کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں او رمقلد کی نماز غیرمقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں؟
(2) تقلید امام اعظم کی کرنا شرک ہے یا نہیں؟
(3) جو شخص یہ کہے کہ غیرمقلد کی نماز مقلد کے پیچھے نہیں ہوتی اس کے لیے حکم شارع کیا ہے۔مندرجہ بالا سوالات کے جوابات حدیث سےہونے چاہیئیں۔
ہر مسلمان کے پیچھے نماز ہوتی ہے ، وہ مقلد ہو یا غیرمقلد، بشرطیکہ مشرک اور مبتدع ببدعت مکفرہ نہ ہو، اس واسطے کہ مشرک کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسے مبتدع کے پیچھے نماز ہوتی ہے جس کی بدعت مکفرہ ہو، پس جومقلد مشرک نہیں اور مبتدع ببدعت مکفرہ بھی نہیں ہے اس کے پیچھے نماز بلا شبہ جائز و درست ہے او رہاں واضح رہے کہ بعض مقلدین کی تقلید مفضی الی الشرک (شرک تک پہنچانے والی) ہوتی ہے سو ایسے مقلدین کے پیچھے نماز جائز نہیں اور تقلید مفضی الی الشرک یہ ہے کہ کسی ایک خاص مجتہد کی اس طرح پر تقلید کرے کہ جب کوئی صحیح حدیث غیر منسوخ اپنے مذہب کے خلاف پاوے تو اس کو قبول نہ کرے او ریہ سمجھے بیٹھا ہو کہ ہمارے امام سے خطا اور غلطی ناممکن ہے او راس کا ہر قول حق اور صواب ہے او راپنے دل میں یہ بات جما رکھی ہو کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہیں چھوڑیں گے ، اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن و حدیث سے دلیل قائم ہو، پس جس مقلد کی ایسی تقلید ہو، وہ مشرک ہے، شاہ ولی اللہ صاحب عقد الجید میں لکھتے ہیں، وفیمن[1] یکون عامیا و یقلد رجلا من الفقہاء بعینہ یری انہ یمنع من مثلہ الخطاء وان ماقالہ ھوالصواب البتۃ وخمر فی قلبہ ان لا یترک تقلیدہ وان ظہر الدلیل علی خلافہ و ذلک ما رواہ الترمذی عن عدی بن حاتم انہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقرأ اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباب من دون اللہ قال انھم لم یکونوا یعبدونہم ولکنہم اذا احلوا لھم شیئا استحلوہ واذا حرموا علیہم شیئا حرموہ انتہی۔
(2) امام اعظم صاحب کی تقلید اگر مفضی الی الشرک ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ،تو بیشک امام اعظم صاحب کی یہ تقلید شرک ہےوالا فلما
(3) اس شخص کا علی الاعلان یہ کہنا صحیح نہیں ہے ، ہاں اگر اس شخص کے اس کہنے سے یہ مراد ہو کہ مقلد مشرک (یعنی جس مقلد کی تقلید مفضی الی الشرک ہو) کے پیچھے غیرمقلد کی نماز نہیں ہوتی تو اس کا یہ کہنا صحیح ہے، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، المجیب محمد عبدالحق ملتانی ماہ ربیع الاوّل 1318ھ
(سید محمد نذیرحسین)
[1] او راس عامی ادمی کے متعلق جو کسی متعین فقیہ کی تقید کرتا ہو او راس کا عقیدہ یہ ہوکہ اس سے غلطی نہیں ہوسکتی وہ جو کچھ کہے صحیح ہے اور اس کے دل میں یہ بات بیٹھ چکی ہو کہ اس کی تقلید کسی صورت میں بھی نہ چھوڑوں گا ، خواہ اس کے برخلاف دلیل ثابت ہی کیوں نہ ہوجائے۔ وہی فتویٰ ہے جس کو امام ترمذی نے عدی بن حاتم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے یہ آیت سنی ’’انہوں نے اپنے مولویوں او رپیروں کو خدا کے سوا رب بنا رکھا تھا‘‘ تو کہا ، کہ یہ لوگ ان کی پوجا نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو اس کو حلال جانتے اور اگرحرام کہہ دیتے توحرام جانتے۔‘‘