سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(895) حدیث من لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ یا منشا ہے؟

  • 5498
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4945

سوال

(895) حدیث من لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ یا منشا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث من لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ و دیگر من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ ان حدیثوں کا کیا منشا ہے اور کس درجہ کی ہیں اور کس محدث نے روایت کیاہے۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیثمن لم یعرف امام زمانہ ..... الخ کی نسبت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں ، حدیث من [1] مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃصحیح الاسناد است و مقولہ جناب نبوی است ﷺ و معنی معرفت وجوب اطاعت است در صورت وجود امام  و تحذیر از منازعت و مخالفت چنانکہ از لفظ  مات میتۃ جاھلیۃظاہر است کہ اہل جاہلیت اتباع رئیس واحد ندا شتند و ہرفرقہ برائے خود رئیس می کروند افتادی عزیزی صفحہ 77 جلد دوم، شاہ صاحب نے اس حدیث کو صحیح الاسناد بتایا ہے ۔ مگر حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی نسبت منہاج السنۃ صفحہ27 جلد1 میں  لکھتے ہیں، ھذا[2]  الحدیث بھذا اللفظ لا یعرف انما المعروف مثل ماروی مسلم فی صحیحہ عن نافع قال جائ عبداللہ بن عمر الخ ثم ذکر حدیث ابن عمر و من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ یہ حدیث بہت صحیحہے ، امام مسلم نے اس کو اپنی صحیح میں  حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے ، یہ حدیث صحیح مسلم کی کتاب  الامارۃ صفحہ 128 جلد3 میں  مذکور ہے۔

پوری حدیث اس طرح  پر ہے  من [3]خلع یدا من طاعۃ لقی اللہ یوم القیمۃ لا حجۃ لہ ومن مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ اس حدیث کے جملہ اخیرہ یعنی  ومن مات ولیس فی عنقہ الخ کا مطلب و منشا یہ ہے کہ جو شخص امام وقت کے ہوتے ہوئے اس کی بیعت نہ کرے اور بلا بیعت کےمرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا یعنی گمراہی  پرمرا یا اہل جاہلیت کی موت مرا، کہ جیسے ان کا کوئی امام مطاع نہیں، اس کا بھی کوئی امام مطاع نہیں۔ مجمع البحار میں  ہے۔ وفی [4]ح الفتن فقد مات میتۃ جاھلیۃ بالکسر حالۃ الموت ای کما یموت اھل الجاھلیۃ من الضلال والفرقۃ ک من خرج من السلطان مات میتۃ جاھلیۃ ای کموت اھل الجاھلیۃ حیث لم یعرفوا اماما مطاعا ولا یرید انہ یموت کافر ابل عاصیہ امام نووی شرح صحیح مسلم میں  لکھتے ہیں  بکسر[5] المیم ای  صفۃ موتھم من حیث ھم فوضی الامام لھم انتہی۔

جناب نواب صدیق الحسن خان صاحب  بغیۃ الرائد فی شرح العقائد صفحہ92 میں  لکھتے ہیں:مراد [6] بمرون جاہلیت آن است کہ باوجود امام دست بیعت باوندہدو متابعت اونکند و اگر زمانہ آید کہ امامے دراں موجود نباشدد نصب امام صورت نہ بندو امیدآن است کہ وافعل دریں وعید  نبا شد انتہی، شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں: وآنچہ[7] از ابن عمر ؓنقل کردہ کہ من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ الامات میتۃ جاھلیۃ صحیح است لیکن مراد آن است کہ بعد از انعقاد امامت امام باجماع اہل حل و عقد اگر عادل باشد در تسلط و استیلاء بلا منازع اگر جائز باشد توقف در بیعت ردا نیست انتہی (فتاویٰ عزیزی جلد دوم صفحہ 77 واللہ اعلم بالصواب۔

حررہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ                                           سید محمد نذیر حسین

مسئلہ :

الاولیاء لا یموت قول مہمل ہے، کسی جاہل کاقول ہے کیونکہ نہ لفظ ٹھیک نہ معنی صحیح اور یہ قول کسی کتاب معتبر حدیث و فقہ بلکہ کتب معتبرہ تصوف میں  اس کی کچھ اصل نہیں پائی جاتی، ایسے جاہل لا یعقل کی شان میں  یہ حدیث صحیح متواتر پڑھنی چاہیے  من [8]کذب علی متعمدا  فلیتبوا مقعدہ من النار کذا فی الصحاح الستۃ وغیرھا اور جوکوئی ایسا عقیدہ رکھے رسول اللہﷺ کے حق میں  اطلاق موت اور وفات کا گناہ اور عصیان ہے، تو یہ شخص بھی اجہل الناس میں  سے ہے اور منکر شرع مبین ہے  قال [9]اللہ تعالیٰ انک میت و انہم میتون الایۃ وکل [10]نفس ذائقۃ الموت الایۃ اور صحیح بخاری وغیرہ میں  قصہ خطبہ پڑھنے کاابوبکر صدیقؓ کے منقول وما ثور ہے، حضرت عائشہ  سے ان [11]ابابکر اقبل علی فرس  عن من مسکنہ  بالسخ نزل فدخل المسجد فلم بکلم الناس حتیدخل علی عائشۃ فتیمو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھو مغشی بثوب جدۃ فکشف عن وجہہ ثم اکب علیہ فقبلہ دبکی ثم قال بابی انت وامی واللہ لا یجمع اللہ علیک موتتین اما الموتۃ التی کتبت علیک فقد متہا انتہی ما فی صحیح البخاری و ایضا فیہ فقال ابوبکر اما بعد من کان منکم یعبد محمدا قال محمدا قدمات ومن کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لایموت الی اخر ما فیہ، اور حضرت انبیاءعلیہم الصلوۃ السلام اپنی اپنی قبروں میں  زندہ ہیں، خصوصاً آنحضرتﷺ کہ فرماتے ہیں کہ جو عندالقبر درود بھیجتا ہے ، میں  سنتا ہوں اور دور سے پہنچایا جاتا ہے، چنانچہ مشکوٰۃ وغیرہ کتب حدیث سے واضح ہوتا ہے لیکن کیفیت حیات کی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اروں کو اس کی کیفیت بخوبی معلوم نہیں۔                (سیدمحمد نذیرحسین)



[1]   یہ حدیث کہ ’’جو شخص مرگیا اور اس نے اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘ اس کی سند صحیح ہے اور حدیث مرفوع ہے اور یہاں ’’معرفت‘‘ (پہچان) کا معنی ’’اطاعت‘‘ ہے یعنی جب امام عادل (بادشاہ) موجود ہو اور پھر آدمی اس کی مخالفت کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرا، کیونکہ جاہلیت کے زمانہ میں  لوگ ایک بادشاہ کی اطاعت نہیں کیاکرتے تھے۔ہرقبیلہ اپنے لیےعلیحدہ اپنا امیر مقرر کرتا تھا۔

[2]   یہ حدیث ان الفاظ سےنہیں ملتی، اس کے معروف الفاظ وہی ہیں جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں  آئے ہیں ’’جو شخص اس حال میں  مرا کہ اس کی گردن پرکسی کی  بیعت نہیں ہے، وہ جاہلیت کی موت مرا۔

[3]    جو شخص ایک بالشت بھر بھی اطاعت سے نکلا، وہ قیامت کے دن اس حال میں  خدا سےملے گا کہ اس کے پاس حجت نہ ہوگی اور جو اس حال میں  مرا کہ  اس کی گردن میں  بیعت نہ ہو، وہ جاہلیت کی موت مرا۔

[4]  جاہلیت کی موت مرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جاہلیت  والے گمراہی اور بے اتفاقی میں  مرتے تھے اسی طرح وہ آدمی بھی مرے گا جو بادشاہ کی اطاعت سےباہر نکل گیا کہ اس نے اپنے امام کو نہ پہچانا ، یہ مطلب نہیں کہ وہ کفر کی حالت  میں  مرے گا بلکہ گنہگار ہوگا۔

[5]    ان جیسی موت مرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے وہ اپنےبادشاہ کی نافرمانی کرتے تھے، یہ بھی بادشاہ کی نافرمانی کرتا ہے۔

[6]   جاہلیت کی موت مرنےکامطلب یہ ہے کہ امام کے ہوتے ہوئے اس کے ہاتھ پربیعت نہ کرے اور اس کی اطاعت نہ کرے اور اگر کوئی ایسا وقت  آجائے کہ اس میں  کوئی بادشاہ نہ ہو اور نہ کسی کو بادشاہ بنانے کی صورت پیدا ہوسکے تو اُمید ہے کہ وہ لوگ اس وعید میں  شامل نہ ہوں گے۔

[7]   اور جو حدیث ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ جو آدمی اس حال میں  مرا کہ اس کی گردن میں  کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ،صحیح ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل حل و عقد کے مشورہ سے جب کسی امام کی امامت منعقد ہوجائے ، اگر وہ اپنے تسلط میں  منصف اور عادل ہوتو بالاتفاق فوری طور پر اگر اگر جابر  بادشاہ ہو تو اس کی بیعت میں  توقف نہ کرنا چاہیے۔

[8]     جو آدمی مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں  بنا لے۔

[9]    اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، تو مرنے والا ہے اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔

[10]   ہر نفس موت  کو چکھنے والا ہے۔

[11]   حضرت ابوبکرؓ گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے محلہ سے آنے ، آپ گھو ڑے  سے اترے مسجد میں  داخل ہوئے اور لوگوں سے کوئی بات نہ کی۔ حضرت عائشہؓ کے پاس آئے۔ آنحضرتﷺ کا انتقال ہوچکا تھا اور آپ پر ایک چادر ڈالی ہوئی تھی، آپ نے چہرہ سے چادر اٹھائی، پھر جھک کر آپ کا بوسہ لیا اور رونے لگے پھر کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان، خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ  پر دو موتیں جمع نہ کرے گا جو موت اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے لکھ رکھی تھی وہ آپ کو آگئی اور بخاری میں  یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر نے کہا تم میں  سے جو محمد(ﷺ) کی عبادت کرتا تھا وہ تو مرگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتاتھا تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے کبھی نہ مرے گا۔


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

تبصرے