سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) قرآن شریف کلام الہٰی صفت قدیم قائم بالذات غیرمخلوق ہے؟

  • 5517
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4641

سوال

(10) قرآن شریف کلام الہٰی صفت قدیم قائم بالذات غیرمخلوق ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں، علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل میں :

(1)   قرآن شریف کلام الہٰی صفت قدیم قائم بالذات غیرمخلوق ہے یا نہیں اور جو شخص اس کومخلوق کہے وہکافر ہے یانہیں؟

(2)   اور کلام الہٰی جوصفت قدیم اور قائم بالذات ہے اور رسول اللہﷺ پر نازل کیا گیا ہے آیا یہ کلام مجازی ہے یا حقیقی؟

(3)   اور رسالہ استوار میں  جو نواب صدیق حسن صاحب نے بنایا ہے، وہ حق ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی و نصلہ جہنم و ساءت مصیرا(ترجمہ) جو شخص مخالفت کرے رسول کی، پیچھے اس کے کہ ظاہر ہوجائے واسطے اس کے ہدایت اور تابعداری کرے سوائے راستہ مومنوں کے پھیر دیتے ہیں ہم اس کوجدھر پھیرا، اور داخل کریں گے ہم اس کوجہنم میں  اور وہ بُرا ٹھکانا ہے اور رسول خداﷺ فرماتے ہیں: من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فہو رد ،یعنی جو شخص ہمارے دینی امر میں  کوئی نئی بات نکالے جو پہلے اس میں  نہیں تھی، سو وہ مردود ہے، لہٰذا اب ہم قرآن و حدیث و اجماع و قیاس سے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ جو شخص کہے کہ قرآن اللہ کا کلام حقیقی نہیں بلکہ اللہ کا کلام نفسی ہے یا کہے کہ قرآن مخلوق ہے یا کہے کہ اللہ کا کلام کلمات اور حروف اور آواز سے پاک ہے تو ایسے شخص کو علماء نے کافر بھی لکھا ہے۔

قرآن شریف:

تلک  الرسل فضلنا بعضہم علی بعض منہم من کلم اللہ۔ (ترجمہ) یہ رسول فضیلت دی ہم نے ان میں  سے بعض کوبعض پر، بعض ان میں  سے ایسے ہیں کہ کلام کیا ان سے اللہ نے ، اور فرمایا وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ترجمہ، یہ نبی ﷺ خود اپنی خواہش سے بنا کر نہیں بولتا، نہیں یہ مگر  وحی جو بھیجی جاتی ہے اس کی طرف اور فرمایا ان ھذا الاقول البشر ساصلیہ سقر یعنی وہ کافر کہتا ہے کہ نہیں یہ قرآن مگر کہاوت اور کلام آدمی کا سو ضرور داخل کروں گا میں  اس کو جہنم میں  اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وکلم [1] اللہ موسیٰ تکلیما ،اور فرمایا فتلقی[2] ادم من ربہ کلمات فتاب علیہ، اور فرمایا  قل[3] لوکان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی و لوجئنا بمثلہ مددا، اور فرماتا ہےبرسالتی[4] و بکلامی،اور فرمایا  ونادیناہ[5] من جانب الطور الایمن و قربناہ نجیا ، اور ایک کلام  ہے اور ایک صفت کلام، یعنی کلام کرنے کی قدرت، سو جیسے اللہ کی ذات پاک قدیم ہے اس کی قدرت بھی قدیم ہے اور کلام حادث ہے، اللہ فرماتا ہے ، ما [6]یأتیہم من ذکر من ربھم محدث ، یعنی نیا اور جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق حادث ہے اور ہر حادث مخلوق نہیں، امام احمد  کتاب الرد علی  الجہمیہ میں  (جو کہ مطبع فاروقی میں  تفسیر جامع البیان کے آخر میں  چھپی ہے) فرماتے ہیں: قولہ [7]ما یأیتہم من ذکر من ربھم محدث انما ھو محدث الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لان النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کان لا یعلم فعلمہ اللہ تعالیٰ فلما علمہ اللہ تعالیٰ کان ذلک محدثا الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

 حدیث شریف:

آنحضرتﷺ فرماتے ہیں: من قرأ حرفا من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ والحسنۃ بعشر امثالہا لا اقول الم حرف الف حرف ولام حرف و میم حرف۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ترمذی اور دارمی میں  روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھے اس کو ایک نیکی ہے اور نیکی کا ثواب دس گنا تک دیا جاتاہے ، میں  نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، الف ایک حرف ہے اور لام دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف  ہے، پس نادینا اور نجیاً میں  تو آواز ثابت ہوئی  اور اس حدیث سے حرف ثابت ہوئے اور حضرت نےفرمایا ہے کہ جو شخص کسی جگہ اترے اور کہے اعوذ [8]بکلمات اللہ   التامات من شرما خلق تو وہاں سے کوچ کرنے تک امن میں  رہے گا، اس حدیث سے کلمات ثابت ہوئے۔

قیاس:

جب اللہ تعالیٰ قدیم ہوا تو اس کی صفات بھی قدیم ہوں گی اور بالاتفاق کلام اللہ، اللہ کی صفت ہے، اس کے ساتھ قائم ہے توکلام قدیم ٹھہرا اور جب اللہ کے ساتھ قائم ہے اور اللہ غیر مخلوق ہے تو اس کا کلام بھی غیر مخلوق ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے غیر کا کلام نہیں اور قائم بھی اللہ کے ساتھ ہے ، غیر کے ساتھ نہیں، کئی وجہ سے:

جہمیہ کہتے ہیں کہ ہروہ کلام جس کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، وہ حقیقت میں  اسی کا کلام ہے اور قرآن کے کلام اللہ ہونےکا مطلب بھی یہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے اور جوبھی کلام کا فاعل ہے ،اگرچہ غیر میں  ہی کیوں نہ ہو، وہ ان کے نزدیک اس کامتکلم ہے اور ان کے نزدیک کلام کا کوئی مدلول ایسا نہیں ہے جو رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہو، اور اگر کوئی مدلول ہے بھی تو وہ صرف یہی دلالت کرے گا کہ اس نے آواز کو کسی جگہ میں  پیدا کیا اور دلیل کا بیان کرنا ضروری ہے  تو جہمیہ پر الزام قائم ہوگا کہ اگر ہر مخلوق آواز اسی کی ہے اور آواز اپنی ہر صفت کے لحاظ سے مخلوق ہے تو پھر اس آواز میں  جو اللہ کا کلام ہے اور اس آواز میں  جو اس کا کلام نہیں ہے کیافرق ہوگا؟

دوسرا الزام ان پر یہ ہے کہ جب کوئی صفت کسی محل کے ساتھ قائم ہو،جیسے علم یا قدرت اور کلام وغیرہ تو  اس کا حکم اسی محل کی طرف منسوب ہوگا نہ کہ غیر کی طرف۔

تیسرا یہ کہ  مصدر ہے جب اسم فاعل یا صفت شبہ مشتق ہو تو وہ اسی فاعل کے لیے ہوتا ہے نہ کہ غیر کے لیے اور یہ سب باتیں بالکل و اضح ہیں اور یہ سلف اور ائمہ کے اقوال کی تائید کرتی ہیں، جوکہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کلام کو غیر میں  پیدا کریں تو وہ کلام اسی کی طرف منسوب ہوگی نہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف۔

چوتھا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام کرنے کو کو مصدر سےمؤکد کیا ہے اور علماء کامذہب ہے کہ جب مصدر سے تاکید ہو تو مجاز کی نفی ہوتی ہے تاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ شاید اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف کوئی فرشتہ بھیجا ہو یا آپ کو کو کوئی کتاب لکھ کر دے دی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بول کر کلام کیا۔

پانچویں بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فضیلت بخشی ہے اور فرمایا ہے کہ ’’کسی آدمی کی یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے  اور یا پھر کوئی فرشتہ بھیج دے الآیۃ،اور موسیٰ علیہ السلام سے یہ گفتگو پردے کے پیچھے ہوئی اورفرمایا ، اےموسیٰ میں  نے تجھے لوگوں پر اپنی رسالت اور کلام سےفضیلت عطا فرمائی اور فرمایا ہم نے تیری طرف اسی طرح سے  وحی کی ہے  جیسے کہ نوح کی طرف وحی کی تھی اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف یہاں تک کہ فرمایا ، اللہ نےموسیٰ سے بول کر کلام کیا، وحی تو وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نبیوں کےدلوں پربلا واسطہ القا کرتے ہیں۔ اگر موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنے کامطلب یہ ہو، کہ اللہ تعالیٰ نے اس آواز کو ہوا میں  پیدا کیا ہو تو دوسرے نبیوں سے آپ کی وحی بہتر ہوگی کیونکہ انہوں نےمعنی مقصود کوبلا واسطہ معلوم کیا ہے اور موسیٰ علیہ السلام نے ہوا کے واسطہ سے۔

اور حضرت ﷺ اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ اربعہ وغیرہ سب مجتہدین متقدمین میں  سے کسی شخص نےنہیں کہا کہ اللہ کی کلام کلام نفسی ہے ، لہٰذا اللہ کے کلام کو کلام نفسی کہنا  تکییف ہے اور تکییف بالاتفاق باطل ہے۔

اجماع سلف:

امام ابوحنیفہ فقہ اکبری میں  فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ ہمیشہ  سے اپنے کلام کے ساتھ متکلم رہا ہے اور کلام اس کی ازلی صفت ہے اور وہ اپنی تخلیق کے ساتھ خالق ہے اور تخلیق اس کی ازلی صفت ہے اور اپنے فعل کے ساتھ فاعل ہے اور فعل اس کی ازلی صفت ہے اور فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور فعل اس کی ازلی صفت ہے اورمفعول مخلوق ہے۔ اور اللہ کافعل غیر مخلوق ہے اور اس کی تمام صفتیں ازلی ہیں،حادث اور مخلوق نہیں ہیں، جو شخص صفات کو مخلوق یا حادث کہے یا اس کے متعلق اسے شک ہو وہ اللہ کا منکر ہے اور قرآن کتاب کی صورت میں  لکھا گیا ہے ، دلوں میں  محفوظ ہے، زبانوں سے پڑھا جاتا ہے، آنحضرتﷺ پر اتارا گیا ہے ، قرآن پڑھتے وقت ہمارے اپنے الفاظ مخلوق ہیں اور ہماری کتابت اور تلاوت مخلوق ہے اور قرآن غیر مخلوق ہے۔

اور پھر فرمایا ، اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور موسیٰ علیہ السلام اور دوسری مخلوقات کی کلام مخلوق ہے اور قرآن اللہ کاکلام ہے  اور قدیمی ہے، نہ کہ لوگوں کا کلام۔ اور موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کا کلام سنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اللہ نےموسیٰ سے بول کر کلام کیا اور اللہ تعالیٰ ہی متکلم تھے اور موسیٰ علیہ السلام متکلم نہیں تھے۔

اور امام مالک بن انس سے کئی طرق سے ان لوگوں کی تردید منقول ہے جوقرآن کومخلوق کہتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ قرآن کے مخلوق ہونےکے قائل سے توبہ کرانی چاہیے ، یہی اماممالک کامشہور مذہب ہے، اسی پر آپ کے پیروؤں کا اتفاق ہے۔

اور امام احمد بن حنبلسو ان کا کلام قرآن مجید کےمتعلق مشہور اور متواتر ہے، آپ کی تکلیف جو آپ نےقرآن کےبارے میں  جہمیہ سے اٹھائیں مشہو رہیں اور امام شافعی نے حفص بنعمرو کو جو کہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائلین میں  سےتھا، کہاتھا، جب کہ اس نے امام شافعی سے مناظرہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مخلوق ہے تو نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا اس کو ابن ابی حاتم  نے ’’الرد علی الجہمیہ‘‘ میں  روایت کیا ہے اورعلی بن ابی طالب سے دو سندوں سےمروی ہے کہ خوارج نے جب ان کو صفین کےدن دو آدمیوں کے حکم تسلیم کرنے پر الزام دیاتو آپ نے فرمایا میں  نے کسی مخلوق کو حکم تسلیم نہیں کیا، میں  نے قرآن کو حکم تسلیم کیا ہے۔

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ایک جنازہ میں  تھے، جب میت لحدمیں   رکھی گئی تو ایک آدمی اٹھا اور کہنے لگا ’’اے قرآن کےرب اس کو بخش دے ‘‘ تو عبداللہ بن عباس اس پر جھپٹے اور فرمایا  ارے ٹھہر، اسی میں  سے ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں، جو قرآن کی قسم اٹھا لے اس پر ہرآیت کے بدلے  ایک قسم ہے اور سفیان بن عینیہ نے کہا ، میں نے عمرو بندینار سےسنا ، آپ کہتے ہیں ، میں ستر سال سے اپنےمشائخ اور دوسرےلوگوں سے سنتاآرہا ہوں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، اسی سےشروع ہوا اسی کی طرف لوٹے گا اورایک روایت کے یہ لفظ میں  ’’ قرآن  اللہ کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے، حرب کرمانی نے سنداً عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے کہ میں  ستر سال سےنبیﷺ کے صحابہ اور بعد کےلوگوں سے سنتا آرہا ہوں کہ اللہ خالق ہے اور قرآن کےسوا باقی ہر شئ مخلوق ہے ، وہ اللہ کا کلام ہے، اسی سےنکلا اور اسی کی طرف لوٹے گا ،امام جعفر صادق سے  مشہور ہے کہ لوگوں نے ان سے قرآن کے متعلق سوال کیاکہ وہ خالق ہے یا مخلوق ؟ تو آپ نے فرمایا، نہ وہ خالق ہے  نہ مخلوق، بلکہ  وہ اللہ کا کلام ہے اور حسن بصری ، ایوب سختیانی، سلیمان تیمی اور تابعین کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے اور احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور ان جیسے دیگر ائمہ اور ان کے متبعین کے اقوال قرآن کے متعلق مشہور ہیں بلکہ ائمہ سلف سے تو ان لوگوں پر کفر کافتویٰ اور ان سے توبہ کرنے کےاقوال بھی شہرت تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر وہ توبہ کرے  تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیاجائے، یہ فتویٰ امام مالک بن انس اور طحاوی کے قول کےمطابق امام ابوحنیفہ،ابویوسف اور امام حسن بن شیبانی رحمہم اللہ سےمنقول ہے ۔‘‘

سو یہ بات صحابہ اور تابعین اور جمیع ائمہ مجتہدین سے ثابت ہوچکی ہے کہ قرآن شریف اللہ کا کلام ہے اور کلام اس کی صفت قدیمہ ہے اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور غیر مکلوق ہے اور جو شخص اس کومخلوق کہے سو وہ کافر ہے اور جس شخص کو زیادہ تحقیق منظور ہو وہ کتاب العلو امام ذہبی اور خلق افعال العباد امام بخاری کااور متن فقہ اکبر کا اور کتاب الرد علی الجہمیۃ للامام احمد بن حنبل کو دیکھ لے ، واللہ اعلم بالصواب ، اور اللہ کلام لفظی کے ساتھ کلام کرتا ہے ، کلام نفسی کاسلف صالحین میں  کہیں پتہ نہیں۔

(2) اور جو حضرتﷺ پر اللہ کا کلام اترا ہے،حقیقی ہے، مجازی نہیں اس واسطے کہ حقیقت اصل ہے اور مجاز فرع جب تک کوئی قرینہ قویہ صارفہ نہ پایا جائے حقیقت نہیں چھوڑی جاسکتی۔

(3) نواب صاحب مرحوم کاجو رسالہ استوا کے بارے میں  موسوم باحتوا ہے، حق ہے اور سب موافق سلف صالحین کے ہے۔ واللہ اعلم۔

حررہ ابواسماعیل یوسف حسین عفی عنہ، ھذ ا ھوالصواب واللہ در من اجاب ،محمد  اوسط عفی عنہ بھاری، رحم اللہ المجیب فقد اجاب جو ابا شافیا لا شک فیصحتہ وکونہ صوابا ابوتراب عبدالتواب الملتانی عفی عنہ۔

 سید محمد نذیر حسین ... سید محمد عبدالسلام غفرلہ ... سید محمد ابوالحسن



[1]   اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے بول کر کلام کی۔

[2]   سو آدم نےاپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لیے پھر اس نے آدم کی توبہ قبول کرلی۔

[3]   آ پ کہہ دیں کہ اگر سمندر میرےرب کے کلمات کے لیے سیاہی بن جاویں تو میرے رب کےکلمات کے ختم ہونے سے پہلے پہلے سمندر ختم ہوجائیں، اگر چہ ان کی مدد کے لیے اتنے سمندر اور بھی آجائیں۔

[4]   میں  نے تجھ کو اپنی پیغمبری اور اپنی کلام  سےسرفراز کیا۔

[5]   ہم نے اس کو ہ طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور اسے مشورہ کے لیے اپنے قریب کرلیا۔

[6]   ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جب بھی کوئی نیا ذکرآتا ہے۔

[7]   اللہ تعالیٰ کا قول کہ ’’نہیں آتا ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نیا ذکر‘‘ بات صر ف یہ ہے کہ وہ ’’نیا‘‘ تو نبی ﷺ کی نسبت سے ہے کیونکہ آپ  اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کو معلوم کرایا تو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کرایا تو وہ آنحضرتﷺ کے لیے نیا ذکر ہوا۔

[8]   میں  ہر اس چیز کی بُرائی سے جو اللہ نے پیدا کی ہے ، خدا کے پورے کلمات سے پناہ لیتا ہوں۔



فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے