سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(892) خدائے تعالیٰ باوجود ازلی ہونے کے ابدی بھی ہے؟

  • 5495
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2820

سوال

(892) خدائے تعالیٰ باوجود ازلی ہونے کے ابدی بھی ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا محمد نذیر حسین صاحب دام ظلکم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کے بعد آداب سے دست بستہ جناب کے شاگردان شاگردوں کی خدمت بابرکت میں  ایک عرض داشت بدیں خیال ارسال کرتا ہوں کہ آنجناب کی شان علمی اللہ جل شانہ نے ہندوستان تو کیا میرے نزدیک بلاد اسلام میں  ایک پیدا کی ہے اور یہ للہ  کام ہے میرے دل میں  ایک وسوسہ عرصہ سے کاٹنے کی طرح کھٹک رہا ہے اور میں  کئی بزرگان دین سے بھی اور ،اور لوگوں سے بھی بذریعہ عریضہ دریافت کرچکا ہوں، مگر کسی صاحب نے اس کا جواب دینا اپنی کسر شان تصور کیا یا کیا فرمایا، مجھ کو محروم رکھا اور جواب  نہ دیا، حضور کی ذات والا صفات سے اُمید قوی ہے کہ للہ بنظر ترحم اپنے کسی شاگرد صاحب کو کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کےفضل و  کرم سے عالم ہی ہوتے ہیں اگر ارشاد فرما دیں گے تو وہ تحریرفرماکر مرحمت کردیں گے۔ وہو ہذا

میں  ایک روز احیاء العلوم کے ترجمہ مذاق العارفین کی پہلی جلد کو دیکھ رہا تھا، جب دیکھتے دیکھتے سو ورق کی نوبت پہنچی تو دہریوں کے رد میں  جو رسالہ قدسیہ درج ہے دیکھا، اس میں عقلی دلیلوں سے پہلے خدا تعالیٰ کا ہونا، پھر ازلی پھر ابدی ہونا وغیرہ وغیرہ ثابت کیا ہے تیسری اصل میں  لکھا ہے:

’’یہ جاننا چاہئے، کہ خدائے تعالیٰ باوجود ازلی ہونے کے ابدی بھی ہے  کہ اس کے وجود کا انجام  نہیں، بلکہ وہی اوّل ہے، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن، اس لیے کہ جس کا قدیم ہونا ثابت ہوگیا، اس کامعدوم ہونا محال ہے، یعنی ناممکن‘‘

اتنا پڑھا تھا کہ دل میں  خیال آیا، اسیدلیل کے بموجب جو شے معدوم نہیں ہوتی یا نہ ہوگی وہ ازلی ہوئی اور روح کے بارے میں  علماء کہتے ہیں کہ اس کوفنا نہیں، گویا ابدی ہے، اچھا جب ابدی ہے تو ازلی بھی ہوئی، کیونکہ یہ لازم و ملزوم بات ہے اور یہ اعتقاد اہل ہنود کا ہے، نہ اہل اسلام کا، ان کے اور ہمارے  مذہب میں  یہی فرق ہے جب ہی وہ آواگون مانتے ہیں اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ روح مخلوق یعنی حادث ہے، پس جو شے حادت ہے، وہ ازلی نہیں تو ابدی کہنی کیسے ہوگی، علاوہ اس کے قرآن مجید کی ان آیات سے جوسورہ ہود کی 106 سے 108 تک ہیں دوزخیوں اور اہل جنت کے واسطے فرمایا ہے۔ خالدین فیھا مادامت السموات والارض الا ماشاء ربک انربک فعال لما یرید (جب تک رہیں آسمان اور زمین) آسمان زمین اب ہوں یا جب ہر حالت میں  ہر دو حادث ، پھر قدامت کیسی اور اس پر ’’إلا‘‘ کا طرہ الگ رہا۔

راقم محروم عبدالقیوم بدلاڈھ اسٹیسن ای سی پی ریلوے ،ضلع حصار، 19ذیعقد 1318ھ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذاق العارفین کی اس عبارت کا جو آپ نے نقل کی ہے، یہ مطلب ہے کہ اللہ ازلی ابدی ہے اور جو ذات کہ ازلی ابدی ہو وہ قدیم ہے اور جو ذات کہ قدیم ہو، اس کا معدوم ہونا محال ہے اور ازلی ابدی کو معدوم نہ ہونا لازم ہے اور اس عبارت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو ذات ابدی ہو اور اس کا عدم بعد الوجود نہ ہو، وہ ازلی ہے روح کا ازلی ہونا اس وقت لازم آتا کہ جب ہر ابدی کوازلی ہونا ضرور ہوتا ، لیکن ہر ابدی کا ازلی ہونا ضرور نہیں کیونکہ ازلی اس ذات کو کہتے ہیں جس کا وجود بعد العدم نہ ہو یعنی جس کے وجود کی ابتدا نہ ہو اور ابدی اس ذات کو کہتے ہیں جس کا عدم بعد الوجود نہ ہو یعنی اس کے وجود  کا زمانہ استقبال  میں  انتہا نہ ہو پس کچھ ضرور نہیں کہ جو چیز معدوم بعد الوجود نہ ہو یعنی ابدی ہو وہ موجود بعد العدم نہ ہو یعنی ازلی  ہو، ہوسکتا ہے کہ ایک چیز کے وجود کا زمانہ استقبال میں  انتہا نہ ہو، مگر وجود اس کا بعد العدم ہو یعنی پہلے معدوم تھی بعد اس کے موجود ہوئی ہو، بناء علیہ روح کے ابدی ہونے اور اس کے زمانہ استقبال میں  فنا نہ ہونے سے اس کا ازلی ہونا ثابت نہیں ہوتا اور روح کا ابدی ہونا اس کے حادث ہونے میں  کچھ خلل  نہیں ڈالتا بلکہ روح ابدی ہے اور اس کے ساتھ حادث بھی ہے کیونکہ  حادث کےلیے یہ ضرور نہیں ہے کہ زمانہ استقبال میں  اس کا فنا ضرور ہو۔

حادث کی دو قسمیں  ہیں، حادث بالذات اور حادث بالزمان، حادث بالذات اس شے کو کہتے ہیں جو اپنےوجود میں  غیر کی محتاج ہو اور حادث بالزمان اس شے کو کہتے ہیں جو مسبوق بالعدم ہو یعنی بعد عدم کے موجود ہو، روح پر حدوث کے دونوں معنی صادق آتے ہیں، پس روح حادث بالذات بھی ہے اور حادث بالزمان بھی ہے اور روح کے ابدی ہونے کو روح کا حادث بالذات اور حادث بالزمان ہونا منافی نہیں ہے۔  ہمارا اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ابدی کو ازلی ہونا لازم نہیں ہے۔ روح ابدی ہے اور اس کو زمانہ استقبال می فنا نہیں اور ازلی نہیں ہے بلکہ حادث ہے، پس آپ کو جو ابدی اور ازلی کے لازم و ملزوم سمجھنے کی وجہ سے خدشہ اور وسوسہ پیدا ہوا تھا وہ رفع ہوگیا واللہ تعالیٰ اعلم،حررہ احقر عباداللہ العلم محمد ابرہیم بہاری عفی عنہ                                        سید محمد نذیر حسین


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

تبصرے