سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(728) وضو کی بعض جگہیں لیٹرین کے ساتھ ہوتی ہیں

  • 5338
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 933

سوال

(728) وضو کی بعض جگہیں لیٹرین کے ساتھ ہوتی ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضو کی بعض جگہیں لیٹرین کے ساتھ ہوتی ہیں جس طرح جامعہ محمدیہ میں بھی کھڑے ہو کر وضو کرنے کی جگہیں بنی ہیں ایسی جگہ پر چپل بیٹھ کر پہنی جائے تو کراھت سی لگتی ہے اور ’’الدین یسر‘‘ کے خلاف بھی ۔ پروفیسر عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے ادھر کسی نے جوتے کا مسئلہ پوچھا تھا تو انہوں نے جواباً کہا کہ نسائی میں حدیث ہے کہ نبی  صلی الله علیہ وسلم نے بیٹھ کر جوتا پہنا میں ابھی تک اس حدیث پر مطلع نہیں ہو سکا۔

ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ کے گھر ہم چار ساتھی گئے تھے واپسی پر میں نے جوتا بیٹھ کر پہنا اور ڈاکٹر صاحب نے چپل بیٹھ کر پہنی تو ایک ساتھی نے سوال کیا تو جواباً فرمایا کہ مسئلہ ٹھیک لیکن میں شخصیاً چپل بیٹھ کر پہنتا ہوں ۔ براہ کرم توضیح فرما دیں کہ چپل کے بارے میں کیا مسئلہ ہے ۔            خالد جاوید الریاض  ۵/۱۱/۱۷


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی وقت یا کسی جگہ جوتا بیٹھ کر نہ پہنا جا سکے تو جھک کر پہن لے جو نسائی شریف کا حوالہ آپ نے دریافت فرمایا وہ مجھے یاد نہیں ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب حفظہ اللہ نے بحث سے بچنے کے لیے شخصیاً فرما دیا ورنہ وہ اشارہ فرماگئے ہیں کہ چپل بھی نعل کا مصداق وفرد ہے لہٰذا {نَہٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم أَنْ یَّنْتَعِلَ الرَّجُلُ قَائِمًا}

  ’’رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے جوتا کھڑے ہو کر پہننے سے منع فرمایا‘‘ حدیث کے پیش نظر چپل بھی بیٹھ کر پہنی جائے۔

طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ ۴۸۱ پر ایک حدیث ہے: {اخبرنا عبید اﷲ بن موسی العبسی قال: اخبرنا إسرائیل عن عبد اﷲ بن عیسی عن محمد بن سعید بن عبد اﷲ بن عطاء عن عائشة قالت: کَانَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم یَنْتَعِلُ قَائِمًا وَقَاعِدًا}

’’نبی صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر جوتا پہنتے تھے‘‘ اگر اس حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہو جائے تو یہ نہی کے تنزیہ پر محمول ہونے کا قرینہ بن جائے گی ان شاء اللہ تبارک وتعالیٰ

   ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب                            

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01 ص 510

محدث فتویٰ

تبصرے