علمائے دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں، کہ اگر کوئی شخص اس خیال سے یارسول اللہﷺ، یا ، یا علی، یا ، یا بھیکھ وغیرہ بار بار کہے، کہ ہوسکتا ہے کہ ان کو اپنے علم طبعی جزئی کےلحاظ سےمیرے حال کی خبر ہوتی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خبر نہ ہوتی ہو اور علم ذاتی کلی خداوند تعالیٰ ہی کے لیے جانتا ہو تو اس گمان پر ایسے الفاظ کہنا جائز ہے یا نہیں اور یا کسی اور طریقہ سے بھی ایسےالفاظ کہنے جائز ہیں یانہیں؟
جاننا چاہیے کہ غیب کا علم خواہ جزی ہو یا کلی ، خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے اور اس پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں ، آپ کہہ دیں آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا، بلکہ کسی کو بھی مر کر اٹھنے کا بھی علم نہیں‘‘ اورغیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ان کو صر ف وہی جانتا ہے‘‘ ’’اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں اکٹھی کرلیتا‘‘ ’’اور میں نہیں جانتا کہ میرے پاس کیا معاملہ ہوگا یا تمہارے ساتھ کیا ہوگا میں تو صرف وحی کی پیروی کرتا ہو۔‘‘
یعقوب علیہ السلام کو یوسف کے حال کی خبر نہ ہوسکی، عزیر علیہ السلام اپنے ٹھہرنے کی مدت ،گدھے کی کیفیت اور اپنے زندہ ہونے کا حال نہ جان سکے،اصحاب کہف کو اپنے سونے کی مدت کاعلم نہ ہوسکا، حضرت عائشہ صدیقہ کی بریت آنحضرتﷺ کو وحی نازل ہونے سے پہلے معلوم نہ ہوسکی،روح ، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوالکرنے والوں کو وحی نازل ہونے تک آپ جواب نہ دے سکے، یہ سب واقعات قرآن مجید میں ہیں اور احادیث اور متقدمین کی کتب اس مضمون سے بھری پڑی ہیں،ہاں اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو کچھ بتا دیں تو اس کو علم ہوجاتا ہے ، لیکن پھر وہ غیب بہ حیثیت غیب باقی نہیں رہ جاتا کیونکہ غیب تو وہ ہے جو حواص ظاہری اور باطنی سے غائب ہو، ورنہ آدمی وجدان اور استدلال سے کئی باتیں معلوم کرلیتا ہے۔
اور پھر غیب بھی مختلف ہیں اور زاد اندھے کے لیے رنگوں کی دنیا غیب ہےاور راگ اور نغمے کی دنیا حاضر، بہرے کے لیے آوازوں کی دنیا غیب ہے اوررنگوں کی حاضر، نامرد آدمی سے لذت جماع غیب ہے،اور فرشتہ کے لیے بھوک پیاس غیب ہے اورجنت ، دوزخ حاضر ، علی ہذا القیاس اس غیب کو غیب اضافی کہتے ہیں اور جو تمام مخلوقات سے غیب ہے، مثلاً قیامت کے آنے کاوقت اور خداتعالیٰ کے احکام کو نیہ جو روزانہ نازل ہوتے رہتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کاتفصیلی علم یہ حقیقی غیب ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ کاخاصہ ہے۔
اور بزرگان دین کے لیے غیب جزئی ثابت کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے جاکھڑا ہو ، یہ غیب بھی خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے اس کو یوںسمجھو کہ مارنا اور زندہ کرنا خدا تعالیٰ کاخاصہ ہے تو کوئی یوں کہہ سکتا ہے کہ کلی طور پر مارنا اور زندہ کرناتو خدا کا خاصہ ہے، لیکن جزوی طور پر دوسرے بھی زندہ کرتے اور مارتے ہیں۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ ہم طبعی علم کےمتعلق کہتے ہیں نہ کہ ذاتی علم کے متعلق کیونکر ہوسکتا ہے کہ جب ہم ان کو پکاریں تو اللہ تعالیٰ ان کوکشف یا الہام کی بنا پر مطلع کردیتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کاغیب ہونا تو یقینی ہے اور حصول علم ظنی اور ظن یقین کامقابلہ نہیں کرسکتا اور پھر ایسا علم ہوجانا بھی تو خرق عادت یاکرامت کےطور پر ہوگا اور شریعت کے کون سےحکم کی بنیاد کرامت یا خرق عادت پررکھی گئی ہے؟ہوسکتا ہے کہ کسی ولی کی کرامت سے سورج دوبارہ مغرب سے طلوع ہوجائے یا ایک ہی جگہ پرگھنٹہ دوگھنٹہ ،ایک دن یا ایک سال ٹھہرارہے کیا اس بنا پراپنی نمازیں قضاکرلو گے کہ چلو اس وقت پڑھ لیں گے ۔علی ہذاالقیاس تمام خرق عادات کا یہی حال ہے ہاں اگر یقینی طور پر کوئی چیز ہونے والی، تو شریعت اس کےمتعلق اپنے حکم نافذ کرتی ہے، جیساکہ دجال کے وقت دنوں کا لمبا ہوجانا تو اس کے متعلق نمازوں کی کیفیت آنحضرتﷺ نےبیان کردی ہے ، ہوسکتا ہے کہ کسی ولی کی کرامت سےمردہ سال بعد یا سو سال بعد زندہ ہوجائے تو کیا اس خیال پر اس کا ورثہ تقسیم نہ کرو گے؟ اس کی عورت دوسرا نکاح نہ کرے گی؟ زمین کے لپیٹے جانے کے خیال سے نماز قصر کرلو گے؟ کسی کشف کی بناء پرمدعی کا صحیح دعوے گواہاں عادل کی موجودگی میں رد کردو گے؟ کشف کی وجہ سے کسی منافق کو قتل کردو گے ؟ بغیر گواہوں کے کشف کی بناء پر، زانی مرد و عورت کوسنگسار کرلو گے؟ آخر کشف و کرامت کی بناء پرآپ کیاکرلیں گے؟ ایسے عقیدے کانتیجہ سوائے کفر و الحاد اور زندقہ کے اور کیاہوگا؟ خدا کی پناہ!
ہاں اگر کبھی غلبہ محبت کی بنا پر یارسول اللہ، یا ،یاغوث الاعظم زبان سےنکل جائے تو یہ جائز ہے لیکن باربار اس کا تکرارکرنا اور اس کاوطیفہ کرناجائز نہیں ہے ، شرک ہے، قرآن مجید میں جابجا’’یدعون من دون اللہ‘‘ اور ’’یدعون من دونہ ‘‘فرمایا گیاہے اور اس پر کفر و شرک کافتویٰ اور خلود نار کی وعیدسنائی گئی ہے ، ایسی صریح آیات کی تاویل کرنا جہل مرکب ہے قرآن مجید میں تحریف کے قائم مقام ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اللہ کے سوا ان کومت پکارو جو تجھے کوئی نفع نقصان نہ دے سکیں۔ اگر تو نے ایسا کیا ، تو تو ظالموں میں سے ہوگا اور فرمایا، ’’آپ کہہ دیں، میں اپنی جان کے نفع و نقصان کابھی مالک نہیں ہوں‘‘ ان دونوں آیتوں کے مجموعہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کو بھی اپنے نفع و نقصان کے لیے پکارنا ظلم ہے اور فرمایا، ’’اس سے زیادہ کون گمراہ تر ہے جو اللہ کے سوائے اوروں کو پکارے جو قیامت تک بھی اس کو جواب نہ دے سکیں وہ تو اس کے پکارنے سے محض بے خبر ہیں‘‘
اگر کوئی من دون اللہ کے لفظ سے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈال کر کہے کہ یہ تو بتوں کے متعلق ہے تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ لفظ من ذوی العقول کے لیے آتا ہے اور واؤ و نون سے جمیع بھی ذوی العقول کے لیےآتی ہے، تمہارا اعتراض کیسے صحیح ہوسکتا ہے، اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو اپنے بھائی، بیٹے اور عزیزوں کو بھی نہیں پکار سکے گا تو میں کہوں گاکہ لفظ ’’من لا یستجیب لہ‘‘ اور کلمہ ’’وہم عن دعائہم غافلون‘‘ تمہارے اعتراض کا جواب دے رہے ہیں۔
اگر کوئی اعتراض کرے کہ کسی مفسر نے بھی اپنی تفسیر میں ایسا نہیں لکھا ہے کہ یا آدم نہ کہنا یا شیث نہ پکارنا اور یا ادریس مت کہنا یہ شرک ہے ، یا ابراہیم یا موسیٰ یا عیسیٰ یا رسول اللہ یا علی یا نبی یا حسین یاسالار یابھیکھ کہنامنع ہے ، کفر ہے۔ تومیں کہوں گاکہ لفظ من دو ن اللہ ایک قاطع تلوار ہے جوتمہارے اعتراضات کا جواب دےرہی ہے اور پھر بھی اگر کوئی کہے کہ نہیں جزئیات کی تفصیل ضروری تھی تو میں کہوں گا ، لوگ ہزاروں نبیوں، ولیوں،صدیقوں، شہیدوں کو پکارتے ہیں، اگر ان کے ناموں کی تصیل تفاسیر میں بیان کی جاتی، تو اس سے کئی جلدیں تیار ہوجاتیں، مفسرین کی ایسے لغو کام میں عمریں بسر ہوجاتیں اور پھر بھی تم کو شاید اعتبار آتا یانہ آتا۔
اور پھر قرآن مجید، حدیث شریف اور فقہ کی کتابوں میں جابجا حکم آیا ہے،’’نماز قائم کرو ، زکوٰۃ اداکرو، اللہ پر ایمان لاؤ‘‘ تو تمہارے قول کے مطابق تو زید کہہ سکتا ہے کہ مجھ پر نماز فرض نہیں ہے، کیونکہ میرا نام لےکر تو نہیں فرمایاگیا، کہ اے زید نماز قائم کرو،عمرو کہتا کہ میں زکوٰۃ نہیں دوں گا،کیونکہ یہ تو نہیںکہا گیا کہ اےعمرو زکوٰۃ دے۔ علی ہذا القیاس کوئی یہ بھی کہہ دیتا کہ قرآن میں صرف لات و عزیٰ کا ذکر آیا ہے، کالی دیوی، بھوانی، بھیروں، سیتا جسرت، رامچند،کرشنا ، کنہیا، شیخ سدو اور میراں وغیرہ کا نام نہیں آیا، لہٰذا ان کو سجدہ کرنا یا پکارنا جائز ہے۔
اور پھر امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد حنبل اور دوسرے فقہاء اور محدثین کے تمام استنباط اور اجتہاد گاؤ خورد ہوجاتے، ہر آدمی بڑی آسانی سےکہہ جاتا کہ یہ جزئیات اپنے امور کے لیےخاص ہیں، میرے لیے تو کوئی حکم نہیں ہے۔
اگر کوئی آدمی سوال اٹھاوے کہ حصن حصین میں صلوۃ حاجت کے بیان میں یامحمد کے لفظ آئے ہیں ، پھر ان کاپڑہنا کیونکر جائز ہوا، تو اس کاجواب یہ ہے کہ اس وقت آنحضرتﷺ زندہ اس کے پاس موجود تھے اور اگر حکایت حال ماضیہ کے طریق پر آج بھی انہی الفاظ کو دہرا لیا جائے تو جائز ہے کیونکہ ان فرمودہ الفاظ میں برکت ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کی زبان سے نکلے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ہم قرآن مجید کی تلاوت میں یا عیسیٰ یا موسیٰ وغیرہ الفاظ مذائیہ پڑھتے ہیں لیکن ان سے مقصود نہ تو ان کو سنانا ہوتا ہے اور نہ یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ سن رہے ہیں۔
سید محمد نذیر حسین... محمد قطب الدین... نوازش علی ... محمد برکت اللہ ... محمد بشیر الدین قنوجی ... سید محبوب علی جعفری
محمد بن بارک اللہ پنجابی ... محمد حسین بٹالوی ... احمد اللہ۔