سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) حنفی یاشفاعی نہیں کہلاتا ایساشخص مسلمان ہے یا نہیں؟

  • 5525
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1304

سوال

(18) حنفی یاشفاعی نہیں کہلاتا ایساشخص مسلمان ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں، علمائے دین کہ ایک شخص خدا، فرشتوں، تمام منزلہ کتابوں او رپیغمبروں او رقیامت پر یقین رکھتا ہے، شہادتین کا اقرار کرتا ہے، نماز روزے کا پابند ہے،حج اور زکوٰۃ اگر فرض ہوجائے تو ان کے ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے، خدا کی رحمت کا امیدوار اور اس کے عذاب سےترساں ہے، تمام بُرے کاموں سے پرہیز کرتا ہے ، بزرگان دین ،صحابہ و تابعین کو اپنا مقتدا جانتا ہے، غرضیکہ اہل سنت کے عقائد میں سے کسی میں کمی نہیں کرتا اور اپنی غلطیوں سے ہر وقت استغفار کرتا رہتا ہے۔ حتی المقدر نیک کام کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اپنے آپ کو حنفی یاشفاعی نہیں کہلاتا ایساشخص مسلمان ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی اس کو کافر کہے تو اس کااپنا حال کیا ہے۔ بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص ایسے آدمی کو کافر کہے وہ خود کافر ہے ، کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے  جواپنے بھائی کو کافر کہے، تو اگر وہ واقعی کافر ہو، تو وہ کفر کا فتویٰ اس پرجاری ہوگا اور  اگر وہ کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔

اور یہ ظاہر بات ہے کہ اپنے آپ کو ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی طرف منسوب نہ کرنا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ کہ اس کے سبب سے آدمی کافر ہوجائے، مسلم الثبوت اول فقہ میں ایک نہایت بیش قیمت کتاب ہے اس میں مصنف نے حاشیہ پر لکھا ہےکہ ’’عراقی کہتے ہیں، اس بات پر اجماع منعقد ہوچکا ہے کہ جو بھی آدمی مسلمان ہو، اس کو حق ہے کہ ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک کی تقلید کرے اور صحابہ کا اس پراجماع ہے کہ اگر کوئی آدمی ابوبکر و عمر امیرالمؤمنین سےمسئلہ پوچھے تو اس کو یہ بھی حق ہے کہ ابوہریرہ او رمعاذ بن جبل سے بھی مسئلہ پوچھ لے او رجس کے قول پرچاہے عمل کرے اور اگر کوئی اس کے برخلاف کہے تو وہ دلیل بیان کردے۔

ان دونوں اجماعوں خصوصاً دوسرے اجماع سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی مجتہد کی طرف منسوب نہ ہو، تووہ کافر  نہیں ہوجاتا اور اگر کوئی اس کو کافر کہے تو اسے چاہیے کہ پہلے صحابہ اور تابعین پر کفر کا فتویٰ لگائے اگر  کوئی یہ کہے کہ پہلے دونوں اجماع تیسرے اجماع سےمنسوخ ہوگئے کیونکہ بعد میں اپنے آپ کو کسی مجتہد کی طرف منسوب کرنےپر اجماع ہوگیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تیسرا اجماع جس کا حوالہ دیا جارہا ہے کہاں ہے؟ روئے زمین پر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے او رپھر علم اصول کامسئلہ ہے کہ’’اجماع نہ ناسخ ہوتا ہے نہ منسوخ‘‘ اگر بالفرض محال تیسرا اجماع ثابت بھی ہو جائے تو یہ فقہاء کا اصول باطل ہوجائے گا اور چونکہ اول ثابت ہے، لہٰذا یہ دعویٰ باطل ہے۔

اب یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس زمانہ میں دو گروہ پیدا ہوچکے ہیں کچھ تو ائمہ مجتہدین کو گالی وغیرہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو حنفی یاشافعی کہنا شراب نوشی اور زنا کاری سے بھی بڑا گناہ سمجھتے ہیں، خدا کی پناہ او راپنے متعلق دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حدیث پرعمل کرتے ہیں ان کا جواب تو یہ ہے کہ حدیث پر عمل کرنا تو صحیح ہے لیکن ائمہ مجتہدین کو بُرے الفاظ سے یاد کرنا بےدینی اورگمراہی ہے او ران کےمقابل دوسرا گروہ ہے جومحدثین کے حق میں زبان درازی او ربےادبی کرتے اور حدیث صحیح ثابت بھی ہوجائے تو بھی اس پرعمل نہیں کرتے او راگر کوئی ان کوسمجھانے کی کوشش کرے تو بھی نہیں سمجھتے ایسے لوگوں سے بھی خدا کی پناہ (نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تشہد میں انگشت کے اشارہ کو خلاصہ کیدانی والے جیسے آدمی کے پیچھے لگ کر حرام کہہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث صحیح سے بھی  ثابت ہے او رامام ابوحنیفہ بھی اس کے قائل ہیں جیساکہ امام محمد نےموطا میں اس کی تصریح کی ہے اگر کوئی ایسے لوگوں کودلائل کی بنا پر سمجھانے کی کوشش کرے تو جاہل ہونے کے باوجود بھی ٹر ٹر کرنےلگتے ہیں۔ ایسے لوگ جاہلوں میں گو  کچھ وقار رکھتے ہوں لیکن علماء کے نزدیک ذلیل و رسوا ہیں ، ان کےجواب میں انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ دینا کافی ہے۔ مومن کو چاہیے کہ اعمال کوشریعت کی ترازو میں تولے او رکسی فاسق و فاجر کے فتویٰ کفر و فسق کی پرواہ نہ کرے۔ ایسے لوگوں کے فتوؤں سے کوئی آدمی کافر نہیں ہوجاتا۔

محمد حیدر علی  ...... سید محمدنذیر حسین


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے