سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(890) جوکہ حضرت بابر فرید الدین چشتی پاک پٹنی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہے

  • 5493
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 1342

سوال

(890) جوکہ حضرت بابر فرید الدین چشتی پاک پٹنی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چہ می[1]  فرمایند علمائے دین و مفتیان شرع  دین دربارہ شخصے محمد حسین نامی از اولاد حضرت بابر فرید الدین چشتی پاک پٹنی رحمۃ اللہ علیہ کہ خلاف عقائد اہل اسلام قائل تناسخ شدہ است و الزام دروغ گوئی خویش بنام گرامی بابا فرید الدین گنج شکر صاحب منسوب ساختہ در رسالۃ ’’سیف فریدی‘‘ مطبوعہ دبیر ہند واقع شہر امرتسر پنجاب بالائے صفحہ شصنت ویک این ابیات کہ دال بر دعوی باطلہ تناسخ دے امذ برائے معانیہ و مشاہدہ علماء و فضلاء نقل ابیات دے رقم مے شود تاکہ عقاید باطلہ دے معلوم گردد۔نقل ابیات از سیف فریدی۔

کروں پہلے تعریف ہائے رسول

لکھوں حال پیر اپنے  کا ہو قبول

یہ تھا حکم بابا فرید زماں

سہ کرر لکھا دیکھا میں  نے عیاں

کہ ہو تین باری جہاں میں  ظہور

میرا چار سو بسکہ نزدیک و دور

زمانہ یہ اوّل تو موجود ہے

کہ ظاہر میرا نام مسعود ہے

زمانہ دگر میں  ہوں ثانی فرید

باسم براہیم ہوں میں  پدید!

زمانہ ثلث میں  جب پھر  آؤں گا

محمد حسین نام دھرواؤں گا

اسی میں  کسی وقت میں  ہوں گا پدید

سمجھنا مجھے گویا ثالث فرید

کہ آخر زمانہ کا ہے یہ ظہور

ہے اسرار ثالث فریدی کا نور

زمانہ وہ ثالث کا اب آگیا!

یہ ارشاد باب کا پورا ہوا

پس بینوا توجروا، از جواب  این مسئلہ تناسخ کہ بابا فرید صاحب بحسب تحریر محمد حسین پاک پٹنی بعد از وفات دو مرتبہ اندرین جہان فانی بذریعہ والدین دیگر تولید یافتہ اند، مرتبہ اوّل پیدا شدند بنام شیخ ابراہیم کہ سجادہ نشین پاک پٹن بود موسوم گردیدند و مرتبہ دوم بعد شش صد سال درخانہ تاج محمود چشتی پاک پٹنی ظہور تولید یافتند و محمد حسین نام نہاوند وایں محمدحسین مانند مرزا غلام احمد قادیانی۔ کتاب اسرار عترت فریدی خویش بکذب نویسی از قادیانی سبقت بردہ است این سائل را مسرور و ممتاز فرمایند و جوابش بروایات کتب معتبرہ تحریر نمانید، بندہ سائل سید حسین شاہ بخاری النقوی ساکن موضع پانہ مہار، ڈاک خانہ بصیرپور تحصیل دیپالپور ضلع منٹگمری معروضہ 29 ماہ ربیع الثانی 1320ھ واقف حقائق معقول و منقول کا شف و قائق فروع و اصول مظہر حسنات مصدر برکات برہان لمتکلمین شمس العلماء قمر الفقہاء زبدۃ الاوائل والا واخر عالی جناب  معلی القاب مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب مدظلہم العالی بالجاہ والمعالی و ابقاکم اللہ تعالیٰ علی مفارق المسلمین الی یوم الدین این خاکسار راجی الی رحمۃ اللہ سید حسن علی شاہ بخاری النقوی بخدمت اقدس آنجناب پس از تبلیغ سلام ہدیہ سنت جناب حضرت خیرالانام علیہ الصلوٰۃ والسلام داشتیاق زیارت التماس پذیر میشود کہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی و دیگر علماء فقط برنفس مسئلہ مذکورہ اکتفا فرمودہ جواب  تناسخ تحریر نمودہ اندو عبارت فاضل گنگوہی این است۔

’’الجواب ، تعدد تولد کہ مبنی برتناسخ اسف نزد اہلسنت والجماعت باطل است و نسبت آن بحضرت شیخ (یعنی بابافرید گنج پاک پٹنی علیہ الرحمۃ) محض افتراست و مدعی این نسبت واین مذہب محض جاہل است تصدیق و عواش نارد است وا قوالش محض خطاء ازانجاکہ مسئلہ تناسخ درجملہ کتب کلام مزین است و کذب این بیان باشارات آیات و احادیث مبین و بندہ بوجہ معذوری چشماں از نقل روایات مجبور لہذا برنفس مسئلہ اکتفا کردہ شد، واللہ تعالیٰ اعلم، بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ۔                               رشید احمد گنگوہی



[1]   کیا فرماتے ہیں، علمائے  دین و مفتیان شرع متین ایک شخص محمد حسین نامی کے متعلق جوکہ حضرت بابر فرید الدین چشتی پاک پٹنی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہے۔ وہ اہل اسلام کے عقیدہ کے برخلاف تناسخ کا قائل ہے اور اپنی دروغ بیانی کو اس نے بابا فرید الدین گنج شکر کی طرف منسوب کررکھا ہے، اس نے اپنے رسالہ سیف فریدی مطبوعہ مطبع دبیر ہند واقع شہر امرتسر میں  صفحہ 61  پر یہ اشعار بابا فرید الدین کے نام پر شائع کیے ہیں جو کہ اس کے دعوائے باطلۃ تناسخ پردلالت کرتے ہیں۔ علماء و فضلاء کے معائنہ و مشاہدہ کے لیے ان اشعار کونقل کیا جاتا ہے تاہک ان کے باطل عقیدے  معلوم ہوسکیں۔ پس اس مسئلہ کا تناسخ کا جواب دیا جائے، خدا آپ کو جزائے خیر دے کہ بابا فریدصاحب محمد حسین پاک پٹنی کی تحریر کے مطابق وفات کے بعد دو مرتبہ اس جہان فانی میں  بذریعہ دوسرے والدین کے پیدا ہوچکے ہیں، پہلی مرتبہ جب وہ پیدا ہوئے تو شیخ ابراہیم سجادہ نشین پاک پٹن کے نام سے موسوم ہوئے اور دوسری مرتبہ چھ سو سال کے بعد تاج محمود چشتی پاک پٹنی کے گھر پیدا ہوئے اور  اب ان کانام محمد حسین رکھا گیا ہے اور اس محمد حسین نے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اپنی کتاب ’’اسرار عترت فریدی‘‘ میں  اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ غلام احمد قادیانی سے بھی سبقت لے گیا ہے۔ اب آپ اس سائل کو مسرور و ممتاز فرمائیں اور روایت کتب معتبرہ سے اس کاجواب تحریر کریں۔بندہ سائل سید حسین شاہ بخاری نقوی ساکن موضع پانہ مہار ڈاکخانہ بصیرپور تحصیل دیپالپور ضلع منٹگمری، معروضہ 29 ماہ ربیع الثانی 1320ھ معقولات و منقولات کے حقائق سے  واقف اصول و فروع کی باریکیوں کو کھولنے والے  نیکیوں کے منبع برکات کے مصدر متکلمین کے راہنما علماء کے سورج ، فقہاء کے چاند اوّلین و آخرین کے خلاصہ عالی جناب بلند القاب سید محمد نذیر حسین صاحب خدا تعالیٰ ان کی بلند اقبال زندگی کو مسلمانوں کے لیے قیامت تک باقی رکھے، ان کے جاہ و مرتبہ کے سایہ کو ان کے سروں پرقائم رکھے، یہ خاکسار اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار سید حسن علی شاہ بخاری نقوی آنجناب کی خدمت میں  ہدیہ سنت خیرالانام علیہ التحیۃ والسلام یعنی سلام اور اشتیاق زیارت کے بعد ملتمس ہے کہ مولوی رشیداحمد صاحب گنگوہی اور دیگر علماء نے فقط نفس مسئلہ پراکتفا کرکے تناسخ کاجواب ارسال فرمایا ہے، فاضل گنگوہی کی عبارت یہ ہے۔’’الجواب ، کئی بار دنیا میں  پیدا ہونا جس پرکہ تناسخ کی بنیادہے،اہل سنت والجماعت کے نزدیک باطل ہے اورحضرت  شیخ یعنیبابا فریدگنج پاک پٹنی علیہ الرحمۃ کی طرف اس کومنسوب کرنا سراسر بہتان ہے اور اس نسبت اور اس مذہب کامدعی محض جاہل  ہے، اس کے دعویٰ کی تصدیق کرنا ناجائز ہے، اس کے اقوال بالکل غلط ہیں کیونکہ تناسخ کے مسئلہ کو علم کلام کی تمام کتابوں میں  بیان کیا گیا ہے اور اس بیان کا جھوٹ ہونا  آیات و احادیث سے صاف ظاہر ہے اور بندہ آنکھوں کی مجبوری کی وجہ سے روایات نقل کرنے سے معذور ہے، لہٰذا نفس مسئلہ پر اکتفا کیا گیاہے، واللہ تعالیٰ اعلم ، بندہ رشید احمد گنگوہی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہوالملہم للصواب، المنکرین قیامت و بعث و حشردو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ جن کا عقیدہ و قول یہ ہے کہ مرنے کےبعد پھر زندہ ہونا نہیں ہے، نہ قالب اوّل میں  اور نہ قالب آخر میں ، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  ان کے اس عقیدہ و قول کو بیان فرماتا ہے کہ  ان ھی الاموتتنا الاولی دما نحن بمنشرین یعنی بس ہماری پہلی موت ہے، جو ہم مرے بس پھر ہم زندہ ہوکر اٹھنے والے   نہیں ہیں، اور دوسرے مقام میں  فرماتا ہے  ان ھی الاحیاتنا الدنیا  وما نحن بمبعوثین یعنی ہماری بس دنیا ہی کی زندگی ہے، پھر ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔

اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو تناسخ کے قائل ہیں جن کا عقیدہ و مقولہ ہے کہ ہم اسی دنیا میں  زندہ ہوتے ہیں ، پھر مرتے ہیں،پھر زندہ ہوتے ہیں، پھر مرتے ہیں، کبھی قالب اوّل میں  مرکر زندہ ہوتے ہیں اورکبھی قالب آخر میں ، اس دنیا کی زندگی کے سوائے اور کوئی زندگی ہماری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ جاثیہ میں  ان کے عقیدہ و مقولہ کو بیان فرماتا ہے  ان [1]ھی الاحیوتنا الدنیا نموت و  نحیا وما بھلکنا الا الدھر اور سورہ مؤمنون میں  فرماتا ہے ان[2] ھی الاحیاتنا الدنیا نموت و نحیا وما نحن بمبعوثین چونکہ یہ دونوں قسم کے منکرین قیامت انکار حیات اخروی میں  ہم عقیدہ و متفق  اللسان ہیں، اس لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان دونوں قسم کے لوگوں کا ایک طریقہ پرجواب دیا ہے، سورہ جاثیہ میں  فرماتا ہے: قل اللہ یحییکم ثم یمیتکم تم یجمعکم یوم القیمۃ لاریب فیہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون ، یعنی کہہ دیجئے  کہ اللہ تعالیٰ ہی تم کو زندہ کرتا ہے پھر تم کو مارے گا، پھر تم کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا،جس میں  کچھ شک نہیں ہے ، لیکن اکثر لوگ جانتے ہیں۔

اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی کے بعد مرنا ہے، پھر مرنے کے بعد قیامت کے دن سب کو زندہ ہوکر جمع ہونا ہے، پس اس سے قیامت کا بھی ثبوت ہوا اور اس بات کا بھی ثبوت ہوا کہ مرنے کے بعد پھر اس دنیا میں  زندہ ہونا نہیں ہے بلکہ قیامت ہی کے دن اٹھنا ہے بنا علیہ اس آیت نے دونوں قسم کے منکرین کی صاف تردید کردی ہے ، سورہ طہٰ میں  فرماتا ہے  منہا خلقناکم وفیھا بعیدکم و منھا تخرجکم تارۃ اخری یعنی ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں  تم کو پھر لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوسری بار تم کونکالیں گے، اس آیت نے بھی دونوں  قسم کے عقیدہ و مقولہ کو صاف باطل کردیا اور تناسخ کوبھی صاف اُڑا دیا، سورہ بقرہ میں  فرماتا ہے  کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون یعنی کیونکر تم اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو، حالانکہ تم مردے تھے، سو اس نے تم کو زندہ کیا ، پھر تم کو مارے گا، پھر جلا دے گا، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے، سورہ یٰسین میں  فرماتا ہے ۔ وضرب[3] لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحییٰ العظام وھی رمیم یحہا الذی انشاء ھا اوّل مرۃ وھو بکل خلق علیم قرآن مجید میں  اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے تناسخ کا بطلان آفتاب کی طرح روشن ہے۔

تناسخ کا بطلان ان احادیث سے بھی صاف ثابت ہوتا ہے جن سے صدقات و خیرات و حج و صیام وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچنا ثابت ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے بقلب قوالب لوگ زندہ ہی رہا کرتے تو ان پر نہ میت کا اطلاق ہوتا اور نہ ان کو ثواب پہنچتا۔ و نیز ان احادیث سےبھی تناسخ کابطلان صاف ظاہر ہوتا ہے جن سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر لوگ قالب بدل بدل کر دنیا ہی میں  زندہ رہا کرتے تو عذاب قبر کس پر ہوتا ، ونیز قیامت کے دن صور کی آواز سے تمام لوگ اپنے مرقد سے یعنی قبروں سے نکل کر میدان محشر میں  جمع ہوں گے۔ قال[4] اللہ تعالیٰ و نفخ فی الصور فاذاھم من الاجداث الی ربھم ینسلون قالوا یٰویلنا من بعثنا من مرقدنا ھذا ما وعد الرحمٰن و صدق المرسلون۔ وقال [5] تعالیٰ یوم یخرجون من الاجداث سراعا کانھم الی نصب یوفضونپس قائلین تناسخ کے عقیدہ کے مطابق تمام لوگ دنیا ہی میں  بقلب قوالب زندہ رہا کرتے تو قیامت کے دن قبروں سے اٹھے گا کون؟ تناسخ کے بطلان پر یہ چند دلیلیں قرآن و حدیث سے مختصراً نقل کی گئی ہیں، علاوہ ان کے قرآن و حدیث میں  بہت سی دلیلیں موجود ہیں ولکن فی ھذا القدر عبرۃ لا ولی الالباب ہاں میں  نے بمقابلہ قرآن و حدیث کے دلائل عقلیہ سے اعراض کیا۔واللہ اعلم بالصواب

حررہ عبدالوہاب عفی عنہ                                                   سید محمد نذیر حسین

 ھوالموافق:

 تناسخ کا بطلان قرآن مجید کی اس آیت سے نہایت صریح اور صاف طور پر ثابت ہے، سورہ مومنون میں  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت کلا انہا کلمۃ ھو قائلہا ومن ورائھم برزخ الی  یوم یبعثون یعنی یہاں تک کہ جب ان میں  سے کسی کوموت  آئے تو کہتا ہے، اےمیرے مجھے دنیا میں  پھر لوٹا دو اور پھیر دو، شاید کہ میں  اچھا عمل کروں، اس چیز میں  جوچھوڑ ایا ہوں ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے کہ  اس کا وہ کہنے والا ہے اور ان کے آگے ایک پردہ ہے (جو ان کو پھر دنیا میں  لوٹ آنے سے مانع ہے) اس دن تک جس میں  لوگ اٹھائے جائیں گے یعنی قیامت تک، مولانا شاہ عبدالقادر صاحب اس آیت کے فائدے میں  لکھتے ہیں ، معلوم ہوا یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آدمی مرکر پھر آتا ہے سب غلط ہے، قیامت کو اٹھیں گے ،اس سے پہلے ہرگز نہیں انتہی۔کتبہ محمد عبدالرحمٰن عفا اللہ عنہ۔



[1]   ہماری یہ صرف دنیا ہی کی زندگی ہے ، ہم مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں اور ہمیں  صرف زمانہ ہلاک کرتا ہے۔

 [2]   ہماری یہ صرف دنیا ہی کی زندگی ہے، ہم مرتے بھی رہتے ہیں اور زندہ بھی ہوتے رہتے ہیں اور قیامت کو اٹھائے نہیں جائیں گے۔

[3]   (اس کافر نے ) ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کوبھول گیا، کہنے لگا کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا، آپ کہہ دیں کہ ان کو وہ اللہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور وہ پیدائش کے تمام طریقے جانتا ہے۔

[4]    اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور نرسنگا پھونکا جائے گا تو وہ تمام اپنی قبروں سےنکل کر اپنے رب کی طرف سرکنےلگیں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ہمیں  ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا، یہ وہ دن ہے جس کا رحمٰن نےوعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ فرمایا تھا۔

[5]    اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جس دن وہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے گویا کہ وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑ رہے ہوں گے۔


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

تبصرے