سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) مولاناابوالکلام آزاد

  • 548
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2113

سوال

(47) مولاناابوالکلام آزاد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا ابوالکلام آزادمرحوم نے اپنی تفسیرترجمان القرآن میں سامری اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی گفتگومتعلقہ بچھڑا سورہ طٰہٰ میں لکھاہے کہ قرآن میں جہاں کہیں بغیراضافت واسنادکے ’’الرسول‘‘ کا لفظ آیا ہے وہاں فرشتہ کا مطلب مرادنہیں ہوگا۔ کیا مرحوم  کا یہ  کلیہ درست ہے۔؟جزاكم الله خيرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ اصطلاح سلف کے خلاف ہے۔ علماء سلف نے اس سے فرشتہ ہی مرادلیاہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کا خیال اُلٹ جاتاہے تو وہ اصطلاح بھی الٹی بنا لیتاہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے مرزاقا دیانی لکھتے ہیں:

’’جب توفّی کا فاعل اَللہ ہو اورمفعول ذی روح ہو تو اس کے معنی پورا لینے کے نہیں ہوتے بلکہ قبض روح کے ہوتے ہیں۔‘‘

مرزاقادیانی نے اپنے کلیہ کے خلاف ثابت کرنیوالے کے لیے ایک ہزار روپیہ انعام بھی رکھ دیا۔ مرزا صاحب نے دیکھا کہ دنیا میں ایک ہی ایسا واقعہ ہواہے جس میں مسلمانوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے ذی روح شئی کوپورا لیا اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ پس انہوں نے یہ اصطلاح بنا کرانعام رکھ دیا تاکہ نہ کوئی اس کو دوسری جگہ ثابت کرسکے اور نہ انعام لے سکے۔ چنانچہ ان کا یہ افسوں ایسا کارگرہوا کہ سینکڑوں لوگ گمراہ ہوگئے اور یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی کہ جب دنیا بھرمیں ایسا واقعہ ہی ایک ہے تودوسری جگہ سے کوئی اس کی مثال کسی طرح لائے گا؟ لیکن بحکم :الحق یعلوہ ولایعلی (حق غالب رہتاہے ،مغلوب نہیں ہوتا)

علمائے اسلام نے مرزاصاحب کوہر رنگ میں لیا۔۔۔چنانچہ مرزا صاحب کی اصطلاح کے مقابلہ میں علمائے اسلام نے اسی قسم کی ایک اصطلاح بنا کر پیش کر دی اور وہ یہ کہ :

’’جب رفع کا فاعل’’اللہ ‘‘ ہوا ورمفعول ذی روح ہواور اس کے بعدکلمہ اِلیٰ آئے جس کا مجرورضمیراللہ کی طرف لوٹے تو اس کے معنی طبعی موت یا رفع درجات کے نہیں ہوتے بلکہ رفع جسمانی کے ہوتے ہیں۔‘‘

لیجیے :۔۔۔۔۔۔۔۔ع’’روٹی کے بدلے روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی ۔‘‘

سو ایسے ہی سامری کے قصہ میں مولاناابوالکلام آزاد مرحوم کا خیال چونکہ سلف صالحین ؒ کے خلاف تھا اور انہوں نے دیکھاکہ صرف ایک ہی واقعہ میں ’’الرسول ‘‘سے مراد فرشتہ آیا ہے۔ اس لیے انہوں نے ’’الرسول ‘‘ کی ایک اصطلاح بناکرسلف کے معنی کو ردکر دیا۔

اگراس طرح اصطلاح بن سکتی ہے توہم بھی اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ :

’’یہ اصطلاح اس وقت ہے۔ جب اس کے ساتھ ’’اثر‘‘ کا لفظ نہ ہویہاں چونکہ ’’اثرالرسول ‘‘ فرمایا ہے اس لیے یہاں یہ اصطلاح جاری نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ ’’الرسول‘‘ میں ’’الف لام‘‘ خود اضافت کا کام دے رہاہے۔ یہ کہنا کہ اضافت نہیں۔ کس قدرغفلت ہے بلکہ رسول کے معنی ہی میں اضافت موجودہے۔ کیونکہ رسول کے معنی مرسل کے ہیں اورمرسل بغیرمرسِل کے نہیں ہوتا۔ پس جیسے موقعہ ہوگا ویسے مرادلیا جائے گا۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں بادشاہ کا مرسَل ہے اورسورہ یسٰین کے شروع میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مرسَل ہےاورعام طورپرقرآن مجیدمیں اللہ کا رُسل مرسل ہوتاہے پھر اس سے کبھی بشررسول مراد ہوتاہے اورکبھی فرشتہ۔

نیز یہاں ایک اور بات بھی غورطلب ہے وہ یہ کہ رسول کے معنی مرسل کے ہیں۔ اورقرآن مجیدمیں کئی جگہ ایک کی جگہ دوسرا لفظ استعمال ہوتاہے۔ جیسے دوسرے پارہ کے اخیرمیں فرمایا:

﴿وَإِنَّكَ لَمِنَ ٱلۡمُرۡسَلِينَ ٢٥٢﴾---سورة البقرة

(یعنی اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )بیشک توپیغمبروں میں سے ہے)

اس کے متصل فرمایا:

﴿تِلۡكَ ٱلرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلَىٰ بَعضٖۘ﴾

 (یعنی یہ پیغمبر(جن سے ایک آپ ﷺ بھی ہیں ان میں سے)بعض کوبعض پرہم نے فضیلت دی ہے)

یہاں پہلے جن کے حق میں مرسَل کہاہے۔۔ پھرانہی کو ’’رسول ‘‘ کہہ کرخطاب فرمایا اور بشررسول ہیں۔ اسی طرح پارہ 12رکوع 7میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت لوط علیہ السلام کا قصہ ذکرکیاہے۔ اس میں بھی مرسل کا لفظ ہے اور یہی قصہ پارہ 14رکوع 5۔4اورپارہ 26 رکوع اخیر میں ذکرفرمایا اور وہاں بھی مرسل کا لفظ آیاہے اورمراد دونوں جگہ فرشتے ہیں۔ پس جب قرآن مجیدمیں دونوں ایک ہیں تو جیسے المرسل سے مراد قرآن مجید میں فرشتہ آیاہے۔ الرسول سے مرادبھی فرشتہ ہوسکتاہے۔

خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔ کیونکہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے ہماری اصطلاحات ،سلف صالحین ؒ کے مقابلہ میں محض ’’ڈھکوسلے ‘‘ ہیں اور کچھ نہیں۔ 73 فرقوں میں سے ایک ہی فرقہ حق ہے اور وہ ’مااناعلیہ واصحابی‘‘ہے (یعنی رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ ناجی فرقہ وہ ہے جس پرمیں اورمیرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ) (ملاحظہ ہومشکوۃ باب الاعتصام ص 30)

خاکساری فتنہ !

عنایت اللہ ’’مشرقی‘‘ کی بعض تحریرات اور ان کے انکشاف حقیقت کے متعلق سوال بخدمت شریف جناب حافظ صاحب مدظلہ

اسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

مندرجہ ذیل اقتباسات عنایت اللہ مشرقی کے اخبار’’الاصلاح‘‘ ’’دعوت‘‘وغیرہ سے لیے گئے ہیں۔ ان پر روشنی ڈالیں کہ یہ صحیح ہیں یا غلط۔ اور ان کی حقیقت کیاہے ؟     (سائل یکے ازشملہ )

(1)      «من مات ولم یحدامامہ فقدمات» (حدیث )

(ترجمہ علامہ مشرقی) ’’ یعنی جومرگیا اور اس نے اپنے امام کونہیں دیکھا یعنی اپنے سردارکونہیں بتایا۔ وہ جاہلیت یعنی کافروں کی موت مرا۔‘‘ (دعوۃ ص 6)

(2)      (ترجمہ حدیث) (نمازمیں) اگرتم نے ذرا پہلے اورپیچھے اپنا سرزمین سےاٹھا لیا توتم وہ بدبخت ہوجس کا سرقیامت کے دن گدھے کا ہوگا۔

(3)      ایک شخص کے کفرپر 99 دلائل ہوں گے مگر ایک دلیل اس کے ثبوت اسلام پر ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ وہ اس شخص کے حکم اسلام پرحکم کرے۔‘‘      (رسائل ابن عابدین جزء اول ص 326)

(4)      (ترجمہ)’’ کفر ایک امرعظیم ہے۔ علماءاسلام میں سے کسی ایک نے بھی کفرمسلم پرحکم کرنیکی دلیری نہیں کی۔‘‘  (رسائل ابن عابدین ص 366)

(5)      اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو اسے تعزیر نہ دی جائے جب تک وہ اس شخص کو ’’کافرباللہ‘‘ نہ کہے۔ کیونکہ وہ مسلمان جسے کافر کہا گیا ہے تو بتوں پروہ فی الحقیقت کافرہے تو قائل کا لفظ ’’یاکافر‘‘ دومعنوں پرمتحمل ہے۔ یعنی کافرباللہ کا اورکافر بتوں کا۔‘‘ (شامی جلدسوم ص 253)

(6)      وہ لفظ جوموجب تکفیر ہومگرساتھ اس کے دوسرے معنی کا احتمال بھی رکھتا ہو تو فقہاء ومحققین کے ضابطہ موافق جس لفظ میں اجتمالات ہوں تو وہ استدلات کفرکوساقط کردیتے ہیں ۔‘‘ (رسائل ابن عابدین جزء اول ص 367)

(7)            ’’خطبہ جمعہ کے وقت ازروئے حدیث ثابت کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ کا پاخانہ صحابہ کرام (معاذاللہ) تناول کرتے تھے...الغرض ان خداکے مقرب بندوں نے میرے اچھرہ پہنچتے ہی مجھ پر کفر کا فتوی لگایا۔ میں جب ان کی مسجد میں نماز جمعہ کے لیے گیا اورمناقب رسولﷺ کے عنوان کے ماتحت اوپر کی پاخانہ والی حکایت ان کے ملّا سے سن رہاتھا۔ ان کے بڑے ملاّنے مجھے دجال اور.....کہا۔‘‘ (’’الاصلاح ‘‘5اپریل ؁ 1935ء صفحہ 6۔3)

(8)            تکفیرمسلم کا جو مسئلہ ہے اگر اس میں 99 احتمالات کفرکے ہوں اورایک احتمال کفر کے نفی میں ہو تو مفتی وقاضی کے لیے بہتریہی ہے کہ اس احتمال پرجو مانع کفرہے ،عمل کرے۔ اس لیے ہزار کافروں زندہ چھوڑ جانے کی خطا بہت کم ہے۔ اس خطا سے جو ایک مسلمان کے فنا ہونے میں سرزد ہوجائے۔‘‘       (ملاعلی قاری ص 199)

(9)           ’’علیکم بالجماعة والسمع والطاعة (ترجمہ حدیث از’’علامہ مشرقی‘‘) اے مسلمانو! تم پرفرض ہے کہ جماعت کوقائم کرو۔ پھر اپنے امیر کے حکموں کوسنو اوراس کی بے چون وچرا اطاعت کرو۔‘‘          (’’دعوت ‘‘ص 5)

(10)        1۔تم پکی روٹی پرایمان رکھتے ہو۔اب نہ رکھو۔2۔تم اس کے اس مسئلہ پرکہ شہوت کے وقت (معاذاللہ) مشت زنی جائز ہے ایمان رکھتے ہو۔3۔تم مولویوں کے اس مسئلہ پرکہ رسول خداﷺ کا پاخانہ معاذاللہ صحابہ کرام کھاتے تھے۔(ایمان رکھتے ہو)‘‘

(11)       ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجدمیں معتکف تھے۔ تسبیح ہاتھ میں تھی ،وظیفہ کا وردفرمارہے تھے۔ فاروق نماز کو آئے ہاتھ سے تسبیح چھین کرپھینک دی اورفرمایا کہ تم عیسائیوں کی طرح اسلام میں بھی ڈھونگ رچانا چاہتے ہو۔ اسلام حرکت کا نام ہے اُٹھو،خدمت خلق کرو۔ بزرگوں کا قول ہے۔

 عبادت بجزخدمت خلق نیست   بہ تسبیح وسجادہ ودلق نیست 

شیخ سعدیؒ   (بحوالہ ’’ہمدم ‘‘لکھنؤازاخبار’’الاصلاح‘‘)

جوابات

(1)    اصل حدیث یوں ہے :

«من مات ولیس فی عنقہ بیعة مات میتة جاہلیة» (مشکوة کتاب الامارة ص 132)

(ترجمہ) ’’جوشخص مرجائے اوراس کی گردن میں بیعت نہیں وہ جاہلیت کی موت مرگیا۔‘‘

اس حدیث میں بیعت سے امام کی بیعت مرادہے۔ اور امام سے مراد دوسری حدیث میں امام قتال بتایا ہے۔ (یعنی صاحب حکومت جوجنگ کرسکے)(مشکوۃ الامارۃص 318) اگر ایسا امام موجود نہ ہو توپھرحکم ہے کہ سب فرقوں سے الگ رہو۔ خواہ درخت کی جڑ کھانی پڑے۔(مشکوۃ کتاب الفتن ص 461)

نوٹ :۔جاہلیت کی موت سے کفرکی موت مرادنہیں بلکہ بغاوت ہے۔،

(2)  اصل حدیث یوں ہے:

«امایخشی الذی یرفع راسہ قبل الامام ان یحول اللہ راسہ راس حمار»(مشکوۃ باب ماعلی الماموم من المتابعة ص102)

’’جوشخص اپناسر امام سے پہلے اٹھاتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتاکہ خدا اس کا سرگدھے کا بنا دے۔‘‘

اس میں نہ قیامت کا ذکرہے نہ اس میں قطعی فیصلہ ہے کہ اس کا سرگدھے کا ہو جاتاہے بلکہ صرف خوف دلایا ہے۔

(5۔4۔3)  شامی جلدسوم وغیرہ کےحوالہ سے جوکچھ لکھاہے وہ ٹھیک ہے- مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک لفظ کے دو یا زیادہ معانی ہوں اور یہ معلوم نہ ہوسکے- کہ متکلم کی مراد کونسا معنی ہے۔ بعض معانی کی بناء پرکفر لازم آتاہے۔ بعض معانی کی بناء پرکفر لازم نہیں آتا۔ ایسی صورت میں کفر کا فتوی نہیں ہوسکتا- کیونکہ متکلم کی مراد میں شک ہے ، شایدمتکلم کی مراد وہ معنی ہوجس سےکفر لازم نہیں آتا۔ چنانچہ خودشامی جلد3صفحہ 312میں اس کی تصریح کی ہے ،لکھاہے :

"وفی الخلاصة وغیرہا اذا کان فی المسئلة وجوہ توجب التکفیرووجہ واحدیمنعہ فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیرتحسیناً للظن بالمسلم زادفی البزازیة الااذاصرح بارادۃ موجب الکفرولاینفعہ التاویل"

یعنی’’جب مسئلہ میں کئی احتمال ہوں جوموجب کفر ہوں اور ایک احتمال کفر سے مانع ہو تو مفتی کو اس ایک کی طرف جھکناچاہیے۔ کیونکہ مسلمان پرحسن ظن رکھنے کاحکم ہے ہاں جب متکلم اپنی مراد کی تصریح کردے جو موجب کفر ہے تو پھر تاویل کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ یہ شک کی صورت میں ہے۔ جبکہ متکلم کی مرادمتعین نہ ہو۔ اگرمتکلم کی مراد کا علم ہوجائے توپھرایک ہی وجہ کفر کے فتوے کے لیے کافی ہے خواہ دوسری کتنی اشیاء اس میں ایمان کی موجود ہوں ، ان کا اعتبار نہ ہوگا۔ مثلاً کوئی شخص قرآن کی ساری سورتوں پر ایمان رکھے صرف ایک سورۃ کا منکر ہو تو وہ بالاتفاق کافرہے۔ اسی طرح کوئی سارے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لائے تمام کتب سماوی کو مانے ، صرف محمدصلیﷺ پر اورقرآن مجید پرایمان نہ رکھے تووہ بھی بالاتفاق کافرہے۔

سیاسیات میں اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص انگریز کے سارے قوانین کا پابندہو صرف ایک قانون سے حکم عدولی کرے تو وہ اس کا باغی کہلاتاہے۔ ٹھیک اسی طرح ایمان اورکفرکا معاملہ ہے۔

(7)  اسی قسم کی کوئی روایت ثابت نہیں کہ معاذ اللہ صحابہ  رضی اللہ عنہم رسول  اللہﷺ کا پاخانہ کھاتے تھے یہ بالکل غلط ہے ۔

(8) اس کاجواب نمبر6۔5۔4۔3۔میں ہوچکا ہے۔

(9) یہ الفاظ کسی خاص حدیث میں مجھے یادنہیں پھر ان کا ترجمہ بھی غلط کیاہے۔ بنانا اس کا ترجمہ نہیں اگرچہ جماعت کا بنانا اور امیرمقررکرنا حسب طاقت ضروری ہے۔ لیکن ان الفاظ کا یہ ترجمہ بنانا نہیں بلکہ ان کاترجمہ صرف یہ ہے کہ جماعت کو لازم پکڑو۔ یعنی جماعت موجود ہو تو اس سے جدا نہ ہو۔ پھرجماعت بھی شریعت کے مطابق ہو نہ کہ خاکساری جن کےعقائدسراسرشریعت کے خلاف ہیں۔

(10)  مشت زنی کا مسئلہ حدیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلیﷺ نے فرمایا۔ جوشخص نکاح کی طاقت رکھے وہ روزے رکھے۔ یہ اس کےلیے خصی ہونا ہے۔ (مشکوۃ کتاب النکاح)

(11) رسول اللہﷺ اعتکاف بیٹھے تھے۔ قرآن مجیدمیں بھی اعتکاف بیٹھنے کا ذکرہے ارشاد ہے۔

﴿وَلَا تُبَٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمۡ عَٰكِفُونَ فِي ٱلۡمَسَٰجِدِۗ﴾--سورة البقرة187

یعنی عورتوں سے اعتکاف کی حالت میں مباشرت نہ کرو۔‘‘

نیزارشادہے :

﴿وَعَهِدۡنَآ إِلَىٰٓ إِبۡرَٰهِ‍ۧمَ وَإِسۡمَٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيۡتِيَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلۡعَٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ ﴾--سورة البقرة125

’’یعنی ہم نے ابراہیم اوراسماعیل علیہما السلام کو وصیت کی کہ میرے گھرکوطواف کرنے۔ اعتکاف کرنے اور رکوع وسجدہ کرنے والوں کےلیے صاف کر دو۔‘‘

پس جب اعتکاف اتنی اہمیت رکھتاہے توحضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے شخص اس کواس حقارت کی نظر سے کس طرح ٹھکرا سکتے ہیں جس کا سوال میں ذکرہے یہ روایت بالکل غلط ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص109 

محدث فتویٰ

 

تبصرے