سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(902) یا ایسےکلمات کی وجہ سے مولانا کافر ہیں؟

  • 5505
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1227

سوال

(902) یا ایسےکلمات کی وجہ سے مولانا کافر ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولوی خرم علی اور مولانا محمد اسماعیل شہید جو اپنی کتابوں میں  انبیاء و اولیاء کی شان میں  توہین آمیز کلمات لائے ہیں، چنانچہ مذمت شرک کے باب میں  آیت ان الشرک لظلم عظیم کے تحت فائدہ دیتے  ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’جاننا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو چھوٹا اللہ تعالیٰ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے‘‘ الخ اور اس طرح کے اور بھی چند ایک اقوال ہیں اور مفسرین میں  سے کسی نے بھی اپنی تفسیر میں  اس طرح کا فائدہ نہیں لکھا ہے ، کیا ایسےکلمات کی وجہ سے مولانا کافر ہیں اور کیا ان کی کتاب پھاڑ دینے کے لائق ہے  ؟ ادلہ اربعہ شرعی سے جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات کھل کر سامنے آجانی چاہیے کہ مولانا اسمعایل شہید کی عبارت پرجو اعتراض کیا گیا ہے اس کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں یاتو اس عبارت کے سیاق و سباق پر پوری طرح غور نہیں کیاگیا یا پھر تعصب اور ہٹ دھرمی ہے۔

اگر معترض آپ کی عبارت پراچھی طرح غور کرتا تو اس قسم کے الفاظ زبان پر لانے کی کبھی جرأت نہ کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو قرآن مجید میں  کئی جگہ الزام دیا ہے کہ وہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیےغوروفکر سےکام نہیں لیتے،اگر معترض اچھی طرح غور کرتا تو اس کو صحیح سمجھ  آجاتی  اور اگر دوسری صورت ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔

شریعت کے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کا اصل مقصود ان عوام کا لانعام کے عقیدہ کی اصلاح ہے ،جن کا عقیدہ ہے کہ اولیاء اللہ جناب باری تعالیٰ کے مختار کل ہیں جوچاہیں کرسکتے ہیں، کسی کو ذلیل کریں گے، کسی کوعزت بخشیں، کسی کو اولاد دیں یانہ دیں، کسی کا رزق تنگ کریں یافراخ سب ان کے قبضہ قدرت میں  ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں، ان کےنام کا وظیفہ کرتے ہیںمثلاً یا شیخ عبدالقادر جیلانی  شیئا اللہ، یا ، یاعلی ، یا حسین، یا خواجہ جی وغیرہ وغیرہ، پھر ان کے سامنے پوری عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، ان کی قبروں پر سجدے میں  گرپڑتے ہیں اور ان سے اتنا ڈرتے ہیں کہ خداتعالیٰ سے اس کا سوواں حصہ بھی نہیں ڈرتے ۔ پہلے زمانہ کے کافروں کے بھی ایسے ہی عقیدے تھے، چنانچہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عقائد باطلہ کی تردید کرکے صحیح عقیدہ ان کے سامنے پیش کیا جائے۔

امام رازی تفسیر کبیر میں  سورہ یونس کی تفسیر میں  آیت ھؤلاء شفعاء ناعنداللہ کے تحت لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی شکل کے بت بنا رکھے تھے ان کا خیال تھاکہ جب ہم ان کے سامنے سجدہ کرتے ہیں تو ان کی روحیں خوش ہوکر اللہ کے پاس ہماری سفارش کرتی ہیں۔

مولانا  شاہ عبدالعزیز قدس سرہ تفسیر عزیزی میں  ’’فلا تجعلواللہ انداداً‘‘ کے تحت فرماتے ہیں کہ چوتھا طبقہ قبر پرستوں کا ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ جب کوئی بزرگ آدمی اپنے مجاہدہ اور ریاضت کی وجہ سے مستجاب الدعوات ہوجاتا ہے تو مرنے کے بعد اس کی روح کو بہت طاقت اور وسعت نصیب ہوجاتی ہے ، پھر اگر کوئی شخص ان کی قبر یا ان کی نشست و برخاست کی جگہ یا ان کی تصویر کے سامنے سجدہ کرے تو وہ (بزرگان دین) اس سےمطلع ہوکر خوش ہوتے ہیں اور ان کی سفارش کرتے ہیں۔

اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی کو بھی کسی کی خبر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اس آدمی سے گمراہ تر اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارے جو قیامت تک بھی ان کو جواب نہ دے سکیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہیں‘‘ کیونکہ یا تو وہ پتھر ہیں جو سن ہی نہیں سکتے اور یا پھر خداکے نیک بندے ہیں جو اپنے حال میں  مشغول ہیں اور شرک ایسی بُری بلا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  اٹھارہ پیغمبروں کاذکر کرکے فرمایا ہے کہ  اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کے عمل بھی ضائع اور برباد ہوجاتے۔

اور پھر  اللہ تعالیٰ نے ان بدشعار مشرکوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے بڑے سخت لفظ بھی فرمائے ’’یقیناً وہ لوگ کافر ہیں، جو کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے ، آپ فرمائیں اگر خداوند تعالیٰ مسیح ابن مریم اور ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو برباد کریں تو خداوند تعالیٰ کو کون روک سکتا ہے۔

عقل مند لوگ جانتے ہیں کہ مسیح اور ان کی والدہ تو برباد کردینے کے لائق نہیں ہیں لیکن ان مشرکوں کے عقیدہ کی تردید کرنے کے  لیے ایسا فرمایا ہے۔

یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ یہاں دو نسبتیں الگ الگ ہیں ایک خالق سے مخلوق کی نسبت اور دوسری مخلوق کی مخلوق سے نسبت اور مولانا یہاں پہلی نسبت کے متعلق گفتگو کررہے ، کہ خالق کے ساتھ مخلوق کو کوئی ذرہ بھر کی نسبت نہیں ہے کجا حادث محتاج اور کجا قدیم موجد اور مقتدران میں  آخر کیانسبت ہے؟کجا ایک ذرہ بےمقدار اور کجا صحرائے ناپید  اکنار وہ باقی یہ فانی، وہ ازلی ابدی اور اس کی ہستی ایک آنی، تو اس صورت میں  مخلوق کو خواہ وہ کتنا ہی بڑاکیوں نہ ہو، خدا تعالیٰ سے وہ نسبت کبھی نہیں ہوسکتی جو ایک چمار کو بادشاہ سے ہوسکتی ہے کیونکہ خالق اور مخلوق میں  جو فرق ہے وہ اصلی اور ذاتی ہے اور چمار اور بادشاہ میں  جو فرق ہےوہ صرف اضافی ہے ، حقیقی نہیں، کیونکہ زندگی موت،  صحت بیماری، پریشانی اور خوش حالی، غمی اور خوشی میں  بادشاہ اورچمار بہرحال برابر ہیں، جیسے ایک چمار محل حوادث ہے، ویسے ہی بادشاہ بھی محل حوادث ہے، فرق ہے تو صرف حالی ہے کہ وہ ظاہری طور پر دنیاوی بادشاہ ہے۔

اور یہ غریب اور نادار ہے  ،پھر بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بادشاہ تخت شاہی سے معزول ہوکر ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی کوئی غریب آدمی تخت شاہی پر جلوہ فراز ہوجاتا ہے لیکن خداوند تعالیٰ کی حکومت ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہے۔ اس میں  کبھی زوال نہیں اور مخلوق اس کے مقابلہ میں  ہمیشہ محتاج ہے اس کو کبھی  قرارذاتی نصیب ہی نہیں ہوسکتا، پھر مخلوق کوخالق سے وہ نسبت کب میسر ہوسکتی ہے جو ایک چمار کو بادشاہ  سے ہے اور تقویۃ الایمان والے کامدعا بھی یہی کچھ بیان کرنا ہے۔

معترض کو چاہیے کہ سورہ اخلاص کی تلاوت بڑے غور سے کرے، اس میں  خداوند تعالیٰ کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں ، ایک احدیت اور دوسری صمدیت،باقی تمام صفات انہی کی شاخیں ہیں کیونکہ شرکت کبھی تعداد میں  ہوتی ہے،  اس کی نفی صفت اَحد سے فرمائی گئی ہے اور کبھی شرکت صفات جاہ و مرتبہ و منصب میں  ہوتی ہے اس کی نفی لفظ صمد سے فرمائی گئی ہے اور صمد وہ ہے جو کسی کا محتاج نہ ہو اور سب مخلوق اس کی محتاج ہو اور کوئی ایسی ہستی ضرور ہونی چاہیے جہاں احتیاج ختم ہوجائے ورنہ تسلسل اور دور لازم آئے گا۔

جب باقی تمام مخلوقات اس کی محتاج ہوئی، تو پھر اس کے ساتھ برابری کیسے ہوسکتی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  فرماتے ہیں کہ ’’زمین اور آسمانوں میں  جو کوئی بھی ہے، وہ اللہ کے پاس غلامی کی حالت میں  آنے والا ہے، جلالین میں  لکھا ہے کہ  عبداً کامعنی ذلیل اور خاضع ہے، پھر فرماتے ہیں تمام مخلوق اس کے سامنے ذلیل ہے  عزیر اور عیسیٰ علیہما السلام بھی ۔

ملا علی قاری  مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں  حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی حدیث باب القدر کے تحت لکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تمام بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرح چاہے ان کو پھیرتا ہے ’’اور تمام بنی آدم کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ’’نبیوں اور ولیوں، کافروں ، فاسقوں، فاجروں اور تما م بدبختوں کے دل خدا کے ہاتھ میں  ہیں۔‘‘

اب معترض کوچاہیے کہ وہ صاحب جلالین اور ملا علی قاری پربھی فتویٰ لگائے کہ یہ بھی عزیر اور عیسیٰ علیہما السلام کو ذلیل کہہ رہے ہیں اور ملا صاحب بھی کافروں، فاسقوں اور فاجروں کو ، نبیوں اور ولیوں کے ساتھ ایک ہی صف میں  کھڑا کررہے ہیں اور بعدازاں صاحب تقویۃ الایمان پر  بھی فتویٰ لگا لے۔

علامہ طہحطاوی شارح در مختار باب نذر للہ و لغیر اللہ میں  لکھتے ہیں کہ علماء پر  احکام شریعت کابیان کرنا ضروری ہے اور اس میں  کسی کی تنقیص نہیں ہونی چاہیے ، جیسا کہ بےسمجھ لوگ خیال کرتے ہیں ، اگر بالفرض وہ دلی زندہ ہوتے تو وہ  بھی یہی کچھ بیان  کرتے اور اس سے خوش ہوتے ، اللہ تعالیٰ کے قول پر غور فرماؤ کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کےمتعلق فرماتے ہیں کہ وہ’’وہ صرف ایک بندہ تھا، جس پر ہم نے احسان فرمایا یعنی عیسیٰ علیہ السلام بھی دوسرے بندوں کی طرح ایک بندے ہیں‘‘ غور فرمانا چاہیے کہ علامہ طحطاوی عیسیٰ علیہ السلام کودوسرے بندوں کی طرح ایک بندہ قرار دے رہے ہیں اگر بنظر حقارت ایسا کہا جائے تو آدمی کافر ہوجائے، حقیقت میں  یہاںمشرکوں کے عقیدہ کی تردید کرنا مقصود ہے۔

صاحب تفسیر نیشاپوری آیت للہ ما فی السموات وما فی الارض یغفرلمن یشاء و یعذب عن یشاء کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’یہاں تعمیم ہے‘‘ اگر وہ بخشنا چاہے تو ابلیس اور فرعون کوبھی بخش دے اور اگر سزا دینا چاہیے تو مقربین ملائکہ اور صدیقین کو سزا دے دے۔

اور بیضاوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے متعلق فرماتے ہیں ’’کانا یاکلان الطعام‘‘ کہ وہ بھی کھانے کے ایسے ہی محتاج تھے جیسے دوسرے حیوانات محتاج ہوتے ہیں، جلالین میں  بھی بالکل یہی  لفظ ہیں، اب دیکھئے صاحب تفسیر بیضاوی و جلالین حضرت عیسیٰ اوران کی والدہ کو حیوانوں سے تشبیہ دے رہے ہیں، حاشا و کلا ان کا مقصود ان کی توہین کرنا نہیں ہے بلکہ ان کی محتاجی کو بیان کرنا مقصود ہے۔

تفسیر مدارک میں  آیت وھو القاھر فوق عبادہ کے تحت لکھا ہے کہ ’’قہر کا معنی ہے اپنی مرضی پورا کرلینا اور دوسرے کو اپنی مرضی پورا کرنے سے روک دینا‘‘ اور یہی ذلیل کا معنی ہے کہ کوئی بھی اس کے کارخانہ  قدرت میں  دم نہیں مار سکتا کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ سب کے سب سراپا عاجز ہیں۔

پھر ایک اور طرح سے بھی اس پر غور کرناچاہیے کہ بادشاہ اگر ایک ذلیل چمار پرگرفت کرے اور اس کو سزا دے تو اس کی سزا بالکل محدود ہے کیونکہ موت کے بعد وہ اس کو کچھ سزا نہیں دے سکتا، لیکن خداوند تعالیٰ اگر کسی بندے کو سزا دینا چاہے تو اس  کی سزا غیر محدود ہوگی کیونکہ موت کے بعد بھی وہ اس کو باربار زندہ کرنے پر قادر ہے اور سزا دے سکتا ہے،تو خداوند تعالیٰ کے صفات غیر متناہی ہیں اور بندہ اس کے مقابلہ میں  سراپا عجز و نیاز ہے۔

پس تقویۃ الایمان کی عبارت کی شرح خدا تعالیٰ کی توفیق سے قرآن مجید اور حدیث شریف اورعلماء ذی شان کے بیان کےمطابق ہوچکی ہے اب انصاف پرور حضرات سے توقع ہے کہ مکارم اخلاق کے مطابق اس پر غور فرمائیں گے اور صاحب تقویۃ الایمان پر خواہ مخواہ ناراض نہ ہوں گے۔                                                                   (سید محمدنذیر حسین)


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

تبصرے