سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) تعزیہ داری کرنا اور بچوں کو طوق بیڑی پہنانا اور ماتم کرنا..الخ

  • 5543
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1896

سوال

(36) تعزیہ داری کرنا اور بچوں کو طوق بیڑی پہنانا اور ماتم کرنا..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں، علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ تعزیہ داری کرنا اور بچوں کو طوق بیڑی پہنانا اور ماتم کرنا اور بھوسا اڑانا وغیرہ اور ذکر سوانح ووقائع شہادت وغیرہا میں  سامان کرنا اور اس پر رونا اور رولانا اور اس کے واسطے انعقاد مجلس  تعزیت کرنا موجب ثواب ہے یا باعث عقاب اور نوحہ اور مرثیہ خوانی کرنا کیسا ہے اور یزید کے بارے میں  کیا اعتقاد رکھنا چاہیے۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعزیہ داری،علمداری، ماتم کرنا، بچوں کو طوق بیڑیاں پہنانا،فقیربنانا وغیرہ قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر سے ثابت نہیں، جس کی خبر  خیر[1] اُمتی قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم میں  ہے کما روی البخاری عن عمران بن حصین  نہ کسی اصلشرعی کے تحت میں  مندرجہ ہے نہ سلف و خلف صالحین کا اس پر عمل ، پس محض بدعت و ضلالت واحداث فی الدین ٹھہرا، جس کے عدم قبول اور رد ہونے  پر رسول مقبولﷺ کا یہ قول منقول ہے ، من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فہورد  اور رونا آنکھوں سے آنسو بہانا خواہ بحالت نہایت مسرف ہو جیسے قدوم قادم کے وقت یا محتاجگی پررونا یا بخیال سزائے حاکم یا استاد مربی وغیرہ کے رونا، یا کسی کے صدمہ مفارقت جسمانی سے رونا اس میں  کوئی مانع شرعی نہیں محض محبت الہٰی میں  رونا اس کے عذاب و عقاب و محاسبہ کے ڈر سے رونا انبیاء مرسلین اور صالحین زاہدین سے ثابت ہے، و نیز کم ہنسنا اور زیادہ رونا آیت کریمہ  فلیضحکوا قلیلا ولیبکوا کثیرا سے واضح ہے ، کسی  حاکم عادل یا عزیز رشتہ دار یااستاد شفیق و مرشد برحق و پیشوائے دین کے انتقال و ذکر انتقال سے بوجہ مزید حزن و ملال رونا یا یادآخرت سے رونا ممنوع نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ کا وفات ابراہیم بن ماریہ قبطیہ میں  آبدیدہ ہونا منقول ہے۔

ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کا ایک جنازہ کے ساتھ تشریف لے جانا اور قبر پربیٹھ کر یاد آخرت و مو ت پر بہت رونا حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ہے،اسی طرح آیت فکیف اذا جئنا من کل امۃ سن کر  آنسو جاری ہونا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ، قرآن مجید کی تلاوت میں  رونا اور رونا نہ آئے تو بتکلف رونا اس کا حکم بروایت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ثابت ہے، خدا کے خوف سے ذرا سے آنسو نکل آئے پر جوفضیلت وارد ہے، حدیث مرویہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ میں  موجود ہے، بعد وفات آنحضرتﷺ حضرت صدیق اکبر و فاروق اعظم کا حضرت اُم ایمنؓ کی خدمت میں  آنا اور انہیں روتا دیکھ کر دونوں کا رونا روایت حضرت انس ؓ میں  مذکور ہے۔ وقت معین پرایصال ثواب فاتحہ و درود سے کرنا موجب اجر جزیل ہے، مجمع مشروع میں  میت کے اوصاف کمال و واقعات صحیحہ نتیجہ خیز مفید  و قت بیان کرنا اور اس کے لیے نظما ًو نثراً مغفرت مانگنا (جس کا وہ مستحق ہے) کرنا، کسی زبان میں  ہو، اس کے جواز میں  کلام نہیں، ہاں نوحہ مشرکین جو عہد جاہلیت میں  مروج تھا،وہ ہرگز نہ چاہیے، وہ نہ میت کے لیے فائدہ رساں ہے اور نہ پسماندگان کے لیے مفید، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ راوی ہیں ، نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن المراثی و فی نسخۃ یعنی النوح،یعنی رسول اللہﷺ نے مراثی سے منع کیا، ابن ماجہ کے ایک نسخہ میں  ہے کہ مراد اس سے نوحہ ہے۔

حاصل یہ کہ مراثی سے مطلقاً مراثی مراد نہیں ہوسکتے، ورنہ بہت سے صحابہ بلکہ خود آنحضرتﷺ کے لیے مراثی لکھے گئے اور دین اسلام کا کوئی قاعدہ اس کے منع کا مقتضی نہیں ہے۔اسی بناء پر  شیخ جلال الدین ابوبکر  مشہور مصنف اسلام نے مصباح الزجاجہ میں  بذیل حدیث مذکور فرمایا ہے: قال[2] الخطابی انما کرہ من المراثی النیاحۃ حتی مذھب الجاھلیۃ فاما الثناء والدعاء للمیت فغیر مکروہ لانہ رثی غیر واحد من الصحابۃ کثیرا من المراثی انتہی اور کسی سیہ  کار کے سوء  خاتمہ و حسن خاتمہ کے یقنی علم نہ ہونے پر ہم اس کو کرنے کے لیے مامور و مجاز نہیں ہیں اوررنج میں  ترک لذائد و تزئین ریاءً بغیر خلوص کچھ مفید نہیں اور خلوص کے ساتھ بنظر زہد ہو تواس کا فضل معلوم و مسلم ہے۔ ھذا ماظہولی واللہ سبحانہ اعلم و عللمہ اتم واحکم ۔ العبد نعمانی عفی عنہ۔

ہوالمصوب:

واقعی رسم تعزیہ داری بدعت ہے نہ رسول مقبولﷺ کے زمانہ میں  پایا گیا ، نہ خلفاء کے زمانہ میں  ، بلکہ اس کا وجود قرون ثلاثہ میں  کہ مشہود لہا بالخیر ہیں  منقول نہیں ہوا، اور تا این دم حرمین شریفین زاد ہما اللہ شرفا و تعظیماً میں  رائج نہیں ہے اور نہ کسی اصل شرعی کے تحت میں  مندرجہ ہے،پس یہ بدعت ضلالت  ٹھہرا، اور بدعت ،ضلالت کو اختیا رکرنا لعنت خداو ملائکہ کاموجب اور رسول مقولﷺ کی رنجیدگی کا باعث ہے۔

روی[3] الطبرانی عن ابن عباس ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من احدث حدثا اوادی محدثا فعلیہ  لعنۃ اللہ والملئکۃ والنس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عد لاوروی البخاری و مسلم وغیرہما من اصحاب الصحاح عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فہور دوروی مسلم انہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرا الامور محدثا تھا  وکل بدعۃ ضلالۃ۔

اور سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا،نوحہ کرنا، خاک اُڑانا، بال نوچنا، یہ سب افعال منہیات و ممنوعات سے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں  ہے ۔ لیس[4] منا من حلق و سلق و خرق ولیس منا من ضرب الخدود و شق الجیوب ولعن اللہ التیاحۃ اور نفس بیان و قائد شہات اور اس پررونا بشرطیکہ نوحہ وغیرہ سے خالی ہو،درست ہے اور اس کے واسطے خاص مجلس منعقد کرنا تشبہ روافض و کراہت سے خالی نہیں، جیسا کہ جامع الرموز میں  ہے ۔ اذا [5]اراد ذکر مقتل الحسین ینبعی ان یذکر اولامقتل سائر الصحابۃ لئلایشا بہ الروافض کما فی العوناور صراط المستقیم میں  ہے ، ذکر  [6]قصہ شہادت بعقد مجلس باین قصد کہ مردم بشنوند و تاسفہا نمایند و گریہ  و زاری کنند ہرچند ور نظر ظاہر خللے دران ظاہر نمی شود، واما فی الحقیقت آن ہم مذموم و مکروہ است انتہے۔ اگر مرثیہ میں  احوال واقعی ہوں، پس اس قسم کے مرثیوں کو پڑھنا اور سننا کچھ مضائقہ نہیں رکھتاہے۔

یزید کے بارے میں  بعض کہتےہیں  کہ باتفاق مسلمانوں کے وہ امیر ہواتھا،اس کی اطاعت امام علیہ السلام پر واجب تھی، حالانکہ اس کی خلافت پر مسلمانوں کا اتفاق نہ ہوا اور ایک جماعت صحابہ ؓ و اولاد صحابہؓ نے اس کی بیعت نہیں کی اور جن حضرات نےبیعت کی بھی تھی ، جب ان کو اس کے فسق و فجور کا حال معلوم ہوا ، خلع بیعت کرکے مدینہ میں  واپس آگئے اور  بعض قائل ہیں کہ یزید نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم نہیں دیاتھا نہ اس فعل سے راضی تھا، یہ بھی باطل ہے۔ قال [7]العلامۃ التفتازانی فی شرح العقائد النسفیتوا لحق ان رضی یذید بقتل الحسین و استبشارہ بذالک واھانۃ اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مما توا ترمعناہ وان کان تفاصیلہ احادا انتہی ، اور  بعض کہتے ہیں کہ قتل امام  گناہ کبیرہ ہے نہ کفر، اور یہ لعنت مخصوص بکفار ہے، نازم باین فطانت نہیں جانتے ہیں کہ کفر ایک طرف خود ایذاء رسول الثقلین کیا ثمرہ رکھتا ہے۔ قال [8]اللہ تعالیٰ ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ لعنہم اللہ فی  الدنیا والاخرۃ و اعدلہم عذا با مھینا ،اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے خاتمہ کا حال معلوم نہیں، شاید اس نے اس کفر و معصیت کے بعد توبہکی ہو، وقت موت کے تائب ہوگیا ہو، امام غزالی کااحیاء العلوم میں  اسی طرف رجحان ہے۔

جاننا چاہیے کہ توبہ کا احتمال ہی احتمال ہے، والا اس بےسعادت نے اس امت میں  وہ کچھ کیا ہے  کہ کسی نے نہیں کیا۔ شہادت امام حسین و اہانت اہل بیت  کے بعد مدینہ منورہ کی تخریب  واہالیان مدینہ کی شہادت  و قتل کے واسطے لشکر بھیجا، تین روز تک مسجدنبوی بے اذان و نماز رہی، من بعد حرم مکہ میں  لشکر کشی کرکے عین حرم مکہ میں  عبداللہ بن الزبیر کو شہید کرایا،اور انہیں مشاغل میں  تھا، کہ اس کی موت آگئی اس جہان کو پاک کیا اور اس کے بیٹے معاویہ نے برسرمنبر اس کی بُرائیاں بیان کیں ، واللہ اعلم بما فی الضمائر اور بعضے سلف  واعلام امت سے اس شقی پر لعن تجویز کرتے ہیں، چنانچہ علامہ تفتازانی نے کمال جوش و خروش کے ساتھ اس پر  اور اس کے اعوان پر لعنت کی ہے اور بعضوں نے اس معاملہ میں  توقف کیا ہے،پس مسلک اسلم یہ ہے کہ اس شقی کو مغفرت و ترحم سے ہرگز یاد نہ کرنا چاہیے اور اس کے لعن سے کہ عرف و مختص بکفار ہے، اپنی زبان کو روکنا چاہیے ، جیسا کہ قصیدہ آمالیہ میں  ہے۔

ولم یلعن یزیدا بعد موت

سوی المکثار والاعزاء غال

واللہ اعلم بالصواب۔ حررہ تراب اقدام اولیاء الباری محمد عبدالہادی الانصاری بن مقبول من رفع السماء بغیر عمد مولانا علی محمد بن خاتم الفقہاء والمحدثین مولانا محمد معین بن سید المخصصین سند المدنقین محمد معین ادخلھم اللہ فی اعلیٰ علیین و افاض علینا من برکاتہم و برکات مشائخم الکاملین۔

محمد عبدالہادی

تعزیہ  بنانا، اس میں  شریک ہونا، اس پر چڑھاوا چڑھانا یا منت ماننا  ایام عشرہ محرم میں  ذکر شہادت حسنین کرنا، رونا، پیٹنا، چلانا، نوحہ کرنا، کپڑے پھاڑنا یہ سب نادرست ہے اور بدعت سیئہ اور یزید کو بُرا کہنا خلاف احتیاط ہے۔ وفقط واللہ اعلم، بندہ رشیداحمد گنگوہی عفی عنہ

رشید احمد 1301

تعزیہ داری کرنا وغیرہ امور مذکورہ فی السوال ناجائز و بدعت ہیں اور موجب عقاب اور یزید اپنے کئے کو پہنچ گیا، اب اس پرلعنت کرنا، اس کو گالی دینا، بُرا کہنا نہ چاہیے۔ فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے  لا تسبوا[9] الاموات قد افضوا الی ما قدرموا رواہ البخاری ، کذا فی بلوغ المرام۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔الراقم سید محمد عبدالسلام غفرلہ۔

سید محمد عبدالسلام



[1]    میری بہترین امت میرے زمانہ کی ہے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔

[2]    خطابی نے کہا، جاہلیت کے زمانہ کی طرح  مرثیہ کہنا حرام ہے ورنہ میت کے لیے دعا کرنا یا اسکی تعریف کرنا مکروہ نہیں کیونکہ ایسے مرثیہ تو کئی ایک صحابہؓ سے بھی منقول ہیں۔

[3]    رسول الہ ﷺ نے فرمایا، جو کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعتی کو پناہ دے،اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور سارے جہان کی لعنت ہے،اللہ نہ اس کی نفلی عبادت قبول کرے گا  نہ فرض،اور فرمایا جو کوئی ہمارے دین میں  ایسا کام کرے جو اس کا حصہ نہیں، تو وہ کام مردود ہے اور فرمایا بدترین کام بدعت ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

[4]    جو سر کے بال نوچے، سینہ کوبی کرے اور کپڑے پھاڑے،وہ ہم میں  سے نہیں ہے اور فرمایا جو  رخسار ے پیٹے، گریبان پھاڑے، وہ ہم میں  سے نہیں ہے اور فرمایا خدا نوحہ کرنے والے  پر لعنت کرے۔

[5]    جب  امام حسین  کا واقعہ بیان کرنا چاہے تو پہلے تمام صحابہ کی شہادت کا تذکرہ کرے تاکہ شیعہ کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

[6]    کسی مجلس میں  شہادت کا واقعہ اس طرح سے بیان کرناکہ لوگ سنیں اور افسوس کریں اور گریہ و زاری کریں ، بظاہر اس میں  کوئی عیب معلوم نہیں ہوتا،لیکن حقیقت میں  یہ بھی بُرا ہے۔

[7]    صحیح بات  یہ ہے کہ امام حسین کے قتل سے یزید خوش ہوا اور اہل بیت کی توہین کی ، اگرچہ اس کی تفصیل آحاد ہے، لیکن اس کے معنی متواتر ہوچکے ہیں۔

[8]   جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کوتکلیف دیتے ہیں، اللہ کی ان پر دنیا اور آخرت میں  لعنت ہے اور ان کے لیے ذلیل کن عذاب ہے۔

[9]   مرُدوں کو گاللی نہ دیا کرو ، جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا، وہ وصول کررہے ہیں۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے