سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(884) پنجاب کے بعض عالم کہتے ہیں کہ دجال کا کچھ وجود نہیں..الخ

  • 5487
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2213

سوال

(884) پنجاب کے بعض عالم کہتے ہیں کہ دجال کا کچھ وجود نہیں..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پنجاب کے بعض عالم کہتے ہیں کہ دجال کا کچھ وجود نہیں، دجال یہی حاکم ظالم ہیں اور جنت و نار اس کی  یہی ریل گاڑی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ، عیسیٰ موعود میں  ہوں، اس واسطے علمائے کے دیندار اہل سنت والجماعت سے استفتاء ہے کہ پنجاب کے اس عالم کے یہ اقوال سچ ہیں یا محض غلط ،بیان کرو کہ عوام کا شک و شبہ رفع و دفع ہوجائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آنحضرتﷺ سےبارہ تیرہ صحابی و صحابیہ حذیفہ بن اسید الغفاری و ابوہریرہ و عمران بن حصین و عبداللہ بن مسعود و انس بن مالک و حذیفہ بن یمان و نواس بن سمعان و ابوسعید خدری و ابی بکرہ و فاطمہ بنت قیس و عبداللہ بن عمر و ابی عبیدۃ بن الجراح و اسماء بنت یزید بن السکن و مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہم) روایت کرتے ہیں کہ قرب قیامت کے دجال ظاہر ہوگا اور شبیہ عبدالعزی بن قطن کے ہوگا کہ یہ مشرکین میں  سے گذرا ہے اور وہ مثل ابر کے تمام دنیا میں  پھیل جائے گا اور قیام اس کا چالیس دن ہوگا ایک دن مثل برس  کے اور ایک دن مہینے بھر کا ہوگا اور ایک دن ہفتہ بھر کا ہوگا باقی دن اپنے حال پر بدستور رہیں گے صحابہ نے عرض کیا کہ برس دن  کی نماز کیوں کر ادا ہوگی، آیا ایک دن کی نماز کافی ہوگی، فرمایا نہیں، وقت کا اندازہ کرکے پانچوں نمازیں پڑہتے رہنا اور مشکوٰۃ شریف باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال میں  دجال کا احوال دیکھنا چاہیے، یہاں ایک دو حدیثیں نقل کی جاتی ہیں اور دجال کے بعد حضرت عیسیٰ اتریں گے اور وہ دجال کو قتل کریں گے اورمشکوٰۃ میں  ایک خاص باب نزول عیسٰی علیہ السلام کا منعقد کیا ہے سب احوال عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا اس باب میں  دیکھنا چاہیے اور عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کابیان صحیح بخاری  ومسلم وغیرہ میں  مفصلاً مذکور ہے اور قرآن شریف میں  سورہ زخرف سے نازل ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صاف واضح ہوتا ہے۔ وانہ [1] بدر ستیکہ عیسیٰ علیہ السلام لعلم للساعۃ علم است مرساعت را یعنی بدوبدانیند کہ نزدیک است قیامت چہ یکے از علامات قیامت نزول عیسیٰ علیہ السلام است کہ بعد از تسلط دجال از آسمان برزمین فردو آید ، نزدیک منارہ بیضاء در طرف شرقی دمشق و جامہ رنگین پوشیدہ باشدد ہر دو کف دست خود رابر بالہائے دو فرشتہ نہادہ درخسارہ مبارکش عرق کردہ چون سر درپیش افگند قطرات از رویش ریزان گردد وچون سربالا کند آن قطرہا برردئے دے چون مروارید روان شود ، و نفس دے برہر کافر کہ رسد مبیرد دہر جاکہ چشم دے افتد نفس دے برسد پس درطلب دجال رواں گردو ، و درباب لد کہ موصغے است و رولایت شام بدور سدد اور ابکشد انگہ یاجوج ماجوج بیروں آیند و عیسیٰ علیہ السلام بکوہ طور برد مومناں راو آنجا متحصن گردو القصہ چون معلوم شد کہ عیسیٰ  علیہ السلام نشانہ قرب قیامت است کذا فی التفسیر الحسینی۔

اور اس آیت کی مفسر حدیثیں صحاح ستہ کی ہیں۔ کمال لا یخفی علی الماہر بہذا الفن ، پس منکرنزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فاسق ہے، بلکہ کافر ، کیونکہ صریح نص کا منکر ہے اور تاویل اس کی باطل اور مردود و خلاف سبیل مؤمنین کے ہے۔ ومن[2] یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی و نصلہ جہنم۔ الی اخر الایۃ کا مصداق ہے۔ وانہ[3]  لعلم للساعۃ وان عیسی لعلم للساعۃ ای شرط من اشراطہا تعلم بہ فسمی الشرط الدال علی الشئ علما لحصول العلم بہ و قرأ ابن عباس لعلم وھو العلامۃ انتہی ما فی التفسیر الکبیر مختصراً وانہ لعلم للساعۃ یعنی نزولہ من اشراط الساعۃ تعلم بہ و قرأ ابن عباس وابوہریرہ و قتادہ وانہ لعلم للساعۃ بفتح اللام والعین ای امارۃ و علامۃ۔ انتہی ما فی معالم التنزیل۔

 مشکوۃ کے باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال میں  ہے ، عن النواس بن سمعان رضی اللہ عنہ قال ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الدجال وقال ان یخرج وانا فیکم فانا حجیجہ دونکم وان یخرج ولست فیکم فامر حجیج نفسہواللہ خلیفتی علی کل مسلم انہ شباب قطط عینہ طافیۃ کانی اشبھہ بعبد العزی بن قطن ذمن ادرکہ منکم فلیقر أعلیہ فواتح سورۃ الکہف وفی روایۃ فلیقرء علیہ بفواتح سورۃ الکہف فانہا جوارکم من فتنۃ انہ خارج خلۃ بین الشام والعراق فعاث یمینا دعاث شمالا یاعباد اللہفاثبتوا قلنا یارسول اللہ ومالبثہ فی الارض قال اربعون یوم یوم کسنۃ ویوم کشہر ویوم کجمعۃ و سائر ایامہ کایامکہ قلنا یارسول اللہ فذلک الیوم الذی کسنۃ ایکفینا فیہ صلوۃ یوم قال لا اقدر والہ قدرہ قلنا یارسول اللہ وما اسراعہ فی الارض قال کالغیث استدبرتہ الریح فیاتی علی القوم فیدعوھم فیؤمنون بہ فیأمر السماء فتمطرو الارض فتنبت فتروح علیہم سارحتہم طول ماکانت ژری واسبغہ ضرو عاد امدہ خواصر ثم یاتی القم فیدعو ھم فیردون علیہ قولہ فینصرف عنہم فیصبحون ممحلین لیس بایدیہم شئ من امرالہم ویمر بالخربۃ فیقول لہا اخرجی کنوزک فتتبعہ کنوزھا کیعا سیب النحل ثم یدعو رجلا ممتلیا شابا فیضر بہ بالسیف فیقطعہ جزلتین رمیۃ الغرض ثم یداعوہ فیقبل ویتھلل وجھہ یضحک فبینما ھو کذلک اذ بعث اللہ المسیح بن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھزودتین واضعا کفیہ علی اجتحۃ ملکین اذا طاء طأ راسہ قطرواذا رفعہ تحدر منہ مثل جمان لاللؤلؤ فلا یحل لکافر یجد من ریج نفسہ الامات و نسفہ ینتہی حیث ینتہی طرفہ فیطلیہ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہ ثم یاتی عیسی قوم قد عصمھم اللہ منہ فیمسح عن وجوھھم و یحدثھم بدرجاتھم فی الجنۃ فبینما ھو کذلک اذاوحی اللہ الی عیسی انیقد اخرجت عبادا لی لا ید ان لاحد بقتا لھم فحرز عبادی الی الطور فیبعث اللہ یاجوج ماجوج وھم من کل حدب ینسلون فیم اوائلھم علی بحیرۃ طبریۃ فیشربون ما فیھا ویمر اخرھم فیقول لقد کان بھذہ مرۃ ماء ثم یسیرون حت ینتھوا الی جبل الخر وھوجبل بیت المقدس فیقولون لقد قتلنا من فی الارض ھلم فلنقتلمن فی السماء فیرمون بنشابھم الی السماء فیرد اللہ علیہم نشابھم مخصوبۃدما و یحصرنبی اللہ و اصحابہ حتی یکون راس الثور لاحدھم خیر امن مائم دینار لاحدکم الیوم فیرغب نبی  اللہ عیسی و اصحابہ خیر سل اللہ علیہم النغف فی رقابھم فیصبحون فرسی کموت نفس واحدۃ ثم یھبط نبی اللہ علیسی واصحابہ الی الارض فلا یجدون فی الارض موضع شیر الاملأہ زھمھم ونتنھم فیرغب نبی اللہ عیسی و اصحابہ الی اللہ فیرسل اللہ طیرا کاعناق البخت فتحملھم فتطرحھم حیث شاء اللہ وفی روایۃتطرحھم بالتھیل و یستوقد المسلمون من قسیھم و نشابھم و جعابھم سبع سنین ثم یرسل اللہ مطرا لا یکن منہ بیت مد رولا و برفیغسل الارض حتی یترکھا کالزلفۃ ثم یقال للارض انبتی ثمرتک وردی برکتک فیومئذ تاکل العصابۃ من الرمانۃ و یستطلون بقحفھا و یبارک فی الرسل حتی ان اللقحۃ من الابل لتکفی الفتام من الناس واللقحۃ من البقر لتکفی القبیلۃ من الناس واللقحۃ من الغنم لتکفی الفخذ من الناس فبینما ھم کذلک اذبعث اللہ ریحاطیبۃ فتاخذھم تحت اباطھم فتقبض روح کل مؤمن و کل مسلم ویبقی شرارالناس یتھارجون فیھا تہارج الحرم فعلیہم تقوم الساعۃ رواہ مسلم الا الرویۃ الثانیۃ وھی قولھم تطرحھم بالنھبل الی قولہ سبع سنین رواہ الترمذی۔

حضرت نواس بن سمعانؓ کہتے ہیں ،کہ آنحضرتﷺ نے دجال کا ذکر کیا، پس فرمایا اگر وہ میری موجودگی میں  ظاہر ہوا تو تم سب کی طرف سے میں  اس سے جھگڑوں گا۔ اگر میرے بعد نکلا تو ہر ایک شخص خود اس سے جھگڑے گا اور اللہ میرا خلیفہ ہے، ہر مسلمان پر، وہ دجال جوان ہوگا، گھونگروالے بال والا، اس کی  آنکھیں نکلی ہوئی  ہوگی، یعنی کانا ہوگا، بس ایسا ہوگا، جیسے عبدالعزی بن قطن کو جانتے ہو، سو جو اس کو پاوے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیتیں ضرور پڑھ لے، کیونکہ وہ اس کے فتنہ سے اس کو بچائیں گی، وہ شام اور عراق کے درمیان میں  سے نکلے والا ہے اور داہنے  بائیں (کیا بلکہ ہر طرف)دوڑنے والا ہے۔ سوائے اللہ کے بندو ثابت رہنا ، ہم نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! وہ زمین میں  کس قدر ٹھہرا رہے گا، فرمایا چالیس دن ایک دن سال بھر کا ، ایک دن مہینہ بھر کا، ایک دن ہفتہ بھر کا اور باقی دن یہ تمہارے معمول دن ہوں گے ، ہم نے عرض کیا، یاحضرت تو اس سال بھر کے دن میں  ایک دن کی نماز ہم کو کافی ہوگی یا نہ، فرمایا نہیں، ان معمولی دنوں کے اندازے سے پڑھتے رہنا اور مہینے اور ہفتے بھر کا دن بھی اسی قیام پر، ہم نے پوچھا، حضرت اس کاجلد جلد پھرنا زمین میں  کیساہوگا، فرمایا جیسے ہوا ابر کو پھیلاتی ہے۔ سو وہ دجال ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو اپنے دین کی طرف بلائے گا، وہ ان کا کہنا مان لیں گے، تو آسمان کو حکم کرے گا، خوب بارش ہوگا اور زمین میں  سبزی خوب اُگے گی اور ان کے مویشی کھا کھاکر خوب پلیں گے، اور دودھیلے ہوں گے اور ایک قوم کے پاس آئے گا ان کو بھی اپنی طرف بلائے گا، وہ ان کاکہنا نہ مانیں گے، وہاں سے چلا آئے گا اور وہاں بارش بند ہوجائے گا اور وہ لوگ نہایت مفلس ہوجائیں گے، پاس کچھ بھی تو نہ رہے گا اور کھنڈرات میں  جائے گا اس کو کہے گا اپنے سب خزانے نکال تو سب کے سب دفینے نکل کر اس کے ساتھ شہد کی مکھیوں کی طرح ہولیں گے اور پھر ایک جوان کو بلا وے گا اور پھر اس کو تلوار سے مار کر دو ٹکڑے کردے گا اور ادھر ادھر نشانے کی طرح پھینک دے گا اور پھر اس کوبلا کر دوبارہ مارے گا اور وہ شخص منہ چمکتا ہوا ہنسے گا، سو دجال اسی اوج موج میں  ہوگا کہ اتنے میں  اللہ تعالیٰ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو (آسمان سے) اتارے گا ، سو وہ دو رنگین کپڑے پہنے ہوئے دمشق کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں گے، دو فرشتوں کے بازؤوں پر ہاتھ رکھے ہوئے سر کو جھکالیں گے، تو پسینے کے قطرے گریں گے اور جب سراٹھاویں گے تو موتیوں کے سے قطرے اتریں گے سو جن  کافر کو ان کے سانس کی بو پہنچے گی، بس مر ہی جائے گا اور جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی وہیں تک ان کا سانس پہنچے گا، سو اس کو باب لدُ پر پاکر مار ڈالیں گے، فقط۔

 یہ ترجمہ ہم نے نواس بن سمعان کی حدیث کا بقدر ضرورت کیا ہے، سو سائل کو ثبوت خروج دجال  اعور حقیقی لعنہ اللہ اور نزول حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام میں  کافی وافی شافی ہے جس کی تفصیل درکار ہو، مشکوٰۃ شریف میں  پورے باب کو تحقیق کی نظر سے دیکھ لے، یہی خلاصہ صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث کا ہے، اگر کوئی نہ مانے تو اس کو اختیارہے اور وہ بعض عالم پنجاب کے جواس کے خلاف کے قائل ہیں وہنادان، جاہل و پاگل اور کاذب ہیں، بلکہ اہل علم کے زمرے کی بو سے بھی بے نصیب اور محروم ہیں اور منجملہ فرق اہل الحاد ہیں۔ نعوذ باللہ من شرہ۔ حررہ ابواسمعٰیل یوسف حسین الخائفوری عفی عنہ۔

وانہ لعلم للساعۃ،اور بے شک  عیسیٰ علیہ السلام خبر دینے والے ہیں قیامت کی، یعنی ان کا اترنا آسمان سے ایک نشانی ہے قیامت کی، دجال کے پیدا ہونےکے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آویں گے اور دجال کو قتل کریں گے، پھر یاجوج ماجوج پیدا ہوکر سارے عالم کو خراب کریں گے،  حضرت عیسیٰ علیہ السلام مومنوں کو لے کرکوہ طور پر جاکر چھپیں گے ،غرضکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نشانی ہیں قیامت کی ، تمام ہوئی عبارت شاہ عبدالقادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی، پس پنجاب کا وہ عالم بلا شبہ نصوص مذکورہ بالا کامنکر ملحد ہے، بلکہ کافر کماہ یغفی علی الماھر بالشریعۃ الغراء حررہ خادم العلماء الطاف حسین فاضلپوری۔

فی الواقع جواب اوّل و دوم بلا ریب صحیح ہے، کیونکہ قریب قیامت کے ظاہر ہونا دجال کا، بعد اس کے اترنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاآسمان سے اور قتل کرنادجال کا برحق ہے اور منکراس کا ضال و مضل و ملحد و بددین اور مخالف اجماع مسلمین کے ہے، چنانچہ کتب صحاح ستہ و دیگر کتب سیراس پرشاہد عدل ہیں اور تاویل مرزا قادیانی اور اس کے حواری کی نزدیک اہل حق کے باطل و مردود ہے۔                   سید محمد نذیر حسین۔



[1]   اور وہ یعنی عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں، آپ کے نازل ہونے سے قیامت کے وقت کا قرب معلوم ہوجائے گا عبداللہ بن عباس ’’لعلم‘‘ کو مبالغہ کے لیے نقحبتین پڑہتے تھے، کما لین میں  ایسا ہی منقول ہے۔

[2]    جو آدمی ہدایت واضح ہوجانےکے بعد بھی رسول کی نافرمانی کرے اور ایمانداروں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اس کو جدہر جاتا ہے جانے دیں گے اوربالآخر اس کو جہنم میں  ڈال دیں گے۔

[3]    اور وہ قیامت کا ایک  نشان ہیں یعنی عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں  سے ایک نشانی ہیں۔ ان کے آنے سے قیامت کا وقت قریب ہونا معلوم ہوجائے گا، شرط وال علی الشئ کو علم   سے تعبیر کیا، کیونکہ ان کے آنے سے قیامت کا علم ہوجائے گا۔ عبداللہ بن عباسؓ نے اس کو ’’علم‘‘ پڑھا ہے جس کے معنی نشانی ہیں۔ تفسیر کبیر کا خلاصہ ختم ہوا۔ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کی نشانیوں میں  سے ہے۔ عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ ، قتادہ وغیرہ نے اس کو ’’علم‘‘ پڑھا ہے، جس کے معنی علامت اور نشانی ہے۔



قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

تبصرے