کسی نبی یاولی یا اور کسی کو خدا تعالیٰ کے سوا اپنی مشکل کشائی اور حاجت براری کے لیےپکارنا ، اور اس سے مددیں چاہنا اور مرادیں مانگنا شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے؟
سوائے خدا کے اور کسی کو خواہ نبی ہو یا ولی مشکل کے وقت پکارنا اور ان سے مددیں چاہنا اور ان سے امید نفع اور ضرر کی رکھنا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، و الذین یدعون من دون اللہ لا یخلقون شیئا وھم یخلقون اموات غیر احیاء و مایشعرون ایان یبعثون ، یعنی اور جن کو پکارتے ہیں اللہ کے سوا کچھ نہیں پیدا کرتے اور خود آپ پیدا کیے گئے ہیں، مردے ہیں زندہ نہیں ہیں، ان کو خبر نہیں کہ کب قبروں سےاٹھائےجائیں گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یاایہا الناس ضرب مثل فاستمعوا لہ ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقو اذ بابا ولو اجتمعوا لہ وان یسلیہم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ ضرف الطالب والمطلوب ما قدر واللہ حق قدرہ ان اللہ لقوی عزیز، یعنی اے لوگو! ایک مثل کہی جاتی ہے ، اس کوسنو! جن کوتم پکارتے ہو اللہ کے سوا ہرگز نہ بنا سکیں گے ایک مکھی اگرچہ سارے جمع ہوں اور اگر کچھ چھین لے ان سےمکھی تو چھڑا نہ سکیں اسے ، دونوں کمزور ہیں، مانگنے والا اور جس سےمانگا ، لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں سمجھی، جیسی اس کی قدر ہے، بیشک اللہ زور آور ہے زبردست ہے۔
اور روایت ہے حضرت ابن عباسؓ سے قال[1] کنت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوما فقال یا غلام احفظ اللہ یخفظک احفظ اللہ تجدہ تجاھک و اذا سالت فسئل اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ رواہ الترمذی ، اور استعانت ایک قسم کی عبادت ہے، پس سوائے خدا کے کسی سے نہ چاہیے ، تفسیر معالم التنزیل میں ہے، الاستعانۃ[2] نوع تعبد انتہی اورمجمع البحار میں فان[3] العبادۃ وطلب الحوائج والاستعانۃ حق اللہ وحدہ انتہی۔ حررہ ابوالطیب محمد شمس الحق عفی عنہ
ابو الطیب محمدشمس الحس سید محمدنذیر حسین
[1] میں ایک دن رسول اللہﷺ کے پیچھے سواری پربیٹھا ہوا تھا ۔ آپ نے فرمایا، بیٹا اللہ کی اطاعت کوملحوظرکھنا، خدا تجھے ملحوظ رکھے گا، اللہ کو اگر ملحوظ رکھے گا تو اسے ہمیشہ اپنے پاس پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ سےمانگ اور جب مدد لینا چاہے تو اللہ سے لے۔
[2] مدد مانگنا عبادت کی ایک قسم ہے۔
[3] عبادت ، حاجات کا طلب کرنا اور مدد مانگنا یہ صرف اللہ کا حق ہے۔