سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(857) قومی تقریبات کے اختتام پر یا شروع میں قومی ترانہ

  • 5424
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1743

سوال

(857) قومی تقریبات کے اختتام پر یا شروع میں قومی ترانہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض یہ ہے کہ قومی تقریبات کے اختتام پر یا شروع میں قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے جس کا احترام قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس طرح ہمارے سکول میں بھی پڑھائی کے آغاز میں دعا ہوتی ہے جس کے آخر میں قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے اور جس کے ادب واحترام میں ہر فرد کو بے حس وحرکت کھڑا ہونا پڑتا ہے یعنی قومی قانون کے تحت مذکورہ طریقے کے ساتھ احترام بجا لانا فرض ہے ۔

بندہ ناچیز اپنی سوچ کے ساتھ ایسا نہیں کرتا ۔ جس کی وجہ سے سکول میں کافی گڑ بڑ ہو چکی ہے ۔ قائلین کہتے ہیں یہ قومی فریضہ ہے اور قومی قانون ہے لہٰذا یہ قرآن وسنت سے متصادم نہیں ہے ۔

براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواز یا عدم جواز کی وضاحت فرما کر شکریہ کا موقع دیں اگر مجبوراً ایسا کرنا پڑے تو کیا عقیدہ توحید کے منافی تو نہیں ہو گا ؟                    محمد ایوب خالد جھبراں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ جانتے ہیں تلاوت قرآن مجید کا کیا مقام ومرتبہ ہے پھر خطبہ جمعۃ المبارک کے آداب بھی معلوم ہیں مگر شریعت میں تلاوت اور خطبہ میں یہ ترانے والا طریقہ نہیں واضح ہے دوران ترانہ اس طرح بے حس وحرکت کھڑا ہونا غیر مسلم قوموں کی نقالی ہے اب غیر مسلم اقوام کے اس طریقہ کو قومی فریضہ یا قومی قانون سمجھنا یا قرار دینا سراسر ناجائز ہے۔

پھر محض تعظیم وتوقیر کی غرض سے کھڑا ہونا تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی کے لیے بھی درست نہیں جیسا کہ احادیث سے معلوم ہے حتی کہ نماز جس میں قیام فرض ہے ایک دفعہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم بوجہ عذر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین  آپ کی اقتداء میں نماز میں کھڑے ہو گئے تو آپ نے نماز کے اندر ہی اشارہ سے ان کو بٹھا دیا حالانکہ ان کا قیام ترانے والے قیام کی قسم سے نہ تھا بلکہ نماز میں ایک فرض تھا تو آپ غور فرمائیں ترانے کے دوران ادب واحترام کی غرض سے بے حس وحرکت کھڑا ہونا پھر کیسے درست ہو سکتا ہے؟           

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01 ص 534

محدث فتویٰ

تبصرے