السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بات یہ ہے کہ میں نے جو سوال آپ کو کیا اس کے جواب میں کچھ اشکال ہے مہربانی فرما کر دور فرمائیں ؟ آپ نے لکھا کہ ’’بعض اہل علم کا کہنا ہے یہ مخصوص جوتے ہیں یا تسمے والے جوتے ہیں‘‘ اس کے بعد آپ نے لکھا ہے کہ ’’ان حضرات کے پاس ان کے کہنے کی کوئی دلیل نہیں‘‘ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ایک ’’اہل علم‘‘ سے بات ہوئی اس نے ’’دلیل‘‘ دی جو کہ درج ذیل ہے ۔
(۱) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ فطر کا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر غلام اورآزاد اور چھوٹے بڑے پر ہے1۔
اگر کوئی یہ کہے کہ جی آج جو صاع ہے وہی صدقہ دے دو چاہے اس صاع سے زیادہ ہو یا کم جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارک میں صاع تھا ۔ چاہیے تو ایسے کہ جو صاع نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ میں تھا اس کے برابر صدقہ دیا جائے ۔
بالکل اسی طرح لفظ ’’نعل‘‘ جس چیز پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بولا ہے وہ کیا ہے ؟ کیسے ہے ؟ یہ کیسے پتہ چلے گا؟ یہ پتہ چلے گا حدیث کے ذریعے ۔
(۱) {حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ اِبْرَاہِیْمَ نَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃ عَنْ أَنَسٍ اَنَّ نَعَلَ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم کَانَ لَہَا قِبَالاَنِ} (۲){حدثنا ابو الولید الطیالسی نازہیر نا ابو الزبیر عن جابر قال رسول اﷲ صلی الله علیہ وسلم إِذَا انْقَطَعَ شِسْعُ اَحَدِکُمْ فَلاَ یَمْشِیْ فِیْ نَعْلٍ وَاحِدَۃٍ حَتّٰی یُصْلِحَ شِسْعَہُ … الخ}2 احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’’نعل‘‘ بند جوتے تسمے والے کو کہا جاتا ہے اور بولا گیا ہے جیسا کہ عربی زبان میں جوتے کی ایک قسم ’’سلیپرSleeper کو مَدَاسَۃ ٌ ‘‘ کہا گیا ہے اور رومی بوٹ کو ’’کندرۃ‘‘ کہا گیا ہے۔ سو ان دلائل سے واضح ہوا کہ یہ جوتے تسمے والے ہیں ۔ جن کو نبی جواب نے منع فرمایا کھڑے ہو کر پہننے سے؟
1مسلم الزکاۃ ۔ باب زکاۃ الفطر 2حوالہ نمبر ۱ نمبر ۲ ابوداود کتاب اللباس باب الانتعال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جناب کا دوسرا مکتوب گرامی موصول ہوا جس میں آپ نے دو حدیثیں درج فرمائیں ہیں ۔ (۱){اَنَّ نَعْلَ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم کَانَ لَہَا قِبَالاَنِ} (۲) {إِذَا انْقَطَعَ شِسْعُ اَحَدِکُمْ} اس کے بعد آپ لکھتے ہیں ’’احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’’نعل‘‘ بند جوتے تسمے والے کو کہا جاتا ہے‘‘ اس سے آپ کا مقصود یہ ہے کہ بلا تسمہ کھلے جوتے پر لفظ ’’نعل‘‘ نہیں بولا جاتا ۔ صاع والی بات بھی آپ نے لکھی ۔
اولاً :تو محترم آپ تحقیق فرمائیں کہ لفظ ’’قبال‘‘ اور لفظ ’’شسع‘‘ کا معنی تسمہ ہے بھی ؟ جہاں تک مجھے معلوم ہے ان لفظوں کا معنی تسمہ نہیں ۔
ثانیاً : بصورت تسلیم غور کریں ان دوحدیثوں میں لفظ ’’نعل‘‘ کے خاص جوتے پر بولے جانے سے نکالنا کہ یہ لفظ لغت عرب میں یا رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تسمے والے جوتے پر بولا جاتا ہے کہاں تک درست ہے ؟
ثالثاً : سوچیں ان دو حدیثوں سے لفظ ’’نعل‘‘ کے بلا تسمہ کھلے جوتے پر بولے جانے کی نفی کیسے نکلی ؟
رابعاً : غور فرمائیں صاع ایک مکیال ہے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس کے ساتھ صدقۃ الفطر کی مقدار معین فرمائی واضح ترین بات ہے کہ اس مقام پر سب چھوٹے بڑے صاع مراد لینے سے صدقۃ الفطر کی مقدار کا تعین تو بالکل ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے جبکہ لفظ ’’نعل‘‘ کا معاملہ ایسا نہیں کیونکہ حدیث {نَہٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم اَنْ یَّنْتَعِلَ الرَّجُلُ قَائِمًا}میں کسی نعل (جوتے) کی تخصیص وتعیین نہیں ہو رہی لہٰذا لفظ نعل کو لفظ ’’صاع‘‘ پر قیاس کرنا صحیح نہیں پھر لفظ ’’صاع‘‘ کے ہر چھوٹے بڑے صاع پر بولنے اور لفظ ’’نعل‘‘ کے ہر چھوٹے بڑے جوتے نیز باتسمہ اور بلاتسمہ جوتے پر بولنے میں کوئی فرق نہیں ۔ اگر آپ نے اس طرح غوروفکر سے کام لیا تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کا اشکال رفع ہو جائے گا ۔
خامساً: مزید وضاحت کے لیے سنن ابی داود کا وہی باب دیکھیں جس سے آپ نے دو حدیثیں نقل فرمائی ہیں اس میں مندرجہ ذیل احادیث بھی موجود ہیں ۔
(i) {عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم فِیْ سَفَرٍ ، فَقَالَ : اَکْثِرُوْا مِنَ النِّعَالِ ، فَاِنَّ الرَّجُلَ لاَ یَزَالُ رَاکِبًا مَا انتَعَلَ}
’’جابر سوال سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم نبی صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوتے اکثر پہنا کرو کیونکہ جوتے پہننے والا آدمی برابر سوار رہتا ہے‘‘
(ii) {عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ : لاَ یَمْشِیْ اَحَدُکُمْ فِیْ النَّعْلِ الْوَاحِدَۃِ لِیُنْعِلہُمَا جَمِیْعًا اَوْ لِیَخْلَعْہُمَا جَمِیْعًا} ’’ابوہریرہ سوال سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک جوتے سے منع فرمایا دونوں پہنے یا دونوں کو اتار دے ‘‘
(iii) {عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ : اِذَا انْتَعَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَأ بِالْیَمِیْنِ ، وَاِذَا نَزَعَ فَلْیَبْدَأ بِالشِّمَالِ ، لِتَکُنِ الْیُمْنٰی اَوَّلَہُمَا تُنْتَعَلُ وَآخِرَہُمَا تُنْزَعُ}
’’ابو ہریرہ سوال سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پائوں سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں طرف سے اتارے دایاں پائوں پہننے میں اول اور اتارے میں آخر ہونا چاہیے‘‘
تو کیا آپ ان احادیث میں بیان شدہ احکام کو بند جوتے تسمے والے کے ساتھ ہی مخصوص سمجھتے ہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ آخر لفظ تو ان میں بھی ’’نعل‘‘ اور ’’انتعال‘‘ والے ہی ہیں پھر حدیث {نَہٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم أَنْ یَنْتَعِلَ الرَّجُلُ قَائِمًا} میں لفظ ’’انتعال‘‘ کے پیش نظر تسمے والے بند جوتے کے ساتھ تخصیص کا کیا معنی؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب