہل بصیرت جانتے ہیں کہ شیریعت کے  مصالح و حقائق پر نگاہ رکھنا صرف نبی کا کام ہے نہ کہ ولی کا خواہ وہ کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو، کیونکہ جب آنحضرتﷺ کوحضرت ابوبکرؓ اور ان کے ساتھیوں کی رائے بھی پسند نہ آئی تو دوسرا کوئی ان سے بہتر اور کون ہوگا۔

قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی نےاپنی  کتاب ارشاد الطالبین میں  فرمایا ہےکہ ’’خواجہ  بہاؤ الدین نقشبند اور ان جیسے بزرگوں نے فیصلہ کیا ہے کہجو عبادت سنت کے موافق ہے وہ عبادت تزکیہ نفس کے لیے مفید تر ہے، لہٰذا بدعت حسنہ سے بھی اسی طرح گریز کرنا چاہیے جیسے کہ بدعت سیئہ سے کیونکہ رسول اللہﷺ نےفرمایا ہے، ہربدعت گمراہی ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی گمراہی ہدایت پر نہیں ہوسکتی، پھر حدیث میں  یہ بھی آیا ہ ےکہ کوئی قول اس وقت تک قبول نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس پر عمل نہ کیا جائے اور پھر قول و عمل دونوں نیت کے بغیر قبول نہیں ہوتے اور پھر قول و عمل و نیت تینوں اس وقت تک قبول نہیں ہوتے جب تک کہ سنت کے مطابق نہہوں اور جب اعمال سنت کےمطاق نہ ہوں گے تو ان کا ثواب کیا ملے گا؟ اور اگر عبادات شاقہ کو تزکیہ نفس میں  کوئی دخل ہوتا تو آنحضرتﷺ صحابہ کرام کو اس سے منع نہ فرماتے، حضرت انسؓ کی حدیث میں  آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا’’اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی تھی سو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی پس آج گرجوں میں  انہیں لوگوں کا بقایا ہے۔‘‘

اگر کوئی سوال کرے کہ عبادات شاقہ و ریاضات بدنیہ سے ہم ترقی محسوس کرتے ہیں،مکاشفات اور ترقی باطن نصیب ہوتی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا،تو ہم کہتے ہیں واقعی ریاضات سے یہ چیزیں نصیب ہوتی ہیں لہٰذا حکمائے اشراقیین اور ہندو جوگی ان صفات سےمتصف ہیں، یہ کمالات اہل اللہ کی نظر سے ساقط ہیں، ان کے نزدیک ان کی قیمت ایک جو بھی نہیں ہے، کیونکہ نور سنت کے بغیر رذائل نفس  اور وساوس شیطانی ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔                                                            (سید محمد نذیر حسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے