السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میرے خاوند نے مجھے کہا ،جاؤ میں تجھے طلاق دیتا ہوں، دوں کیا؟ یعنی طلاق کے الفاظ زبان سے نکالنے کے فوراً بعد ہی کہہ دیا کہ ،دوں کیا؟، بعد میں ان کا کہنا تھا کہ طلاق دینے کی ان کی نیت نہیں تھی ،صرف سبقت لسانی سے یہ الفاظ زبان سے نکل گئے ہیں، اب ہمارے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! مسلمان ایک ذمہ دار اور دانش مند انسان ہوتا ہے اور بلا سوچے سمجھے زبان سے کوئی لفظ نہیں نکالتا، یہ ایک انتہائی بیوقوفی ہے کہ غصے میں آکر فوراً طلاق دے ڈالی، حالانکہ سمجھانے کے اور بھی متعدد طریقے ہیں۔ صریح الفاظ میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، بغیر نیت کے بھی طلاق پڑجاتی ہے، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کا لفظ کہہ دے تو ’’طلاق‘‘کہنے میں اس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ لفظ طلاق زوجین کے درمیان جدائی کیلئے استعمال کیا جانے والا واضح اور صریح لفظ ہے ،لہذا اس لفظ کو شوہر طلاق کی نیت کے بغیر بھی زبان سے ادا کردے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ جیساکہ سنن ابوداؤد شریف ج۱ ص۲۹۸ میں حدیث پاک ہے (حدیث نمبر:۱۸۷۵) ’’ عن ابی هريرۃ ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النکاح والطلاق والرجعة۔ ‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ہیں جن کو سنجیدگی سے اداکرنا سنجیدگی ہے اور مذاق ودل لگی سے اداکرنا بھی سنجیدگی ہے (۱)نکاح (۲)طلاق (۳)رجعت۔ صورت مسؤلہ میں آپ کو ایک طلاق رجعی ہو چکی ہے ،جس میں آپ کے خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے ،اور اب آپ کے خاوند کے پاس دو چانس باقی ہیں۔ لہذا آگے احتیاط سے چلنا ہوگا اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا۔ ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 01 |