السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کی کتاب پڑھنے کو ملی جس میں لکھا تھا کہ ’’اگر امام ترمذی کسی حدیث کو حسن کہہ دیں تو ضروری نہیں کہ وہ حدیث واقعہ میں بلکہ خود ان کے ہاں بھی قابل احتجاج ہو ۔ ایسی تین ، چار مثالیں بھی دیں کہ جو امام ترمذی نے حسن کہی ہیں ان پر عمل موقوف کرتے ہیں انہیں کالعدم بنا دیا ۔ نیز ابن حزم کی حسن یا تصحیح کے بارے میں بھی لکھیں ؟ اللہ دتہ اٹک
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معلوم ہے کہ محدثین کے نزدیک درجہ احتجاج تک وہی روایت پہنچتی ہے جس کے تمام راوی ثقہ (عادل ضابط) ہوں اس کی سند متصل ہو وہ روایت معلل اور شاذ نہ ہو اس کی سند اور اس کے متن میں کسی قسم کی علت قادحہ نہ ہو اور نہ ہی اس کی سند اور اس کے متن میں کسی قسم کا شذوذ ہو اگر کسی روایت میں مذکورہ شروط قبول واحتجاج سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو جائے تو وہ روایت محدثین کے ہاں درجہ قبول واحتجاج سے گر جاتی ہے جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک روایت کے حسن بننے کے لیے ان شروط مذکورہ میں سے بعض کا ہونا کوئی ضروری نہیں ۔ چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے جو حسن کی تعریف فرمائی اس سے یہ بات عیاں ہے وہ لکھتے ہیں : ’’وَمَا ذَکَرْنَا فِی ہٰذَا الْکِتَابِ حَدِیْث ٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا حُسْنَ إِسْنَادِہِ عِنْدَنَا کُلُّ حَدِیْثٍ یُّرْوَی لاَ یَکُوْنُ فِی إِسْنَادِہِ مَنْ یُتَّہَمُ بِالْکَذِبِ وَلاَ یَکُوْنُ الْحَدِیْثُ شَاذًا وَّیُرْوَی مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ نَحْوِ ذٰلِکَ فَہُوَ عِنْدَنَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ‘‘(العلل فی آخر جامع الترمذی)
امام ترمذی کی اس تعریف سے واضح ہے کہ کسی روایت کے ان کے ہاں حسن بننے کے لیے اس کا معلل نہ ہونا ، اور متن کے اعتبار سے شاذ نہ ہونا کوئی ضروری نہیں پھر ان کے نزدیک اس کا متصل ہونا بھی ضروری نہیں اور راویوں کا متہم بالکذب نہ ہونا ان کے نزدیک روایت کے حسن ہونے کے لیے کافی ہے جبکہ روایت کے درجہ قبول واحتجاج پر پہنچنے کے لیے محدثین بشمول ترمذی رحمہم اللہ کے ہاں پہلے ذکر کردہ شروط کا ہونا ضروری ہے ۔
تو عبداللہ بن مسعود سوال والی یہ [رفع الیدین نہ کرنے والی] حدیث امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک ان کی مذکور بالا تعریف کے مطابق حسن ہے ویسے ان کے نزدیک بھی یہ روایت قابل احتجاج نہیں چنانچہ ان کے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے قول ’’لَمْ یَثْبُتْ‘‘ [ثابت نہیں] نقل کرنے سے واضح ہے تفصیل میری کتاب میں دیکھ لیں۔
رہا ابن حزم رحمہ اللہ کا اس کو صحیح کہنا تو ہمارے نزدیک یہ ان کی خطا ہے کیونکہ اس روایت میں شروط قبول واحتجاج میں سے بعض موجود نہیں جیسے کہ وضاحت میری کتاب میں موجود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
1