سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) عمرو کہتا ہے کہ کفر و شرک کرنے سے اور ہر حرام..الخ

  • 5546
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1522

سوال

(39) عمرو کہتا ہے کہ کفر و شرک کرنے سے اور ہر حرام..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں  کہ عمرو کہتا ہے کہ کفر و شرک کرنے سے اور ہر حرام و ممنوعات شرعیہ و سماع و رقص و مزامیر و ملاہی کی حلت کرنے اور کل محارم و ممنوعات کو کہ اس کے مرتکب پر قرآن و حدیث میں  وعید آئی ہے ، ان کے حلال اور اچھا اوربہتر اور روا جاننے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، مناسب  و لائق ہےکہ مرتکب کفر و شرک و محارم و ممنوعات قطعی کا حلال جاننے والا، حلال کو حرام جاننے والا ، توبہ از کفر و شرک و معاشی و تجدید ایمان و تجدیدنکاح کرے تاکہ داخل اسلام رہے ، مگر خالد اور پیرؤ اس کے یہ کہتے ہیں کہ کفر و شرک کرنے سے اور ہر حرام و ممنوعات شرعیہ و سماع و رقص و مزامیر و ملاہی کی حلت اور  محارم و ممنوعات قطعی کے مرتکب ہونے اور حلال جاننے سے نہ کچھ ایمان و اسلام میں  خلل و حرج واقع ہوتا ہے اور نکاح بھی ہرگز ہرگز نہیں ٹوٹتا، تجدید ایمان و تجدیدنکاح کا مسئلہ بے اصل اور محض غلط ہے، تجدید ایمان و تجدید نکاح کا مذکور قرآن و حدیث و فقہ میں  کس جگہ اور کہاں آیا ہے، اکثر بندگان دین صاحب علم و عمل و اہل کرامت و کشف ،غیب کی باتیں  بتانے والے اور حالات غیب کے جاننے والے تو مجلس سماع و رقص میں  یا ادب دست بستہ بیٹھ کر بشوق طبع تمام راگ سنتے ہیں اور ذرہ بھی انکارنہیں کرتے اور نہ کسی کوسماع و رقص کے سننے و دیکھنے سے منع  کرتے ہیں بلکہ ترغیب دیتے ہیں جس تقریب میں  کہ سماع و رقص نہ ہو مثلاً نکاح وغیرہ میں  تو اس تقریب میں  شریک ہونے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بے سماع و رقص کے شریک محفل ہونا بے فائدہ ہے چنانچہ خالد و تابعین اس کی کل تقریبات مشروعہ سے انکار کرتے ہیں اور جو کوئی تقریب شرعی میں  شامل ہو ، اس سے متنفر رہتے ہیں۔

(2) عمرو کے پاس زید از خود بارادہ توبہ خالص کرنے کو آیا، اور عمرو نے زید سے کہا کہ جو ترکیب توبہ کرنے کی ہے ، وہ مجھ کو تعلیم کرکے توبہ کرادو ، چنانچہ عمرو نے حسب طلب زید اس کو دو رکعت نماز توبہ پڑھوا کر بعد سلام دست برداشتہ بطور استغفار اور جو دعا کہ توبہ کے بارے میں  احادیث نبوی سے ثابت ہے پڑھوا کر بعدہ مصلحتاً قرآن شریف زید کے ہاتھ میں  دے کر بطور عہد و پیمان اس سے کہلوایا کہ جو کچھ کہ اوامر و نواہی قرآن شریف و اپنے کلام پاک میں   اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں ان اوامر کو حتی الوسع بجا لاؤں گا اور نواہی سے تابمقدور باز رہوں گا ، مگر اب خالد اور اس کے متبع کہتے ہیں کہ توبہ کرنا اور ہاتھ میں  قرآن شریف لے کر عہد و پیمان اوامر کے بجا لانے  کا اور منکرات سے باز رہنے کا نہایت زبون اور بے جا، اور نادرست ہے، کیونکہ  قرآن شریف کے اوامر و نواہی بجا لانا ضبط و طاقت بشریت و انسانی سے بعید اور غیر ممکن ہے توبہ کرنا اور قرآن شریف کااٹھانا نہایت شوم و منحوس و نامناسب و نامبارک ہوتا ہے جو کوئی توبہ کرکے قرآن شریف کو اٹھاتا ہے وہ  تباہ و جذامی  وخوار اور ویران ہوجاتا ہے ۔ خالد و اس کے پیرو عمرو وزید کو بسبب توبہ کرنے اورقرآن شریف کے اوامر و نواہی پر عہد کرنے سے نہایت ذلیل و خوار و حقیر سمجھت ےہیں اور متنفر و بیزار و کنارہ کش رہتے ہیں۔ خالد اور اس کے پیرو کہتے ہیں کہ جو شخص جب تک تائب نہیں ہوتا وہ بےگناہ اور مرفوع القلم ہے۔ اس کے سب گناہ معاف ہیں،مگر جو تائب ہوکر پھر گناہ کرے تو وہ گنہگار ہے اس وجہ سے غیر تائب اچھا ہے،تائب بے خوف ہے ، توبہ کرنےسے کیا حاصل ،اللہ تعالیٰ نے ممنوعات و فواحش کیوں پید کیے ، انسان ہی تو ممنوعات و فواحش وغیرہ کے مستحق ہیں، ورنہ فرشتے تو حظ نفس سے مبرا ہیں درعایت زندگی مقدم ہے۔

(3) عمرو تو، توبہ کو طریقہ اسلام سے شمار کرتا ہے اور بدعات اور منکرات سےمنع کرتا ہے اور توبہ کرنا ہر حال میں  بہتر و انسب و افضل جانتا ہے اورتائب سے نہایت خوش و راضی ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے کالد اور اس کے پیرو توبہ کرنے کو مذموم و فعل عبث تصور کرتے ہیں اور تائب کی نہایت مذلت و مذمت بیان کرتے ہیں اور  تائب سے از حد بیزار رہتے ہیں بلکہ کینہ و پرخاش اور درپئے ازار رہتے ہیں اور ارتکاب بدعات کو موجب فلاح و ثواب دارین تصور کرتے ہیں اور مرتکب بدعت کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں ، اتباع سنت سےبیزار رہتے ہیں اور متبع سنت کے عدد مبین ہیں۔

اب سوال یہ ہےکہ عمرو و خالد کے اقوال مذکورہ سے کس کاقول حق و موافق شریعت کے ہے اور کس کا قول ناحق و خلاف شریعت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمرو کا یہ قول کہ ’’کفر و شرک کرنے سے ، اور ہر حرام و ممنوعات شرعیہ کی حلت کرنے اور کل محارم و ممنوعات کو کہ اس کے مرتکب پر قرآن و حدیث میں  وعید آئی ہے، ان کے حلال اور اچھا جاننے اور روا جاننے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے‘‘ حق اور موافق شریعت کے ہے، بےشک جو شخص کل محارم و ممنوعات قطعیہ کو حلال اور اچھا اور بہتر جانے اور حلال کو حرام جانے اور  مرتد اور خارج از اسلام ہوجاتا ہے اور اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، ایسے شخص کو کفر و شرک سے اور محارم و ممنوعات کے حلال جاننے اور حلال کوحرام جانے سے توبہ کرنا لازم ہے اور پھر توبہ نصوح کےبعد تجدید نکاح ضروری ہے، ہاں یہ بھی  معلوم ہو کہ وہ محرمات جن کی حرمت میں  ائمہ دین مختلف ہوں اور وہ حلال جن کی حلت میں  اہل علم کا اختلاف ہو سو ایسےمحرمات مختلف فیہا کے حلال جاننےسے اور ایسے حلال مختلف فیہ کے حرام جاننے سے نہ نکاح ٹوٹتا ہے اور نہ خروج از اسلام  لازم آتا ہے۔

اور خالد اور اس کے پیروؤں کا یہ کہنا کہ ’’کفر و شرک کرنےسے اور ہر حرام و ممنوعات شرعیہ اور محارم قطعیہ کے مرتکب ہونے اور حلال جاننے سے نہ کچھ ایمان و اسلام میں  خلل و حرج واقع ہوتا ہے اورنہ نکاح ٹوٹتا ہے  الخ‘‘ سراسر ناحق و خلاف شریعت ہے اور  بالکل الحاد و جہالت اور کفر و ضلالت کی باتیں ہیں اور خالد اور اس کے پیروؤں نے سند میں  جن بزرگان دین کاذکر کیا ہے وہ بزرگان دین نہیں ہیں بلکہ وہ فساق و رہزنان دین ہیں اس واسطے کہ راگ اور ناچ کی مجلس  میں  بیٹھ کر بشوق تمام راگ سننا اور ناچ دیکھنا  اور لوگوں کو اس کی ترغیب دینا اور جس تقریب میں  ناچ اور راگ نہ ہو اس میں  شریک ہونے سے انکار کرنا بزرگان دین کا کام نہیں ہے۔ اور ان فساق و رہزنان  دین کو جو خالد اور اس کے پیروؤں نے غیب کی بات بتانے والے اور حالات عیب کے جاننے والے کہا ہے، سو یہ بھی محض شرک و کفر کی بات ہے، کیونکہ بجز ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کوئی اور غیب کی بات بتانے والا اور حالات غیب جاننے والا نہیں ہے۔

(3) عمرو نے جس طریقے سےزید سے توبہ کرائی ہے ،وہصحیح اور شریعت کے مطابق ہے یعنی دو رکعت زیاد سے پڑھوانا ، پھر بطور استغفار کے ان دعاؤں کو پڑھوانا، جو توبہ کے بارہ میں  احادیث نبوی سے ثابت ہیں اور پھر زید سے اس کا عہد و پیمان لینا کہ مامورات شرعیہ کو حتی الوسع بجالاؤں گا اور منہیات شرعیہ سے تابمقدور باز اور دور رہوں گا ، یہ سب کچھ ٹھیک اور شریعت کے موافق ہے،مشکوٰۃ شریف میں  ہے۔ عن[1] علی قال حدثنی ابوبکر قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول مامن رجل یذنب ذنباثم یقوم فیتطہر ثم یصلی یستغفر اللہ الا غفر اللہ لہ الحدیث ۔(رواہ الترمذی و ابن ماجہ و مشکوٰۃ شریف باب التطوع) ، و نیز مشکوٰۃ کے اسی باب میں  ہے۔ عن[2] عبداللہ بن ابی اوفی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من کانت لہ حاجۃ الی اللہ اوالی احد من بنی ادم فلیتوضا فلیحسن الوضوء ثم لیصل رکعتین الحدیث۔

ہاں عمرو نے جو مصلحتاً قرآن شریف زید کے ہاتھ میں  دے کر عہد و پیمان لیا ہے، سو قرآن شریف کو ہاتھ میں  دےکر عہد و پیمان لینا شریعت سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے اور آ پ کے بعد صحابہ ؓ نے ، پھر تابعین و تبع تابعین وغیرہم نے بہت سے لوگوں کو شرک و بدعت سے اور معاصی سے توبہ کرائی ہےاور مامورات کو بجا لانے اور منہیات سےبچنے کا عہد لیا،مگر قرآن ہاتھ میں  دے کر عہد لینا کسی سے بھی ثابت نہیں ہے،لہٰذا عمرو کو اس سے احتراز چاہیے۔

اور خالد اور اس کے متبعین کا توبہ کرانے کو اور مامورات کے بجا لانے اور منہیات سے باز رہنے پر عہد لینے کو نہایت زبون اور نادرست کہنا اور اس کی وجہ یہ ٹھہرانا کہ اوامر  قرآن  شریف کو بجا لانا اور نواہی قرآن سے باز رہنا ضبط و طاقت  بشری و انسانی سے بعد اور غیر ممکن ہے سراسر جہالت اور حماقت ہے، قرآن مجید و حدیث کے جتنے اوامر و نواہی ہیں، سب کے سب سہل و آسان ہیں، ایک بھی طاقت بشری سے بعید و ناممکن نہیں ہے،اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  خود فرماتا ہے ۔ ماجعل علیکم فی الدین من حرج ،یعنی  اللہ تعالیٰ نے تم پر دین میں  کچھ تنگی نہیں کی ہے اور رسول اللہﷺ فرماتے ہیں ان الدین یسر الحدیث رواہ البخاری ،یعنی بے شک دین اسلام آسان اور سہل ہے، توبہ کرناشعار اسلام سے ہے، قرآن و حدیث میں  توبہ کرنے کا حکم ہے، توبہ اور توبہ کرنے والوں کے  فضائل و مناقب کثر ت سے ثابت ہیں،اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے یاایہا الذین امنوا توبوا الی اللہ توبۃ نصوحا ، یعنی اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے خالص توبہ کرو اور فرماتا ہے ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین ، یعنی اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں کو اور محبتب رکھتے ہیں پاکی حاصل کرنے والوں کو، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔یاایہا الناس توبوا الی اللہ فانی اتوب الیہ فی الیوم مائۃ مرم رواہ مسلم ، یعنی اےلوگو! توبہ کرو اللہ کی طرف پس میں  ایک دن میں  مرتبہ توبہ کرتا ہوں، دیکھو سید المرسلین حضرت محمد مصطفیٰﷺ جو معصوم تھے اور جن کی شان میں  لیغفرلک[3] اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر وارد ہے۔ دن بھر میں  سو مرتبہ توبہ کرتے تھے،پسخالد اور ان کے متبعین کا توبہ کرنے کو نہایت زبون اور بے جا اور نادرست کہنا شریعت کی صاف مخالفت کرنا ہے ، خالد اور اس کے متبعین کواپنے اس قول سے توبہ کرنا لازم ہے اگر وہ اپنی جہالت اور ناواقفی کی وجہ سے ایسی بات بولتے ہیں تو وہ اپنی ناواقفی کی وجہ سے قابل معذوری ہوسکتے ہیں اور اگر دانستہ ایسی بات بولتے ہیں تو انہیں ذیل کی دونوں آیتوں کے وعید سے بہت ڈرنا چاہیے ۔ ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی ویتبع غیرسبیل المؤمنین نولہ ماتولی و نصلہ جہنم وسائ ت مصیر۔۔۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ او یصیبہم عذاب الیم۔پہلی آیت کا ترجمہ ’’اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی، جب کھل چکی اس پر راہ کی بات اورچلے سب مسلمانوں کی راہ سے سو ہم اس کو حوالہ کریں جو اس کو پکڑے اورڈالیں اس کو دوزخ میں  اور  بہت بُری جگہ پہنچا‘‘ اور دوسری آیت  کا ترجمہ یہ ہے ۔ ’’ سوڈرتے  رہیں  جو لوگ خلاف کرتے ہیں اس کے حکم کا کہ پڑے ان پر کچھ خرابی یا پہنچے ان کو دکھ کی مار‘‘

اور خالد اور اس کے متبعین کا یہ کہنا کہ ’’توبہ کرنا اور قرآن شریف کا اٹھانا نہایت شوم و منحوس و نامبارک ہوتا ہے جو کوئی توبہ کرکے قرآن شریف کو اٹھاتا ہے وہ تباہ و جذامی و خوار و ویران ہوجاتا ہے‘‘ سراسر باطل و مردود ہے تو بہ جیسی مبارک اور محبوب چیز ہے  ، اس کا حال اوپر معلوم ہوچکا  ، رہا توبہ کے وقت قرآن شریف کا اٹھانا ، سو اس میں  صرف اتنی بات ہے کہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے مگر اس کو شوم و منحوس سمجھنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو قرآن کو توبہ کے وقت اٹھاتا  ہے وہ تباہ و جذامی ہوجاتا ہے،محض باطل و غلط ہے اور خیال و عقیدہ  شرکیہ ہے، صحیح بخاری  ومسلم میں  ابو ہریرہؓ سے روایت ہے: قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول لا طیرۃ الحدیث ، یعنی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ کسی چیز میں شوم اور نحوست نہیں اور سنن ابی داؤد میں  ہے۔ عن عبداللہ بن مسعود عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال الطیرۃ شرک قالہ ثلاثا الحدیث ،یعنی عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شگون بدل لینا اور کسی  چیز میں  شوم و نحوست سمجھنا شرک ہے ، آپن اس کو تین بار فرمایا اور خالد اور اس کے متبعین کا یہ کہنا کہ جو شخص جب تک تائب نہیں ہوتا ،وہ بےگناہ اور مرفوع القلم ہے الخ نہایت نادانی کی بات ہے ، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کرے اور ان کی سمجھ کو سیدھا کرے  واللہ[4] یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔

(3)عمرو کاتوبہ کو طریقہ اسلام سے شمار کرنا اور بدعات و منکرات سےمنع کرنا اور توبہ کو اچھا جاننا اور تائب سے خوش  وراضی رہنا حق ہے اور یہی دین اسلام کی تعلیم ہے۔ اور خالد اور اس کے متبعین کا توبہ کو مذموم اور فعل عبث تصور کرنا اور تائب کی مذلت اور مذمت کرنا اور ارتکاب بدعات کو موجب فلاح دارین سمجھنا اور اتباع سنت سے بیزار رہنا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان کی وجہ سے خالد اور اس کے متبعین کے ایمان کی خیر نہیں ہے، تائب کی مذلت و مذمت کرنا اور توبہ  کو فعل عبث تصور کرنا درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی مذمت و مذلت بیان کرنا ہے  اور رسول اللہﷺ کی طرف فعل عبث کی نسبت کرنا ہے اور اس کا جو نتیجہ ہے وہ ظاہر ہے نعوذ باللہ من ذلک اور اتباع سنت سے بیزار ہونے والے کی نسبت رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ من رغب عن سنتی فلیس منی یعنی جو شخص میری سنت سےبیزار ہو، وہ مجھ سے نہیں ہے اور فرمایا کہ جو شخص میری سنت کو (بیزاری سے) ترک کرے، اس پر میں  نے لعنت کی اور ہرنبی نے لعنت کی، کذا فی المشکوٰۃ باب الایمان بالقدر و اللہ تعالیٰ اعلم۔

حررہ سید محمد نذیر حسین                                                              سید محمد نذیر حسین



[1]    ابوبکر کہتے ہیں، کہ میں  نے آنحضرتﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے، جو آدمی گناہ کرے ، پھر وضو کرے، پھر نماز پڑھے ، پھر اللہ سے استغفار کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ بخش دیتے ہیں۔ الحدیث

[2]    عبداللہ بن بی اوفی کہتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس کو اللہ تعالیٰ یا کسی بندے کی طرف کوئی کام ہو، وہ اچھی طرح وضو کرے اور پھر دو رکعت نماز پڑھے،الحدیث

[3]     تاکہ  اللہ آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ بخش دے۔

[4]   اللہ جسے چاہے سیدھے راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے