السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اصل ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے یا کما ل ایمان میں۔ خوارج محدثین کے درمیان تعریف ایمان میں امتیازی کیا فرق ہے ؟ازراہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔جزاكم الله خيرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجیدمیں کلمہ شہادت کوشجرہ طیبہ (درخت)سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتاہے۔
﴿أَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلٗا كَلِمَةٗ طَيِّبَةٗ كَشَجَرَةٖ طَيِّبَةٍ أَصۡلُهَا ثَابِتٞ وَفَرۡعُهَا فِي ٱلسَّمَآءِ ﴾سورة ابراهيم24
حدیث شریف میں آیاہے:
«الایمان بضع وسبعون شعبة افضلہاقول لاالہ الااللہ الحدیث ۔»
ایمان کی مثال درخت سے دی گئی ہے جس طرح درخت کی جڑ زمین کے اندر پوشیدہ رہتی ہے اور اوپر اس کاتنا اور ڈالیاں اور شاخیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایمان بھی ظاہر وباطن اندر اور باہرکے مجموعہ کا نام ہے ۔۔۔۔ ایمان کی جڑ یا تو مومن کے قلب میں یقین و اذعان کی صورت میں ہوتی اور پوشیدہ رہتی ہے۔ اور اس کا اعلیٰ شعبہ یعنی تنہ زبان کی شہادت ہے۔ اور بقیہ اعمال اس جزوتنہ کی شاخ اور ڈالیاں ہیں۔ جس طرح اندرسے باہرتک درخت کے مجموعی حصہ کو درخت کہتے ہیں۔ اگرچہ تفصیل کے وقت کسی کو جڑ کسی کو شاخ اور تنے سے تعبیرکرتے ہیں۔ اسی طرح ایمان اعتقاد وعمل کے مجموعہ کا نام ہے اورجس طرح بعض شاخ یا تنے کے نکل جانے سے اصل درخت کا وجودباقی رہتاہے مگر اس میں نقص آ جاتا ہے۔ اس طرح بعض اعمال کے نہ پائے جانے سے اصل ایمان کے اندرنقص آجاتا ہے۔ اور اگرکل اعمال متروک ہوجائیں تو اس کی مثال اس درخت کی ہے جوصرف جڑ ہی جڑہے اور درخت کی کوئی حیثیت اس کے اندرموجود نہیں۔ ایسی صورت میں پھر اصل درخت ہی کالعدم بلکہ معدوم ہوجاتاہے۔ یہی حال ایمان کاہے۔ اس اسلامی تعریف کومدنظررکھتے ہوئے جزوکامل وغیرہ کوجس طرح چاہیں تعبیرکرلیں۔
عباراتناشتی وحسنک واحد وکل الی ذالک الجمال یشیر
پھرایمان کی یہ تعریف شرعی معنی سے ہے۔ یعنی شریعت کے نزدیک یقین وعمل کے مجموعہ کا نام ایمان ہے۔ لغوی معنی ایمان کے ایک تو امن دینے کے ہیں۔ جس کا مفہوم ان لفظوں میں بتلایا گیاہے۔ المومن من أمن الناس بوائقہ دوسرے معنی یقین وتصدیق کے ہیں۔ جیسے اخوان یوسف ؑ نے حضرت یعقوب ؑ سے کہا تھا کہ:
﴿وَمَآ أَنتَ بِمُؤۡمِنٖ لَّنَا وَلَوۡ كُنَّا صَٰدِقِينَ ﴾ سورة يوسف17
کیونکہ مومن کےلیے کتاب وسنت کی باتوں اور ان کی خبروں پریقین کرنا ضروری ہے اور یہی چیز انسان کو عذاب سے امن میں رکھنے والی ہے۔ لہذا اس لفظ کو اس موقع پر دونوں معنی ملحوظ رکھتے ہوئے استعمال کیا گیاہے۔ اور چونکہ تصدیق کا ثبوت اعما ل سے ہوتاہے۔ جیسے درخت کا وجود اس کے تنا وشاخوں سے۔ اس لیے حکیم کامل نے اس کو درخت سے تشبیہ دی اورجس طرح درخت کی ڈالیاں مختلف حیثیت رکھتی ہیں۔ کوئی بہت بڑی جوقائم مقام درخت کے قرار دی جاتی ہے۔ تو کوئی بالکل معمولی اسی طرح اعمال کی نوعیت ہے۔ اورجس طرح درخت کی شاخ اور پتیاں کبھی درخت سے الگ ہوجاتی ہیں۔ اورکبھی صرف ٹہنیوں اورپتوں کی تازگی اور رونق مفقود ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اعمال کا اثرکبھی تو نفس ایمان پر پڑتا ہے کبھی اس کی ورنق اوررنگت پر۔ لہذاکبھی اصل ایمان میں نقص آتاہے۔ کبھی کمال یعنی اس کی رونق ودبہجت پر۔
محدثین اعتقاد واعمال کو ایمان کی تعریف میں لیتے ہوئے پھر بھی ترک عمل کو کفر نہیں کہتے۔ بخلاف خوارج کے ان کےنزدیک انسان باوجود یقین واعتقاد کے ترک عمل سے کافر ہوجاتا ہے۔ اورمحدثین کے نزدیک ایسے شخص کا شمار کافرمیں نہیں بلکہ فاسق میں ہوگا۔ خوارج آیت:
﴿وَأَمَّا ٱلَّذِينَ فَسَقُواْ فَمَأۡوَىٰهُمُ ٱلنَّارُۖ كُلَّمَآ أَرَادُوٓاْ أَن يَخۡرُجُواْ مِنۡهَآ أُعِيدُواْ فِيهَا- خلودفي النار﴾--سورةالسجدة20
لیتے ہوئے اس کو کافرقرار دیتے ہیں۔ مگرحضرات محدثین ؒ کہتے ہیں کہ یہاں فسق سے مراد ہی کفر ہے۔ کیونکہ اس کے بعدآتا ہے:
﴿وَقِيلَ لَهُمۡ ذُوقُواْ عَذَابَ ٱلنَّارِ ٱلَّذِي كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ﴾--سورةالسجدة
اس سے معلوم ہوا کہ ان کے اندرتصدیق سرے سے ہی نہیں تھی۔ کیونکہ عذاب کےمستحق دوزخ کے منکر اور اس کے مکذب تھے۔ اب رہا موحدین مؤمنین تارکین اعمال کا کفر نہ ہونا۔ اس کی دلیل قولہ عزوجل:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِۦ وَيَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُۚ﴾--سورة النساء48
ہے۔ کیونکہ یہاں غیرمشرک کے لیے مغفرت مقید بمشیت کا اظہارکیا گیا ہے اگرصرف توحید سے مومن نہیں اور ترک اعمال سے کافر ہوگیا تو اس کی مغفرت کے لیے صحیح مشیت الہی بھی نہیں ہوگی۔ اس لیے محدثین کے نزدیک باوجود اعمال کے داخل ایمان ہونے کے ان کے ترک سے آدمی کافر نہیں ہوتا اورخوارج کے نزدیک کافرہوجاتاہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب