سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(757) بیٹے کا اپنے والد کی ربیبہ سے شادی کرنا

  • 5295
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1526

سوال

(757) بیٹے کا اپنے والد کی ربیبہ سے شادی کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے ہندہ سے شادی کی، ہندہ ایک لڑکی اپنے ساتھ لائی، اب زید اپنے بیٹے سے اس بچی کی شادی کر رہا ہے،کیا یہ شادی جائز ہے یا نہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کی سوتیلی والدہ کی پہلے خاوند سے جو بیٹی ہے اسے آپ کے والد کی ربیبہ کہا جائے گا ، اس لڑکی کی والدہ سے جب آپ کے والد نے شادی کرلی اوردخول کرلیا تو یہ لڑکی صرف آپ کے والد پر حرام ہوگی ، چاہے اس نے اس لڑکی کی پرورش کی ہو یا پھر بڑی عمر کی ہو اور آپ کے والد نے اس کی پرورش نہ کی ہو ۔

سلف اورخلف میں سے جمہور علماء کرام اور آئمہ اربعہ کا مسلک یہی ہے ، اوراللہ تعالی نے جب حرام کردہ عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا :

’’ حرام کی گئيں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ، اور تمہاری خالائيں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں ، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اورتمہاری ساس ، اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہيں کیا تو پھر تم پر کوئي گناہ نہیں ، اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں ، اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ، ہاں جو گزر چکا سوگزر چکا، یقینا اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘ (النساء:23 )

اور آپ کی متعلق یہ ہے کہ ربیبہ آپ پرحرام نہیں کیونکہ وہ آپ کے والد کی بیوی کی وہ بیٹی ہے جو اس کے پہلے خاوند سے ہے اور آپ سے اس کا کوئي تعلق نہیں اس لیے آپ اس سے بغیر کسی حرج کے شادی کرسکتے ہیں ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے والد کی بیوی کی بیٹی سے شادی کے بارہ میں سوال کیا گيا تو اس نے جواب دیا :

مذکورہ بچے کےلیے اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے اگرچہ اس کے والد نے لڑکی کی والدہ سے شادی بھی کی ہو ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

’’ اور اس کے علاوہ باقی عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں ‘‘ (النساء: 24 )

مذکورہ لڑکی ان عورتوں میں شامل نہيں جو اس سے پہلی آیت میں بالنص ذکر کی گئي ہیں اور نہ ہی اس کا سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ذکر ملتا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 600 )

ھذا ما عندی واللہ ٲعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01

 

تبصرے