سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(818) تلقی علماء بالقبول کیا ہے ؟

  • 5385
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3283

سوال

(818) تلقی علماء بالقبول کیا ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱)تلقی علماء بالقبول کیا ہے ؟ (۲) جس حدیث کی سند نہ ہو اسے تلقی حاصل ہو سکتا ہے ؟ (۳)جس کی سند نہ ہو اسے کیا کہتے ہیں ؟( ۴) اجتہاد کی تعریف عربی الفاظ کا اردو ترجمہ کیا تصحیح یا تضعیف اجتہادی امر ہے تھوڑی سی اردو میں وضاحت کر دیں ؟ ابھی کچھ مزید سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔

(i)ضعیف کا درجہ بے سند روایت سے فرو تر ہے یا بر تر؟( ii)صاحب مشکوٰۃ نے بھی تو یہی نہج اختیار کی ہے کہ ایک صحابی سوال کا نام لے کر حدیث بیان کر دی ہے ۔ کیا مشکوٰۃ کی احادیث اور اس ’’یَا جَابِرُ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اﷲُ نُوْرِیْ‘‘ والی حدیث میں یہ قدر مشترک نہیں کہ دونوں کی تفصیلی سند نہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ مشکوٰۃ کی احادیث قبول اور ’’یاجابر‘‘ والی نہیں مانی جا رہی (iii) جس حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے قلم پیدا کیا گیا اس میں اولیت اضافی ہے حقیقی نہیں ۔ یہ اضافی اور حقیقی ذراآسان مفہوم سے سمجھا دیں ۔ (iv) جب قلم پیدا کیا گیا تو اسے لکھنے کا حکم دیا گیا جس چیز پر لکھا گیا وہ اول ہوئی یا وہ اول مخلوئی ہوئی جس نے لکھا یعنی قلم اول نہ رہی ۔(v) اس حدیث کو کسی محدث نے موضوع یا ضعیف بھی کہا ہے یا نہیں ؟                                    اللہ دتہ اٹک


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:( ۱) تلقی علماء بالقبول کا مطلب واضح ہے علماء کا کسی چیز کو قبول کر لینا اور کسی حدیث کو تلقی علماء بالقبول حاصل ہونے کا مقصد یہ ہے کہ علماء اس حدیث کو مقبول صحیح یا حسن کہیں مگر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ علماء سے مراد ہر کہ وہ نہیں بلکہ ماہر اور فن میں دسترس رکھنے والے لوگ مراد ہیں مثلاً فن حدیث میں امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابوداود ، امام نسائی ، امام ترمذی ، امام ابن ماجہ ، امام حاکم ، امام دارقطنی ، امام بیہقی ، امام طحاوی اور امام ابوحنیفہ وامثالہم رحمہم اللہ تعالیٰ اب آپ خود ہی غور فرمائیں کیا روایت ’’یَا جَابِرُ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اﷲُ  الخ‘‘ کو ان مذکور بالا اور ان جیسے علماء کی تلقی بالقبول حاصل ہے ؟

(۲)اگر کسی حدیث کی سند نہ ہو تو اسے کہتے ہیں ’’لا إسناد لہ‘‘ أو ’’لا أصل لہ‘‘ یہ حدیث بے سند ہے یا بے اصل ہے بے سند اور بے اصل حدیث کو تلقی علماء بالقبول حاصل نہیں ہوتی ہاں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی بے اصل حدیث میں مذکور بات قرآن مجید کی کسی آیت یا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث سے ثابت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں علماء کا اس بات کو صحیح قرار دینا اس بے اصل اور بے سند حدیث کو تلقی علماء بالقبول حاصل ہونا نہیں موضوع روایات کو بھی اس سلسلہ میں بے اصل روایات کی طرح ہی سمجھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کی ذکر کردہ روایت ’’یا جابر ‘‘ الخ میں مذکور بات کسی آیت یا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں بلکہ وہ صحیح حدیث ’’ان اول شیء خلق اﷲ القلم‘‘ 1 [سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا]  سے متصادم ہے۔

(۳) امام شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ اجتہاد کی تعریف میں اہل علم کے اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’وقیل ہو فی الاصطلاح بذل الوسع فی نیل حکم شرعی عملی بطریق الاستنباط‘‘ 2   بسا اوقات اجتہاد غلط  بھی ہو جاتا ہے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں : {إِذَا اجتہد الحاکم فأصاب فلہ أجران ، وإن أخطأ فلہ أجر واحد}3  غلط اجتہاد کی مثال حدیث کنومۃ العروس سے قبروں پر عرسوں کے جواز کا استنباط اور آیت {وَلاَ یَطَئُوْنَ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1سلسلہ صحیحہ للالبانی حدیث نمبر ۱۳۳2ارشاد الفحول ص۲۳۲3صحیح بخاری [کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب أجر الحاکم إذا اجتہد فأصاب أو أخطأ  ]

مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ}  [اور نہیں قدم رکھتے کہیں جس سے کہ خفا ہوں کافر ] 1 سے حربی کفار کی عورتوں کے ساتھ زنا کے جواز کا استنباط ۔

(۴) ظاہر بات ہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف مندرجہ بالا اجتہاد کی تعریف کی روشنی میں اجتہادی امر نہیں تفصیل کے لیے آپ رسالہ ارشاد النقاد کا مطالعہ فرمائیں ۔   

آپ کے تازہ سوالات کے جواب ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں ۔

(i) بعض ضعیف روایتوں کا درجہ بے سند روایت سے فرو تر اور بعض کا بہتر ہوتا ہے اس کے باوجود ضعیف روایت کیسی بھی ہو حجت نہیں ہوتی تا آنکہ اس کا ضعف ختم نہ ہو جائے ۔

(ii)صاحب مشکوٰۃ نے حدیث کے آخر میں ان کتابوں کے حوالے بھی لکھے ہیں جن کتابوں میں حدیث باسند بیان کی جاتی ہے مثلاً بخاری ، مسلم ، ابوداود ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، احمد ، مالک ، شافعی ، بیہقی ، شرح السنہ ، رزین وغیرہ لہٰذا احادیث مشکوٰۃ کو بے سند کہنا غلط ہے جبکہ آپ کی پیش کردہ روایت ’’یا جابر‘‘ الخ کی بابت آپ نے ابھی تک کسی ایسی کتاب کا نام تک نہیں لیا جس میں اس کی سند بیان کی گئی ہو خواہ ضعیف ہی ہو ۔

(iii) اضافی اور حقیقی اولیت کے لفظ میں نے استعمال نہیں کیے جن بزرگوں سے آپ نے یہ لفظ سنے ہیں ان سے دریافت فرما لیں اگر کسی کتاب میں پڑھے ہیں جس کے مؤلف اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں تو پھر وہ پوری عبارت ارسال کریں جس میں یہ لفظ استعمال ہوئے ہیں ۔

(iv) قلم کے اول مخلوق ہونے کی تصریح تو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرما دی ہے لہٰذا جس چیز پر لکھا گیا اسے قلم کے بعد پیدا کیا گیا ہے نہ کہ پہلے لہٰذا قلم اول مخلوق ہی رہا ۔

(v) ہاں کہا ہے لیکن اس وقت مجھے ان کے نام مستحضر نہیں الخصائص کبری للسیوطی کا حاشیہ اور قاضی سلیمان منصور پوری کے رسالہ استقامت کا مطالعہ فرمائیں ۔                 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


1 [التوبة ۱۲۰ پ۱۱]

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01 ص 550

محدث فتویٰ

تبصرے