سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(898) نصوص قرآن وسنت کی تعبیر کا مدار اکثر اجتہاد پر ہے؟

  • 5464
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1627

سوال

(898) نصوص قرآن وسنت کی تعبیر کا مدار اکثر اجتہاد پر ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’محدث‘‘ لاہور کے تازہ شمارہ میں آپ کا مقالہ پڑھا اس کے متعلق چند سوالات ارسال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ امید ہے جواب سے نوازیں گے۔ مناسب ہو تو محدث ہی میں شائع کروا دیں کیوں کہ ہو سکتا ہے یہ سوال کئی ذہنوں میں پیدا ہوئے ہوں ۔

(۱) نصوص قرآن وسنت کی تعبیر کا مدار اکثر اجتہاد پر ہے کیا درست تعبیر بھی شریعت نہیں یا صرف غلط اجتہاد شریعت سے خارج ہو گا ۔

(۲) روایت احادیث میں بھی اجتہاد وفہم کا دخل ہے اس لیے بعض روایات میں ایک دوسرے کی تغلیط بھی صحابہ نے کی ہے ، روایت بالمعنی بھی بلاشک ایک قسم کا اجتہاد ہی ہے تو کیا اس صورت میں ان روایات کو خارج از شریعت قرار دیا جائے گا ؟

(۳) حدیث کی تصحیح کے اصول مستنبط اور اجتہادی ہیں ان کی تطبیق بھی اجتہاد ہے اور وہ غلبہ ظن جس کی پاداش میں ائمہ کے تمام اجتہادات بیک قلم خارج از شریعت قرار دیے جا رہے ہیں ذخیرہ حدیث میں بھی پایا جاتا ہے ۔ مقدمہ ابن صلاح کی یہ عبارت آپ کو تو حفظ ہو گی ’’وَمَتَی قَالُوْا ہٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ فَمَعْنَاہُ اَنَّہُ اتَّصَلَ سَنَدُہُ مَعَ سَائِرِ الْاَوْصَافِ الْمَذْکُوْرَۃِ وَلَیْسَ مِنْ شَرْطِہِ اَنْ یَکُوْنَ مَقْطُوْعًا بِہِ فِی نَفْسِ الْاَمْرِ…‘‘ الخ

(۴) آحاد کی تصحیح وتضعیف ایک اجتہادی امر ہے ’’خطا کا پہلو‘‘ اس میں بھی موجود ہے بایں ہمہ اس سے اثبات اصل شریعت کا روا رکھا گیا ہے تو اجتہاد سے حکم شریعت کیوں معلوم نہیں کیا جا سکتا ؟ باب قیاس اور باب نقل کا فرق مزید واضح فرمائیں؟

(۵) اگر مختلف فقہائی نسبت سے شریعت حنفی شریعت مالکی کہا جائے گا تو اختلاف محدثین پر بھی یہ پھبتی کی جا سکتی ہے ۔ خصوصاً جبکہ محدثین کے اختلاف کا اثر براہ راست ’’شریعت‘‘ پر ہو گا ۔

(۶) غیر منصوص مسائل شریعت کاملہ میں کوئی حکم رکھتے ہیں یا نہیں ۔ اگر ان کا کوئی حکم ہے تو کیا نام دیا جائے؟ ( ۷) کیا تمام مسائل اجتہادیہ کو بیک قلم خارج از شریعت قرار دینے کی بجائے یہ ممکن نہیں کہ ہم ان کے درجات مقرر کریں ۔ اصول شریعت سے مطابقت رکھنے والے احکام شرعی ہوں اور دوسرے سے متامل فیہ۔     آپ کا شاگرد : عبدالحمید ازہرؔ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) آپ کا یہ سوال بتا رہا ہے کہ آپ بھی تعبیر واجتہاد کا دو قسموں کی طرف منقسم ہونا تسلیم کرتے ہیں ۔ i۔ صائب تعبیر واجتہاد ۔ ii۔ خاطی تعبیر واجتہاد ۔ اس دوسری قسم کو تو آپ بھی شریعت نہیں سمجھتے رہی پہلی قسم تو وہ بھی شریعت نہیں کیونکہ شریعت تو وہ چیز ہے جس کے مطابق وموافق ہونے کی وجہ سے اس تعبیر واجتہاد کو صائب قرار دیا گیا ۔

(۲) روایت احادیث میں فہم کا دخل تو ضرور ہے جبکہ اجتہاد کا روایت حدیث میں دخل ہونا محل نظر ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین  کا بعض روایات میں ایک دوسرے کو تغلیط کرنا تو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ روایات کو شریعت نہیں سمجھتے تھے ورنہ وہ ان کی تردید وتغلیط نہ فرماتے کیونکہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی شریعت کی تغلیط نہیں کرتا روایت بالمعنی میں الفاظ شریعت کا معنی بیان کیا جاتا ہے جس کا تعلق فہم کے ساتھ ہے نہ کہ اجتہاد وقیاس کے ساتھ لہٰذا اس کو اجتہاد کا نام دینا درست نہیں ۔ 

(۳) تصحیح وتحقیق حدیث کے جو اجتہادی اصول نیز جو اجتہادی تطبیقات خطا ہیں وہ تو بالاتفاق شریعت نہیں اور جو صواب ودرست ہیں وہ بھی خود شریعت نہیں بلکہ وہ چیز شریعت ہے جس کے موافق ہو کر وہ صواب ودرست بنے۔ اور وہ چیز شریعت ہے جس کے ظاہری تعارض کو ان تطبیقات نے رفع کیا ۔

(۴) آحاد کی تصحیح وتضعیف علی الاطلاق اجتہادی نہیں پھر یہ تصحیح وتضعیف کوئی شریعت بھی نہیں کیونکہ اس جگہ شریعت تو وہ چیز ہے جس کی تصحیح کی جا رہی ہے اجتہاد کے ذریعہ علم ہونے سے کسی نے انکار نہیں کیا ذرا غور فرمائیں ایک تو ہے شریعت دوسرے ہے ظن بالشریعۃ اور تیسرے ہے ظن بالشریعۃ کا ذریعہ ان تینوں میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کا عین نہیں اجتہاد سے حاصل شدہ شیء ظن بالشریعۃ ہے شریعت نہیں ظن بالشریعۃ میں خطا کا پہلو ہے شریعت میں خطا کا پہلو نہیں کیونکہ تمام کی تمام شریعت حق ہی حق اور وحی ہی وحی ہے تو غور کا مقام ہے کہ ظن بالشریعۃ کو شریعت کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے ؟ محدثین کے تصحیح وتضعیف والے فیصلہ جات شریعت نہیں نہ ہی شریعت یا اس کے اثبات کا ان پر مدار ہے کیونکہ شریعت تو ان محدثین اور ان کے اس فن مصطلح کے معرض وجود میں آنے سے پہلے بھی موجود تھی ۔

(۵) جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فقہاء کرام کے اجتہاد وقیاس کے ذریعہ استنباط کر کے مدون کیے ہوئے مسائل شریعت ہیں ان کو اگر حنفی شریعت مالکی شریعت ایسا الزام دیا جائے تو یہ کوئی پھبتی نہیں بلکہ یہ تو ان کے اپنے عقیدہ کی بات ہے اسی طرح جو لوگ محدثین کے فیصلہ جات کو شریعت قرار دیتے ہیں اگر ان کو بخاری شریعت وغیرہ الزام دیا جائے تو بجا کوئی پھبتی نہیں ہو گی اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ فقہاء کے اجتہادی وقیاسی اقوال وفتاویٰ کی طرح محدثین کے محدثانہ فیصلہ جات شریعت نہیں گو محدثین کے فیصلہ جات اجتہادی وقیاسی بھی نہیں رہا ان کے ذریعہ شریعت کو سمجھنا تو اس سے ان کا شریعت ہونا لازم نہیں آتا دیکھئے علوم لغویہ وعربیہ کے ذریعہ شریعت کو سمجھا تو جاتا ہے مگر ان کو شریعت قرار نہیں دیا جاتا ۔

(۶) غیر منصوص مسائل کا خارج وواقع میں ہونا اگر تسلیم کر لیا جائے تو انہیں منصوص مسائل سے اخذ کیا جائے گا اس اخذ کا نام اجتہاد ہو گا اس اجتہاد کے ذریعہ حاصل کیے ہوئے مسائل کو شریعت پر پرکھا جائے گا مخالف اور منافی ہونے کی صورت میں ان کا شریعت نہ ہونا تو آپ کو بھی تسلیم ہے موافق ہونے کی صورت میں شریعت وہ شی ہے جس کے یہ مسائل اجتہادیہ موافق ہیں ۔

(۷) اس سوال کا جواب پہلے کئی جوابات میں آ چکا ہے۔      

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

 

جلد 01 ص 571

محدث فتویٰ

تبصرے