السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ایمان ایک قسم کی کیفیت ہے یا اس کا تعلق کم (مقداروعدد) سے ہے ؟ازراہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔جزاكم الله خيرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایمان شرعی اعتقاد بالقلب۔ نطق باللسان۔ عمل بالارکان ان تین اجزاء کا نام ہے۔ اور یہ تینوں اس کے لیے اجزاء حقیقیہ ہیں۔ جیسے درخت کے لیے اس کی شاخیں اورپتے اورنماز کے لیے اس کے واجبات اورسنن۔ ایمان کسی ایک مقولہ کے تحت میں نہیں۔ بلکہ کئی مقولوں سے مرکب ہے۔ اس لیے کہ اس کا ایک جزء (اعتقاد) مقولہ کیف سے ہے۔ اور دوسر اجزء (نطق) مقولہ فعل سے ہے۔ اور احادیث شفاعت کے بعض الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ ایمان مقولہ کم سے بھی ہے۔ ایمان کے تین اجزاء میں سے پہلے دونوں جزء اعتقاد اورنطق تو اس کےلیے رکن ہیں۔ یعنی ان کےفوت ہونے سے ایمان ہی فوت ہوجائے گا۔ لیکن تیسرا جزء (اعمال صالحہ) ایسا نہیں ہے۔ یعنی اس کےفوت ہونے سے ایمان فوت نہیں ہوگا۔
’’الاالصلوة فان رکن للایمان کالاعتقادوالنطق"
محدث روپڑی کے جواب کا خلاصہ ذکرکرکے مولوی آفتاب احمدنے اعتراض کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایمان محض فرضی و اعتباری شے ہے۔ یا کوئی واقعی اورنفس الامری حقیقت ہے ؟ ظاہر ہے کہ شق اول باطل ہے۔ اس لیے جب وہ ایک واقعی نفس الامری حقیقت ہے تو اس کا کئی مقولوں سے مرکب ہونا دو وجہوں سے محال ہے۔ اولا اس لیے کہ کسی حقیقت واحدہ واقعیہ کا اندراج تحت مقولتین ممتنع ہے۔ فضلاعن المقولات کی تقررفی مقرہ اورثانیا اس لیے کہ آپ نے ایمان کو مقولہ کیف سے مان کراس کے مقولہ کم سے ہونے کے احتمال کوبھی صحیح ماناہے۔ توگویا آپ کے نزدیک اجتماع النقیضین جائز ہے۔ اس لیے کہ کم کا معنی ہے عرض "یقبل القسمة بالذات" اور"کیف" کامعنی ہے عرض "لایقبل القسمة بالذات" توایک ہی شے بالذات قابل قسمت ہے بھی اورنہیں بھی کیا یہ اجتماع النقیضین نہیں؟
سوال کی بسم اللہ ہی غلط ہے۔ علم ہیئت کا موضوع دوائر وغیرہ یہ سب اعتبارات ہیں۔ اسی طرح ہرفن کے مصطلاحات اعتبارات ہیں۔ جواعتبارمعتبرپرموقوف ہوئے ہیں یہ باطل اس لیے نہیں کہ ان پر بڑے بڑے فوائدمرتب ہوتے ہیں۔ اورحقائق واقعیہ اورفی نفس الامراس لیے نہیں کہ اعتبارمعتبرپرموقوف ہیں فی نفسہان کا کوئی اپنا وجودنہیں۔ جب آپ کی تمہید ہی غلط ہوگئی تو ان پرجن محالات کی آپ نے تفریع کی ہے وہ خود ہی کافورہوگئے۔
علاوہ اس کے آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ حقیقت نفس الامری کا اندراج دومقولوں کےتحت ممتنع ہے۔ ذرا صدرا وغیرہ میں بحث اثبات ہیولی دیکھیں کہ اشراقیین جسم کاتقوم جوہراورعرض سے مانتے ہیں۔ حالانکہ عرض عرض میں اتنا بعدنہیں جتنا جوہرعرض میں ہے۔ تو پھرایک حقیقت کے دومقولوں کے تحت درج ہونے سے آپ کوکیوں تعجب ہوا۔ اور اس نے آپ کے ’’ثانیاً‘‘ کی حقیقت بھی واضح ہوگئی۔ کیونکہ کیا حرج ہے کہ ایک شے ایک جزء کے اعتبارسے ایک مقولہ کے تحت ہو اور دوسرے جزء کے اعتبار سے دوسرے مقولہ کے تحت ہو۔ پھرآپ کا اجتماع نقیضین کہنا بھی غلط ہے۔ اجتماع متنافیین کہنا چاہیے جوعام ہے۔ کیونکہ متنافین نقیضین کوبھی شامل ہے اورنقیض اور اس کے اخص کوبھی شامل ہے۔ اوریہاں ثانی صورت ہے۔ کیونکہ لایقبل القسمة بالذات نفي مقید ہے اورنقیض نفی مقید نہیں بلکہ رفع مطلق ہے۔ کتب منطق کا مطالعہ کریں سچ ہے۔
"وکم من عائب قولاً صحیحاً وآفته من الفہم السقیم "
اہل فن کے نزدیک یہ مقدمات مسلم ہیں۔
اول یہ کہ یہ مقولات اپنی ماتحت ماہیات مرکبہ کے لیے جنس عالی بنتے ہیں۔
ثانی یہ کہ جس ماہیت کے لیے کوئی جنس ہوگی۔ اس کے لیے کوئی فصل ممیزبھی ضرورہوگی۔
ثالث یہ کہ کسی ماہیت جنس وفصل اس کی جمیع ذاتیات اور پورے اجزاء ہیں۔
رابع یہ کہ کسی ماہیت کی جنس وفصل کاتحقق اس کی جمیع ذاتیات کاتحقق ہے۔
خامس یہ کہ کسی ماہیت کی جمیع ذاتیات کاتحقق بعینہ ذات اور ماہیت کاتحقق ہے۔
ورنہ مجعولتہ ذاتی لازم آئے گی۔ جیسے جیوان اورناطق کاتحقق بعینہ انسان کاتحقق ہے۔ ان مقدمات کی تمہید کے بعدمیں کہتا ہوں کہ جب ایمان اپنے ایک جزء مثلاً اعتقاد بالقلب کے اعتبار سے مقولہ کیف سے ہوا تو یہ اس کے لیے جنس ہوا اورجب اس کے لیے جنس ثابت ہوئی تو اب اس جنس میں جو چیزیں ایمان کے ساتھ شریک ہیں۔ ان سے امتیاز دینے والی کوئی فصل بھی اس کے لیے ضرورہوگی۔ اورمسلّم ہے کہ وہ فصل جمیع ماجاء به النبيﷺ ہے۔ تو جب یہ جنس اعتقاد بالقلب اس فصل ممیزکے ساتھ کسی شخص میں متحقق ہوگی توگویا ایمان کی جمیع ذاتیات اور اس کے پورے اجزاء متحقق ہوگئے۔ اور جب اس کی جمیع ذاتیات اور پورے اجزاء کاتحقق ہوگیا تو اب ایمان کاتحقق بھی لازمی ہے اور ورنہ لازم آئیگا۔ تخلف ذات کا ذاتیات سے کل کا اپنے جمیع اجزاء سے والازم باطل فالملزوم مثله۔
اس اعتراض کو دوسرے واضح لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اگر ایمان چندمقولوں سےمرکب ہو تو لازم آئے گا کہ اگرکسی شخص کوجمیع ماجاء النبیﷺ پردل سے اعتقادہو۔ لیکن زبان سے ان کاقرار نہ کرے۔ بلکہ انکارکرتا تو اورعمل صالح بھی نہ کرتا ہو۔ تب بھی وہ عنداللہ مومن ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ایمان کی جنس وفصل یعنی اس کی جمیع ذاتیات اور پورے اجزاء کاتحقق پایا جاتاہے۔ پس ایمان کاتحقق بھی لازم ہے۔ اعتراض کی یہی تقریرنطق باللسان کے اعتبار سے بھی جاری ہوسکتی ہے۔ یعنی جب نطق کے اعتبار سے ایمان مقولہ فعل سے ہوا تو یہ اس کے لیے جنس بنا اب اس جنس کے اعتبار سے اس کے لیے کوئی فصل ممیزبھی ضرورہوگی۔ جب ان دونوں کاتحقق ہوجائے گا۔ تو ایمان کاتحقق بھی ضروری ہے توگویا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص زبان سے جمیع ماجاء بہ النبیﷺ کا اقرار توکرتاہو۔ لیکن نہ اس پر اعتقاد رکھتا ہو اور نہ اس کے مطابق اچھے اعمال کرتا ہو تب بھی وہ عنداللہ مومن ہو۔ اس اعتراض کے سمجھ لینے کے بعد صاحب ذوق اس لطیف نکتہ سےضرورمحفوظ ہوں گے کہ فاضل مجیب نے جس مقصد سے جواب کی یہ صورت اختیارکی تھی اس کا بالکل اُلٹ ہوگیا اور یہ دلیل ان کے مدعا کی مثبت ہونے کی بجائے مبطل ہوگئی۔ فتفکر
نام تو آپ کا آفتاب احمدہے لیکن باتیں آپ ظلمت کی کررہے ہیں۔ صغریٰ کبری پڑھے ہوئے بچے بھی جانتے ہیں کہ جنس بعید اورفصل سے جمع ذاتیات کاتحقق نہیں ہوتا۔ بلکہ جنس قریب اورفصل قریب سے جمیع ذاتیات کاتحقق ہوتاہے اور اجناس عالیہ اپنے ماتحت کے لیے اجناس بعیدہیں۔ اس بناء پر اخیر کے تین مقدمات باطل ہوئے اب تفریعات کا حال خودہی سمجھ لیں۔ فتامل فیہ
علاوہ اس کے جمیع ماجاء بہ النبیﷺ کوفصل کہناگویا ایمان میں اعمال کو داخل ماننا ہے کیونکہ "جمیع ماجاء به النبیﷺ"میں اعمال داخل ہیں۔ نیز فصل کا مرکب ہونا لازم آیا۔ حالانکہ فصل مرکب نہیں ہوتی اور یہی اعتراض جاء مجرورلجمیع ماجاء بہﷺ مجموعہ کوفصل بنانے کی صورت میں ہے۔ نیز جنس وفصل تو ذات پرمحمول ہوتی ہیں۔ یہاں حمل نہیں فتامل
ایمان جن مقولوں سے مرکب ہے ظاہر ہے کہ وہ مقولے عرض سے ہیں تو ایمان جو ان سے مرکب ہے عرض سے ہوگا۔ اورعرض اپنے وجود فی نفسہ میں محل اورموضوع کامحتاج ہوتاہے تو ایمان جوکہ ایک ایسا عرض جو مختلف المحال اعراض سے مرکب ہے اس کامحل کیا ہوگا۔ اس کے اجزاء حقیقیہ میں سے کسی کامحل دل اورکسی کا زبان اورکسی کا جوارح۔ اب یا تویہ کہاجائے گا کہ ایمان کامحل ان تینوں کے علاوہ کوئی اورچیز ہے تو یہ ہدایتہ باطل ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ انہی تینوں میں سے کوئی ایک ہے تو ترجیح بلامرجح لازم آئےگی۔ اور یہ بھی باطل ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ تینوں ہیں تو لازم آئے گا کہ ایک ہی چیز ایک ہی وقت میں مختلف محلوں کے ساتھ قائم ہو اور جب قیام العرض الواحدلمجلین مختلفین محال ہے توبےمحال مختلفہ بطریق اولی محال ہوگا۔ جب ایمان کو مرکب ماننے کے بعد اس کے تحقق کی یہ تمام صورتیں باطل ہیں تومعلوم ہوا کہ اس کا مرکب ہونا ہی باطل ہے۔
نماز میں قرأۃ زبان وغیرہ سےقائم ہے۔ اور دوسرے ارکان باقی جوارح سے قائم ہے اور مجموعہ مل کر نماز ہے۔ اسی طرح ایمان کوسمجھ لیں۔ خدا جانیں آپ کی بدھی (سمجھ) کوکیا ہوا ؟
ایمان جوجنس وفصل سےمرکب ہے۔ ماہیت جنسیہ ہے یا نوعیہ ماہیت جنسیہ ہونا توباطل ہے۔ اولاً اس لیے کہ جنس اس کلی کوکہتے ہیں جوکثیرین مختلفین بالحقائق پر ماہو کے جواب میں بولی جائے اور ایمان ایسی کلی نہیں کیونکہ اس کے ماتحت ایسی مختلف الحقائق ماہیات نہیں ہیں۔ جن سے ماہی کے ساتھ سوال کرنے پر ایمان واقع ہو اورثانیاً اس لیے کہ یہ ایک ایسی کلی ہے جس کا تحصل افرادحصصیہ کے ضمن میں ہوتاہے۔ "وکل حقیقة بالنسیة الی حصصہانوع کما قال الفاضل البہاری" لہذا اس کا ماہیت جنسیہ ہونا باطل اور ماہیت نوعیہ ہونا متعین ہوا۔ تو اب اسکے افرادمیں نفس ماہیت کے اعتبارسے زیادت ونقصان کیساتھ تفاوت نہیں ہوسکتا۔ جیسے ماہیت انسانیہ کے افرادمیں نفس حقیقت کے اعتبار سے کوئی تفاوت نہیں۔ بلکہ نفس انسانیہ میں سب برابر ہیں۔ اسی طرح نفس ایمان میں تمام مومنین برابرہونگے۔ اگر اختلاف ہوگا تو عوارض وآثارکے اعتبار سے ہوگا۔ اور اس کا کوئی منکرنہیں۔ حقیقت ایمان کے اعتبارسے افراد میں کمی زیادتی ماننا منطقی اصول سے غلط ہے۔ خواہ شرعاً صحیح ہی ہو۔ ہاں یہ وہم نہ کیا جائے کہ یہ اعتراض صرف ایمان کے ماہیت نوعیہ ماننے کی بناء پرہے۔ نہیں یہ اعتراض تو پہلے شق پربھی قائم ہے۔ اس لیے کہ ماہیت جنسیہ کے ماتحت انواع میں گو اختلاف نفس حقیقت کے اعتبارسے ہوتاہے۔ لیکن اس کی صورت اور ہے ماہیت جنس یہ میں کمی زیادتی کے اعتبارسے نہیں ہوتا۔ فافہم
اول یہ مسئلہ "لاتشکیک فی الماہیات مختلف فیہا" ہے۔ اشراقیین اس کے قائل نہیں۔ دوم اجزاء دو طرح کے ہیں۔ ذہنیہ خارجیہ جن سے فصل اجزاء ذہنیہ ہیں اور ایمان میں کمی زیادتی اجزاء خارجیہ کے لحاظ سے ہے۔ چنانچہ درخت اورنماز کی مثال واضح ہے۔ میرے خیال میں آپ کو کوئی استادنہیں ملا۔ ورنہ ایسی فاحش اغلاط میں واقع نہ ہوتے۔
احادیث شفاعت کے جن ظاہرالفاظ سے آپ نے ایمان کومقولہ کم سے ہونا سمجھا ہے۔ یہ بھی محل نظرہے اس لیے اگر احادیث میں مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی ان کومجسم بنا کر ان میں مقدار اور کمیت پیداکردے گا تو ان کو اس موقع پر پیش کرنا اور ان سے ایمان کے مقولہ کم سے ہونے پر استدلال کرنا بالکل بے محل اور غلط ہے اور اگرمراد یہ ہے کہ اسی عالم میں جو ایمان موجودہے وہ مقولہ کم سے ہے تو بتایا جائے کہ یہ ایمان بقول آپ کے اعتقادنطق۔عمل تین اجزاء حقیقیہ سے مرکب ہے یا یہ مرکب من حیث ہو مرکب مقولہ کم سے ہے یا اس کا کوئی جزا گر کسی جزء کے اعتبار سے ہے۔ توبتایئے کہ ان تین اجزاء میں سے کونسا جزء مقولہ کم سے ہے۔ یا ان تین اجزاء کے علاوہ کوئی جزء ایسا بھی ہے جوایمان کی حقیقت میں داخل ہے اور وہ مقولہ کم سے ہے۔ اگر کوئی اور جزء حقیقی ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اعتقاد نطق ،عمل ان تینوں اجزاء کے متحقق ہونے کے بعدبھی ایمان متحقق نہیں ہوگا۔ کیونکہ مرکب کے جمیع اجزاء متحقق نہیں ہوگا۔۔۔حالانکہ یہ بالاجماع باطل ہے۔ اور اگر ایمان کے یہی تین جزء ہیں اور ان میں سے کوئی جزء بھی مقولہ کم سے نہیں تو پھرمرکب من حیث ہو مرکب مقولہ کم سے کیسے ہوا۔ نیز یہ بھی بتایا جائے کہ ایمان اگرمقولہ کم سے ہے تو اس کی قسموں میں کونسی قسم میں داخل ہے۔ کم منفصل ہے یا متصل ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ کم منفصل عدد کوکہتے ہیں۔ اور ظاہرہے کہ ایمان عدد نہیں لہذا وہ کم منفصل بھی نہیں۔ اورکم متصل بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ کم متصل کی دوقسمیں ہیں۔ ایک قارالذات دوسری غیرقارالذات۔ غیرقارالذات صرف زمانہ ہے اورقارالذات تین چیزیں ہیں خط ،سطح،جسم تعلیمی ظاہرہے کہ ایمان ان تین چیزوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ پس معلوم ہو گیا کہ ایمان کم سے نہیں۔
میں توپہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ طوطی کی طرح جوکچھ آپ کو یاد ہے اسی پراعتراضات کی بنا رکھ دی ہے۔ ورنہ پتہ کچھ نہیں۔ کم منفصل کو آپ نے عدد میں منحصر ماناہے حالانکہ علم موسیقی کا موضوع نغمہ ،خوش آوازی بھی کم متصل ہے۔ عدد کم منفصل قار ہے اور نغمہ کم منفصل غیرقارہے۔ اور جب عمل ایمان میں داخل ہوا تو نغمہ بھی داخل ہوگیا کیونکہ نغمہ بھی عمل کی قسم ہے۔ مثلاً قرآن مجید یا کوئی اور ذکرنماز یا غیرنماز میں خوش آوازی سے پڑھے یا وعظ وغیرہ میں کوئی نظم یا کوئی موزوں کلام خوش الحانی سے اداکرے تو اس اعتبار سے ایمان مقولہ کم کے تحت آ گیا۔ اسی طرح نماز غیرنماز میں حرکات کی مقدار اور اندازہ یہ کم متصل غیرقارہے۔ جوعمل کی قسم ہے۔ اورعمل ایمان میں داخل ہے۔ تو اس اعتبارسے بھی ایمان مقولہ کم کے تحت آ گیا فتامل فیہ لیجئیے ،اب تو ہم نے ہندی کی چندی کردی اب خوب سمجھ آگئی ہوگی۔ اصل میں ایسی کمزوری کے ساتھ آپ کی حیثیت شاگردانہ ہونی چاہیے تھی مگرآپ نے خودکو علامہ فہمامہ سمجھ کرمناظرانہ رنگ اختیارکرلیا۔ خیرآپ کی مرضی مگر اصل بات یہ ہے۔
ہنوزطفلی دازنوش دنیش بے خبری زحسن ماچہ توازحسن خویش بے خبری
اسی طرح احادیث شفاعت کے بعد دوسرے ظاہر الفاظ کودیکھ کرآپ نے ایمان کوکوئی وزن دار چیز سمجھ لیا اورپھرمنطقی حیثیت سے اس کومقولہ کیف سے مان کر اس پرتفریع بھی کردی۔ "فزیادته ونقصانه من الکیفیات" اورشروع نوٹ میں تو صاف طورپرتحریر ہے کہ احادیث سے بظاہر ثابت ہوتا ہے کہ ایمان ایک کیفیت ہے اور اس کی کیفیت کی نوعیت آپ کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ وہ ذی وزن چیز ہے۔ تو گویا آپ کے نزدیک اس میں زیادتی ونقصان کامطلب یہ ہے کہ اس کا وزن گھٹتا بڑھتا ہے۔ اب یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتاہے۔جو اس سے پہلے نمبر میں گزر چکاہے۔ یعنی اگر ان احادیث میں مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اس کو وزن دار بنائے گا اورکسی جسمانی شکل میں ہوکر تولا جائے گا۔ تو اس موقع پر ان حدیثوں کا ذکربالکل بے محل اور خروج عن المبحث ہے اور اگرمراد یہ ہے کہ فی الحال جو ایمان اس دنیا میں موجودہے اورجس سے لوگ بالفعل متصف ہوتے ہیں۔ وہ وزن دار چیز ہے۔ اور اس میں کمی زیادتی وزن کے اعتبارسے ہوتی ہے تو اس کی صورت کیاہے۔ اس لیے کہ جب ایمان ،اعتقاد،نطق ،عمل ان تین اجزاء سے مرکب ہے تو ان میں سے کونسا جزء ذی وزن ہے۔ اور جب مرکب اورمجموعہ کے اجزاء میں سے کوئی جزء بھی ذی وزن نہیں تو مرکب کیسے ذی وزن ہوگیا۔ اور اگر یہ تینوں اجزاء ایمان کے جمیع اجزاء نہ ہوں۔ بلکہ ان کے علاوہ کوئی ذی وزن جزء بھی ہو تو وہی استحالہ لازم آئے گا۔ جو ابھی نمبر5 میں گزرا ہے۔ یعنی یہ اعتقاد بالقلب نطق باللسان ،عمل بالارکان "بجمیع ماجاء به النبیﷺ" پائے جانے پربھی ایمان نہ پایاجائے ۔
"فان الکل لایتحقق الابتحقق جمیع اجزائه وہوباطل اجماعاً فتامل"
ایمان کا مقولہ کیف سے ہونا احادیث شفاعت پرموقوف نہیں۔ کیونکہ کتب منطق میں اصح مذہب پر اعتقادکومقولہ کیف سے لکھا ہے اس اعتبار سے ایمان کا مقولہ کیف سے ہونا ظاہرہے۔ مزید برآں ہم نے وزن کی جہت سے بھی مقولہ کیف سے ہونے کاحکم لگایا ہے۔ اس پر جو کچھ آپ نے اعتراض کیا ہے وہ کوئی نیا نہیں۔ اس لیے ایسے کئی اعتراض ہیں جن سے بعض کا ذکر ہم تنظیم جلددس نمبر22مورخہ یکم صفرالمظفر 1360ھ مطابق 28فروری 1941ء ص 6 میں کرچکے ہیں۔ یہ اعتراض بھی وہاں مذکور ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں بھی وزن دار ہونا ثابت ہے۔ مشکوۃ باب فی المعراج میں متفق علیہ حدیث ہے ۔
«عن مالک بن صعصعة ان ّ انبیّ اللہ صلی اللہ علیه وسلم حدثہم عن لیلة اسری به بینمافی الحطیم وربماقال فی الحجرمضطجعاً اذاتانی آت فشق مابین ہذہ الی ہذہ یعنی من ثغرة نحرہ الی شعرته فاستخرج قلبي ثم اتیت بطست من ذہب مملواایمانافغسل قلبي ثم حشی ثم اعیدوفی روایة ثم غسل البطن بماء زمزم ثم ملئی ایماناوحکمة»
ترجمہ :۔مالک بن صعصعۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے ہمیں معراج کا واقعہ سنایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہواتھا کہ اس وقت میرے پاس ایک آنے والاآیا میرا پیٹ ہنسل کے گڑھے سے زیرناف تک پھاڑ دیا۔ پس میرا دل نکال لیا۔ پھر میرے پاس ایک سونے کا تھال لایاگیا۔ ایمان سے بھرا ہوا۔ پس دل دھوکرایمان سے بھرکر اپنی جگہ رکھ دیا گیا اور ایک روایت میں ہے کہ آب زمزم سے دھوکر ایمان وحکمت سے بھرا گیا۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ قیامت کے دن جوشئے وزن دارہوگی۔ وہ ابھی سے وزن دارہے۔ چنانچہ تھال میں رکھ کرلانے سے ظاہرہے۔ لیجئے اخیرتک آپ کی تقریرپریک لخت پانی پھرگیا۔
ایمان جوحقیقۃ واحدہ ہے اگرکئی مقولوں سے مرکب ہو تو ظاہرہے کہ ان میں سے ہرمقولہ اس کے لیے جنس ہوگا۔ اورہر ایک کا قرب اور بعد اس کے لیے ایک ہی درجہ پرہوگا۔ یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی قریب ہو اورکوئی بعیدکیونکہ جنس قریب جنس بعید کے ماتحت ہوتی ہے تو لازم آئے گا کہ ایک مقولہ دوسرے مقولہ میں داخل ہو۔ وہو محال عندالحکماء ۔ پس جب یہ تمام مقولے ایمان کےلیے ایک ہی مرتبہ کے لحاظ سے جنس بنیں گے۔ تو ماہیت واحدہ کے لیے مرتبہ واحدہ میں کئی جنسیں ثابت ہوں گی۔ حالانکہ اس قسم کی دو جنسوں کا ہونا محا ل ہے۔ فضلاعن اجناس متعددۃ ۔چنانچہ مسلم میں ہے:
«ومن ہہنایقترح عدم امکان جنسین فی مرتبة واحدة لماہیة واحدة ۔»
ایمان کا حقیقۃ واحدۃ ہونا نہ ہونا جواب نمبر1سے معلوم ہوچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حقیقۃ واحدۃ فی نفسہا نہیں اعتبار شرع پرموقوف ہے۔ کیونکہ مصطلحات شرع سے ہے اور ایک مرتبہ میں دوجنسوں کا نہ ہونا یہ بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آیا ایک قسم کی دوجنسیں ایک مرتبہ میں ہونی منع ہیں۔ مگر جن کے نزدیک تقویم جوہرکاعرض سے ہوسکتاہے۔ ان کے نزدیک منع نہیں۔ فتامل
میں آپ کوذرا تفصیل سے سمجھاتا ہوں۔ اس میں شبہ نہیں کہ جسم حقیقۃ واحدۃ ہے اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ جوہرجنس عالی ہے اب دیکھنا ہے کہ اس کے نیچے انواع کون کون سے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ہیولیٰ بھی اس کی ایک نوع ہے۔ صورت جسمیہ بھی اس کی ایک نوع ہے صورت نوعیہ بھی اسکی ایک نوع ہے۔ پھر عناصر اربعہ کا ہیولیٰ ایک ہے اور افلاک کاہیولی ٰ ہر ایک کا الگ ہے۔نفس ناطق بھی جوہر کی ایک نوع ہے علی ہذالقیاس عقول عشرہ بھی اس کے انواع ہیں۔فتامل
غرض جوہرکے تحت بہت سے انواع درج ہیں اور یہ ان کی جنس ہے اب ان انواع میں تمیزفصل سے ہوگی۔ نفس ناطق کی فصل الگ ہوگی۔ ہیولی کی الگ ہوگی۔ صورت جسمیہ کی الگ ہوگی۔ عقول عشرہ کی الگ ہوگی بلکہ جن کے نزدیک عقول عشرہ سے ہر ایک نوع ہے اور اس کی کلی کی قسم سے ہے جو ہر ایک فردمیں منحصر ہوتی ہے ان کے نزدیک عقول عشرہ سے ہر ایک کی الگ فصل ہوگی۔ اب اس بناء پر لازم آیا کہ جسم دو نوع سے مرکب ہو۔ ایک ہیولٰی دوسرا صورت۔ حالانکہ جسم حقیقۃ واحدۃ ہے اس سے معلوم ہوا کہ دو نوع سے حقیقت واحدۃ کی ترکیب ہوسکتی ہے۔ پس اگر ایک مرتبہ میں دوجنسیں ہوں تو اس سے بھی زیادہ سے زیادہ یہی بات پیدا ہوگی کہ دونوع کی ایک حقیقت ہوجائے۔ پس جیسے وہ جائز ہے یہ بھی جائز ہونی چاہیے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کےتین اجزاء میں سے پہلے دوجزء اعتقاد ونطق کے فوت ہونے سے ایمان فوت ہوجائے گا۔ لیکن تیسرے جزء عمل کے فوت ہونے سے ایمان فوت نہیں ہوتا۔ الاالصلوۃ
میں کہتا ہوں کہ جب ایمان آپ کے نزدیک کئی مقولوں سے مرکب ہے تو ظاہرہے کہ ہرمقولہ اس کے لیے جنس ہے اورجنس اپنی نوع کے لیے اجزاء ذاتیہ میں سے ہوتی ہے۔ تو جس طرح اعتقاد اورنطق مقولہ کیف اورمقولہ فعل سے ہیں اسی طرح عمل بھی مقولہ فعل سے ہے تو جو نسبت پہلے دو اجزاء کو ایمان کے ساتھ ہے بالکل وہی نسبت تیسرے جزء کی بھی اس کے ساتھ۔ یعنی جس طرح ان دونوں جزؤں کی نسبت ایمان کے ساتھ نسبت الجنس الی النوع یا نسبت الذاتی الی الذات ہے۔ بالکل اسی طرح اس تیسرے جزء کی نسبت بھی اس کے ساتھ ہے۔ پھرمنطقی حیثیت سے اس فرق کی کی وجہ ہے کہ پہلے دونوں کی جزء تو اس کے لیے ارکان ہوں اور ان کے فوت ہونے سے ایمان فوت ہوجائے لیکن تیسرا جومحض جزء ہی رہ جائے اور اس کے فوت ہونے سے ایمان فوت نہ ہو۔
اس کاجواب نمبر4میں آچکاہے۔
آپ نے اعمال صالح کو ایمان کے لیے اجزاء حقیقیہ بتایا ہے اور اس کی تشبیہ درخت کے پتوں اور اس کی شاخوں نیز نماز کے واجبات اورسنن کے ساتھ دی ہے لیکن جو اعمال کی جزئیت کے منکر ہیں وہ تو اسی نظیر سے ان کی عدم جزئیت ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اعمال کی نسبت ایمان کی طرف نسبت الجزء الی الکل نہیں۔ بلکہ نسبت الفرع الی الاصل ہے ۔چنانچہ مولوی شبیراحمدصاحب عثمانی دیوبندی اس مسئلہ پر ایک مبسوط بحث کرتے ہوئے اخیرمیں اپنے مذہب کی توضیح کے ضمن میں لکھتے ہیں :
"وعندالفریق الثانی (ای المنکرین الجزئیة الاعمال)الاعمال لینست من اجزاء الایمان بل ہی فروع نابتة من اصل الایمان الذی ہوالتصدیق والانقیادالقلبی کمااشارالیہ الشیخ ولی اللہ الدہلوی فنسبة الاعمال الی الایمان عندنایست نسبة الجزء الی الکل بل نسبة الفرع الی الاصل اونسبة البدن الی الروح المدبّرله-" الخ (فتح المللہم جلد1 صفحه 157)
اسی طرح جزئیہ حقیقی کی تائید وتشبیہ میں نماز کے واجبات اورسنن کوپیش کرنا بھی محل نظرہے۔ اس لیے یہ لوگ واجبات وسنن کو نماز کے لیے اجزاء حقیقیہ تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ ان کومتممات وکلمات صلوۃ کہتے ہیں۔ اگرکسی نے ان پرجزئیت کااطلاق کیا ہے تو وہ علی سبیل المجاز ہے۔
"کمایظہربعدالرجوع الی امہات الکتب من الفقة ۔"
نماز کے واجبات اورسنن اگرنماز سے خارج ہوں تو پھر ان میں اگر انسان ننگا ہوجائے یا منہ قبلہ رخ نہ رہے یا کوئی اور شرط فوت ہو جائے تو نماز فاسد نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ نماز میں ان کی شرط ہے نماز سے خارج کے لیے ان کی شرط ہونے کی کونسی دلیل ہے۔ دیکھیے خطبہ جمعہ دو رکعت کے قائم مقام ہے اس کو حنفیہ بے وضو جائز کہتے ہیں۔ تو واجبات اورسنن تو بہت ہلکے ہیں جب یہ نماز سے خارج ہیں تو ان کے لیے شرائط نماز بطریق اولی ضروری نہ ہوئے پھر لازم آئے گا کہ نمازپڑھتے پڑھتے انسان کئی دفعہ نماز میں داخل ہو اور کئی دفعہ خارج ہو۔ پس یہ نماز کے متممات کیا ہوئے۔ حقیقت میں نماز کی ادھیڑ بنت ہوئی نیز اخیر میں اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ یہاں تو جس رکن کو ذرا لمبا کیا سلام پھرگیا۔ نیز قومہ جلسہ درمیانہ تشہد وغیرہ یہ سب سلام ہوئے۔ خدا کی شان حنفیہ کی نماز پہلے ہی نیچ اونچ اور دوبرگ سبزتھی اب سونے پرسہاگہ ہوگئی کہ ہر وقت سلام پھرتا رہتا ہے فتامل۔
پھردرخت کی مثال آپ نے شاخوں وپتوں کو فرع بتلایا ہے پھر یہ بتلائیے کہ تمام ٹہنے کاٹ دیئے جائیں اورصرف تنا رہ جائے تو کیا اس کو درخت کہتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ پھر اصل فرع کی نسبت کیسی ہوئی۔ اور جب مجموعہ ٹہنے جزء ہوئے تو اس مجموعہ کی جزء میں ایک ایک ٹہنا بھی جزء ہوگیا۔ حالانکہ ایک ٹہنے کی نفی سے درخت کی نفی نہیں ہوتی۔ پھر اصل فرع کی نسبت شاخوں اور پتوں کی جزئیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ فرعیت تنے کے لحاظ سے ہے اور جزئیت درخت کے لحاظ سے ہے جو تنے اور شاخوں سے مرکب ہے۔ پس ایمان کی مثال درخت سے بالکل صحیح ہے۔ علاوہ اس کے اگر ان مثالوں میں آپ کو تردد ہے تو دیوارکی مثال لیجیے یا مکان کی لیجیے۔ ہر ایک اینٹ اس کی جزء ہے۔ لیکن اس کے نہ ہونے سے مکان کی یا دیوار کی نفی نہیں ہوتی۔
سائل نے اعمال کا تعلق ایمان کے ساتھ معلوم کرنے کے لیے اعضاء انسانیہ اورحقیقت انسانیہ کی جونظر پیش کی ہے آپ نے اس سے نفیا یا اثباتا کوئی تعرض کیوں نہیں کیا۔ اور بجائے اس کے دوسری نظیروں کی طرف عدول کرنے کی کیا وجہ ہے۔ حالانکہ بظاہرجوصورت شاخوں کی درخت کے ساتھ ہے۔ وہی اعضاء انسانیہ کی انسان کےساتھ ہے۔
عدول کی وجہ زیادہ وضاحت ہے۔فتامل
ہمارے مضمون کا جواب دیتے وقت ذر اسلام دین وغیرہ پربھی روشنی ڈال دیں کہ اعتقاد،نطق،اعمال ان میں داخل ہیں یانہیں مگریہ یاد رہے۔
نکتہ چین ہے غم دل اس کوسنائے نہ بنے کیابنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب