سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) مذہب ِ اہل حدیث

  • 525
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-10
  • مشاہدات : 3313

سوال

(18) مذہب ِ اہل حدیث

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٹھیٹھ اسلام اور مذہب اہل حدیث ، ہر دو میں فرق ہے یا دونوں لفظ ایک ہی مطلب ادا کرتے ہیں ؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

قرآن میں ہے:

’’وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‘‘(سورۃ النور:55)

’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں‘‘

مشکوٰۃ باب الاعتصام فصل اول میں عبد اللہ بن مسعود﷜ سے روایت ہے:

((قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ما من نبی بعثه الله فی أمته قبلی إلا کان له فی أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمرہ ثم إنه أ تخلف من بعدهم خلوف يقولون مالايفعلون ويفعلون مالا يؤمرون فمن جاهدهم بيدہ فهو مؤمن ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن وليس وراء ذلک من الإيمان حبة خردل رواہ مسلم .))

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے ہرنبی کے دوست اور اصحاب تھے۔ جو اس کے طریقہ کو لیتے اور اس کے حکم پر چلتے۔ پھر ان کے بعد نالائق پیدا ہو جاتے۔ جو کہتے وہ بات نہ کرتے اور کرتے وہ بات جو نہ حکم دیے جاتے۔ ، پس جو شخص جہاد کرے ان سے اپنے ہاتھ کے ساتھ وہ مومن ہے اورجہاد کرے اپنی زبان کے ساتھ وہ مومن ہے اورجو جہاد کرے اپنے دل کے ساتھ( یعنی دل سے برا جانے اوردشمنی رکھے ) وہ مومن ہے اور درے اس کے ایک رائی برابر بھی ایمان نہیں ۔ روایت کیا اس کو مسلم نے۔

کتا ب رزین اور کتاب المدخل للبیھقی میں ہے:

قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم  يحمل هذا العلم من کل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغا لين وانتحال المبطلين وتاويل والجاهلين .( مشکوٰۃ مع مرقاۃ کتاب العلم فصل ثانی )

یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس دینی علم کو ہر خلف سےعدول (یعنی ثقہ لوگ) اٹھائیں گے۔ جو دور کریں گے اس سے تحریف حد سے بڑھنے والوں کی اورجھوٹ باطل والوں کا اورتاویل جاہلوں کی۔

صحابہ رضی اللہ عنھم کا طریق

اس آیت اور دونوں حدیثوں سےمعلوم ہوا۔ کہ جس طریق پر صحابہ تھے وہی رسول اللہﷺ دنیا میں چھوڑ کے گئے تھے .... اسی کو اللہ نے پسند کیا۔ اس آیت سے معلوم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ایما ن والوں سے وعدہ کیا ہے کہ تمہیں خلیفہ بنائے گا اورتمہارے دین کو جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ جگہ دے گا۔ سو یہ وعدہ پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم ہی کے ہاتھ پر پورا ہوا ہے اور پہلی حدیث سے  معلوم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث میں ذکر ہے کہ ہرنبی کے حواری اور اصحاب تھے جو اس کے طریق پر چلتے  تھے۔ پھر پیچھے نالائق پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس سے مقصود آپ کا یہ تھا کہ میری امت میں ایسا ہی ہوگا۔ اسی واسطے اخیر میں فرمایا کہ جو شخص ان سے تلوار  کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہے اورجو زبان سے جہاد کرے وہ مومن ہے ..الخ ..... اور دوسری حدیث سے معلوم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں علی العموم فرمایا ہے کہ ہرخلف میں عدول ہوں گے۔ رسول اللہﷺ اپنے بعد جن کوچھوڑ کردنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ سب آپ کے خلف تھے اورصحابہ رضی اللہ عنھم ان خلف کے عدول تھے۔ پس وہ اس حدیث کے اول مصداق ہوں گے۔ پس اس آیت اور ان دونوں حدیثوں اوران جیسی اور آیتو ں وحدیثوں

حاشیہ

(جیسے آیہ کریمہ لقد رضی اللہ عن المؤمنین اورحدیث من کان مستنا فلیستن بمن قد مات جو ....گذر چکی ہے اورایسی اور۔انتہیٰ)

سے ثابت ہوا کہ جس طریق پرصحابہ رضی اللہ عنھم  تھے۔ وہی رسول اللہﷺ لیکر آئے تھے۔ اور وہی اللہ کوپسند تھا۔ چونکہ اس پر اتفاق ہے اس لئے زیادہ حوالوں کی ضرورت نہیں۔ صرف تنبیہ کے لئے۔ ایک آیت اور دو حدیثیں ذکر کردی ہیں۔ اب سنیے صحابہ رضی اللہ عنہم کس طریق پرتھے:

خلیفۂ اول حضرت ابو بکر﷜ کا طریق

شاہ ولی اللہ صاحب انصاف کے ص38 لغایت ص40 میں بحوالہ دارمی لکھتے ہیں:

کان ابو بکر إذا ورد عليه  الخصم نظرفی کتاب الله فإن وجد فيه مايقضی بينهم قضی ٰ به وإن لم يکن فی الکتاب وعلم من رسو ل الله صلی الله وسلم سنة قضی به فإں أعياہ خرج فسأل  المسلمين فربما اجتمع عليه النفر کلهم يذکر من رسول الله صلی الله عليه وسلم فيه قضاء فيقول الحمد لله الذی جعل فينا من يحفظ علی نبينا فإن أعياہ أن يجدہ سنة من رسول الله جمع رؤوس الناس وخيارهم فاستشارهم فإذا اجتمع رأيه علي أمر قضی به.

یعنی حضرت ابوبکر صدیق﷜ کے پاس جب کوئی جھگڑا آتا۔ تواللہ کی کتاب میں نظر کرتے اگر اس میں پاتے تواس کے ساتھ فیصلہ کرتے۔ اگر کتاب اللہ میں نہ پاتے اور رسول اللہﷺ کی حدیث معلوم ہوتی تو اس کے ساتھ فیصلہ کرتے۔ اگر حدیث بھی معلوم نہ ہوتی توباہرنکل کر مسلمانوں سے دریافت کرتے۔ دریافت کرنے سے بعض دفعہ کئی شخص ایسے مل جاتے جو رسول اللہﷺ کا  فیصلہ ذکرکرتے۔ حضرت ابو بکر صدیق﷜ کہتے اللہ کا شکر ہے کہ ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کورسول اللہ کےفیصلے محفوظ ہیں۔ اگر رسول اللہﷺ کی حدیث بھی نہ ملتی تو بڑے لوگوں کو اوران کے بہتر کو جمع کرکے مشورہ لیتے۔ پس جب کسی بات پر ان کی رائے متفق ہو جاتی تواس کے ساتھ فیصلہ کرتے۔

خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب﷜ کاطریق

وعن شريح أن عمر بن الخطاب رضی الله عنه کتب إليه أن جاء ک شيئ فی کتاب الله فاقض به ولايلتفت عنه الرجال فإن جاءک ماليس فی کتاب الله فانظر سنة رسول الله فاقض بها فإن جاءک ماليس فی کتاب الله ولم يکن فيه سنة رسو ل الله صلی الله عليه وسلم  فانظر ما اجتمع عليه الناس فخذبه وإن جاءک ماليس فی کتاب الله ولم يکن فيه سنة رسول الله صلی الله عليه وسلم  ولم يتکلم فی أحدقبلک فاختر أی الأمرين شئت إن شئت أن تتأخر فتأخر ولاأری التأخر إلا خيرا لک .

اورشریح سے روایت ہے کہ حضرت عمر﷜ نے میری طرف لکھا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے۔ جو کتاب اللہ میں ہو تو اس کے ساتھ فیصلہ کرو۔ اس سے تمہیں لوگ نہ پھیر دیں اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول اللہﷺ کو دیکھو اوراس کے ساتھ فیصلہ کرو۔ اگر نہ کتا ب اللہ میں ہو۔ نہ اس میں سنتِ رسول اللہﷺ ہو تو جس بات پرلوگوں کا اجتماع ہو اس کو لو۔ اگر نہ کتاب اللہ میں ہو نہ اس میں سنت رسول اللہﷺ ہو نہ تجھ سے پہلے اس میں کسی نے کلام کی ہو۔ تو دو باتوں سے جونسی بات چاہو اختیارکرو۔ اگر اپنی رائے کی ساتھ اجتہاد کرکے آگے بڑھنا چاہو تو آگے بڑھو۔ اگر پیچھے ہٹنا چاہو تو پیچھے ہٹنا میں تمہارے لیے بہتر دیکھتا ہوں۔

عبد اللہ بن مسعود﷜ کا طریق

وعن عبد الله بن مسعود قال أتی علينا زمان لسنا نقضی ولسنا هنالک وإ ن الله  قدر من الأمر أن قد بلغنا ما ترون فمن عرض له قضاء بعد اليوم فليقض فيه بما فی کتاب الله عزوجل فإن جاءہ ماليس فی کتاب الله فليقض  بما قضی به رسول الله صلی الله عليه وسلم  فإن جاءہ  ماليس فی کتاب الله ولم يقض به رسول الله صلی الله عليه وسلم  فليقض بما قضی به الصالحون ولايقل إنی أخال وإنی أری.

اور عبد اللہ بن مسعود﷜ سے روایت ہے۔ کہ ہم پر ایک زمانہ آیا تھا کہ نہ ہم فیصلہ کرتے تھے نہ فیصلہ کرنے کےلائق تھے۔ اورتقدیر الٰہی میں یہ تھا کہ ہم اس مرتبہ کوپہنچیں جو تم دیکھ رہے ہو۔ پس جس کو آج کے بعد کوئی ایسا فیصلہ پیش آ جائے۔ جو کتاب اللہ میں ہو تو اس کے ساتھ فیصلہ کرے اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو رسول اللہ کے فیصلہ کے ساتھ فیصلہ کرے۔ اگر نہ کتاب اللہ میں ہو نہ رسول اللہﷺ نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا ہو۔ تو نیک لوگوں کے فیصلے کے ساتھ فیصلہ کرے اور یوں نہ کہے کہ میرا خیال اس طرح ہے اورمیری رائے یہ ہے۔

ابن عباس﷜ کاطریق

وکان ابن عباس إذاسئل عن الأمر فی القرآن أخبر به وإن لم يکن فی القرآن وکان عن رسول الله صلی الله عليه وسلم  أخبر به فإن لم يکن فعن ابی بکر وعمر  رضی الله عنهما فإن لم يکن قال فيه برأيه .( انتهي ملخصاً)

ابن عباس﷜ جب کوئی مسئلہ پوچھے جاتے۔ جو قرآن مجید میں ہوتا تو اس کے ساتھ خبر دیتے اگر قرآن میں نہ ہوتا اوررسول اللہﷺ سے ہوتا تواس کےساتھ خبر دیتے۔ اگر رسول اللہﷺ سے بھی نہ ہوتا توابوبکر﷜  اور عمر﷜

حاشیہ 

(عبد اللہ بن عباس﷜ کا حضرت ابوبکر﷜ کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم سمجھنا اس کی وجہ شاید یہ حدیث ہوگی ’’اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکروعمر‘‘ یعنی میرے بعد دو شخصوں کی اقتدا کرو یعنی  ابوبکر﷜ اور عمر﷜ کی ۔ پھر ا ن کی رائے کو مقدم کرنا۔ اس میں دواحتمال ہیں ایک یہ کہ جس بات پر ابو بکر﷜ اور عمر﷜ دونوں متفق ہوں۔ اس کو اپنی رائے پر مقدم کرتے تھے۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ مل جائے جس میں صرف ایک کی رائے معلوم ہو۔ دوسرے کی معلوم نہ ہو اوراس وقت ابن عباس﷜ نے اس کی پابندی نہ کی ہو۔ تو پہلا احتمال صحیح ہوگا ، دوسرا غلط ۔ اگر ایسا مسئلہ نہ ملے تو دونوں احتمال صحیح ہوسکتے ہیں اورممکن ہے کہ ابن عباس﷜ حضرت ابوبکر﷜ اورحضرت عمر﷜ کی رائے کو اپنی رائے پر اس لیے مقدم سمجھتے ہوں کہ  ابن عباس﷜ بچے تھے۔ ہجرت سے کل دوسال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ تو جو احاطہ آپ کے حالات کا حضرت ابوبکر﷜ اور عمر﷜ کو تھا وہ ابن عباس﷜ کو نہ تھا۔ فافھم ۔ 12)

سے خبر دیتے اگر ان سے بھی  نہ ہوتا تواپنی رائے سے کہتے۔

مقلد جاہل ہوتا ہے

علامہ شوکانی رحمہ اللہ القول المفید میں فرماتےہیں :

قال سند بن عنان المالکی فی شرحه علی مدونة سحنون المعروفة بالأم ما لفظه :

أما مجر د الاقتصار علی محض التقليد فلا يرضي ٰبه رجل رشيد وقال ايضا نفس المقلد ليس علی بصيرة ولا يتصف من العلم بحقيقة إذ ليس التقليد بطريق إلی العلم بوفاق أهل العلم  وإن نزعنا فی ذلک  أبدينا برهانه فنقول قال الله تعالیٰ:

فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ (ص26)

وقال:

بِمَا أَرَ‌اكَ اللَّـهُ(النساء105)

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی إسرائيل 36)

وقال :

وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرۃ 169)

ومعلوم أن العلم ومعرفة المعلو م علی ما هو به فنقول للمقلد إذا اختلفت الأقوال وتشعبت من أين تعلم صحة قول من قلدته دون غيرہ أوصحة قربة علی قربة أخری ولا يبدر کلاما فی ذلک إلا انعکس عليه فی نقيضه سيما إذا  عرض له ذلک فی مزية لامام مذهبه الذی قلدہ اورقربة يخالفها لبعض أئمة الصحابة إلی أن قال أما  التقليد فهول قبول قول الغير من غیر حجۃ فمن أین یحصل بہ علم  ولیس لہ مستند إلی قطع .

یعنی محض تقلید پر کفایت کرنا اس کو تو کوئی دانا پسند نہیں کرتا اورمقلد بینائی پر نہیں اورنہ مقلد حقیقت میں علم سے موصوف ہوسکتا ہے۔ کیونکہ تقلید بالاتفاق علم کا راستہ نہیں۔ اگر کوئی دلیل مانگے تو ہم کہیں گے اللہ تعالٰی فرماتا ہے حق کے ساتھ فیصلہ کرواورفرماتا ہے اس شیئ کے ساتھ فیصلہ کرو جو اللہ تیری رائے میں ڈالے اورفرماتا ہے اللہ پر وہ بات نہ کہو جو تم نہیں جانتے اور یہ بات ظاہر ہے کہ علم معرفتِ معلوم کا نام ہے۔ اس حال پر جس حال پر وہ ہو۔ پس ہم مقلد کو کہتے ہیں جب اختلاف ہو جائے تو تجھے اپنےامام کے قول کی صحت اور ایک عبادت کی دوسری عبادت پر ترجیح کس طرح معلوم ہے۔ مقلد آگے سے جواب میں جوکچھ کہے گا وہ اسی پر لوٹ جائے گا۔ ( کیونکہ جب وہ دلیل دے گا تواس کو کہا جائے گا کہ جس کے اندر استدلال کا مادہ ہوتا ہے وہ مقلد نہیں ہوسکتا۔ پس تیرا تقلید پر استدلال کرنا ہی تیرے دعوی کو توڑ رہا ہے) خصوصاً جبکہ ایسی گفتگو مقلد کے امام کی کسی فضیلت میں شروع ہوجائے۔ (کیونکہ کسی امام کی فضیلت بحیثیت مجتہد ہونے کے مجتہد ہی معلوم کرسکتا ہے۔ مقلد کوکیا معلوم کہ میرا امام اجتہاد میں زیادہ تھا یا کوئی اور) یا کسی عبادت میں گفتگو شروع ہوجائے۔ جوبعض ائمۂ صحابہ رضی اللہ عنھم اس کے مخالف ہوں۔ ( کیونکہ عبادات کامعاملہ ذرا نازک ہے تو مقلد اس میں نہایت بعید ہے) بہر حال تقلید کہتے ہیں ’’ کسی کا قول بغیر دلیل کےلینا ‘‘ پس تقلید علم کا ذریعہ کس طر ح بن سکتی ہے۔ (اگر علم ہوتا تو تقلید کی ضرورت ہی نہ ہوتی) اورنہ تقلید کا اعتماد قطع پر ہے بلکہ شبہ پر ہے۔

تقلید بدعت ہے

وہو ایضا فی نفسہ بدعۃ محدثۃ لانا نعلم بالقطع أن الصحابۃ رضوان اللہ علیہم  لم یکن فی زمانہم وعصرہم مذہب لرجل معین یدرک أو یقلد وإنما کانوا یرجعون فی النوازل إلی الکتاب والسنۃ أو إلی ما یتحض بینہم من النظر عند فقد اللیل.

اور تقلید فی نفسہ بھی بدعت ہے ، محدث ہے۔ کیونکہ ہم قطعاً جانتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں کسی شخص کا مذہب معین نہیں تھا۔ جو اس کو حاصل کیا جائے یا اس کی تقلید کی جائے اور سوائے اس کے نہیں کہ حادثوں میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے تھے جبکہ کتاب وسنت میں دلیل نہ ملتی۔

تابعین کا طریق

وکذلک تابعوھم ایضا یرجعون إلی الکتاب والسنۃ فإن لم یجدوا نظر وا ما أجمع علیہ والصحابۃ فإں لم یجدوا اجتہدوا  واختار بعضہم قول صحابی فراٰہ الأقوی فی دین اللہ تعاٰلی.

اور اسی طرح تابعین کی حالت تھی۔ وہ بھی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے تھے۔ پس اگر کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ پاتے تواس بات کو دیکھتے جس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ اگر اجماع بھی نہ پاتے تو اپنے طور پر اجتہاد کرتے۔ اور بعض ان کے صحابی کے قول کو لیتے۔ پس اس کو اللہ کے دین میں اقوی  سمجھتے۔

ائمۂ اربعہ کا طریق

ثم کان القرن الثالث وفیہ کان ابو حنیفۃ ومالک والشافعی وابن حنبل فإن مالکا توفی سنۃ تسع وسبعین ومائۃ وتوفی ابوحنیفۃ سنۃ خمسین ومائۃ وفی ہذہ السنۃ ولد الإمام الشافعی وولد ابن حنبل سنۃ أربع وستین ومائۃ وکانوا علی منہاج من مضی لم یکن فی عصرھم مذہب رجل  معین یتدارسونہ وعلی قریب منہم کان أتباعھم فکم من قولۃ لمالک ونظرائہ خالفہ فیھا أصحابہ ولونقلنا لک ذلک لخرجنا عن مقصود ذلک الکتاب ماذاک  إلا لجمعہم اٰلات الاجتہاد وقدرتہم علی ضروب الاستنباطات ..ولقد صدق اللہ نبیہ فی قولہ خیر القرونہ قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ذکر بعد قرنہ قرنین والحدیث فی صحیح البخاری .

پھر تیسرا قرن ہوا اوراس میں ائمۂ اربعہ تھے۔ کیونکہ امام مالک﷫؁179 ھ میں فوت ہوئے اورامام ابو حنیفہ ﷫؁150 ھ میں فوت ہوئے اوراسی ؁150ھ میں امام شافعی پیدا ہوئے اورامام احمد﷫ ؁164ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ سب گذشتہ لوگوں کے طریق پر تھے ان کے زمانہ میں کسی شخص کا مذہب معین نہ تھا جس کا درس ہو اور ان کے اتباع بھی انہی کے قریب تھے۔ امام مالک﷫ کے بہت سارے اقوال اوراجتہادات ایسے ہیں جن میں ان کے اصحاب مخالف ہیں اگر ہم سب اقوال نقل کریں تو کتاب کے اصل مقصد سے نکل جائیں۔ اس کا سبب یہی تھا کہ ان کو اسباب اجتہاد حاصل تھے اوراستنباط کی قسموں پر قادر تھے (جو لوگ اماموں کے اصحاب کو اماموں کے مقلد کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں اوراللہ تعالٰی  نے اپنے نبیﷺ کواس قول میں سچا کردیا کہ بہتر زمانہ میرا ہے پھر جو ان کے نزدیک ہیں پھر جو ان کے نزدیک ہیں۔ اپنے زمانہ کے بعد دوزمانوں کا ذکر کیا اوریہ حدیث صحیح بخاری میں ہے۔

اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنھم

فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ص630 میں ہے :

أجمع الصحابۃ علی أن من استفتی أبابکر وعمر أمیری المؤمنین فلہ أن یستفتی أباہریرۃ ومعاذ بن جبل وغیرہما ویعمل  بقولھم من غیر نکیر .

صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص ابوبکر﷜ اورعمر﷜ سے فتوی پوچھے وہ ابوہریرۃ﷜ اورمعاذ بن جبل﷜ اوران کے سوا اوروں سے بھی فتوی پوچھ کر عمل کرسکتا ہے۔ کسی کو اس سے انکار نہیں۔

شاہ ولی اللہ کا فیصلہ

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ صاحب انصاف کے ص59 میں لکھتے ہیں :

قال ابن الھمام فی آخر التحریر کانوایستفتون مرۃ واحد ا ومرۃ غیرہ غیرملتزمین مفتیا واحدا .

ابن ہمام فرماتے ہیں کہ کبھی کسی سے فتوی پوچھتے تھے کسی سے ایک مفتی کا التزام نہ تھا۔

تقلید چوتھی صدی کے بعد کی پیداوار ہے

شاہ ولی اللہ﷫ صاحب حجۃ اللہ البالغۃ میں لکھتے  ہیں :

اعلم أن الناس کانوا قبل المائة الرابعة غير مجتمعين علي التقليد الخالص لمذهب واحد بعينه قال ابوطالب المكي في قوت القلوب: إن الكتب والمجموعات محدثة والقول بمقالات الناس والفتيا بمذهب الواحد من الناس واتخاذ قوله والحكاية له من كل شيئ والتفقه علي مذهبه لم يكن الناس قديما علي ذلك في القرنين الأول والثاني أنتهي أقول وبعد القرنين حدث فيهم شيئ من التخريج غيرأن أهل المائة الرابعة لم يكونوا مجتمعين علي التقليد الخالص علي مذهب واحد والتفقه له والحكاية لقوله كما يظهر من التتبع بك كان فيهم العلماء والعامة وكان من خبر العامة أنهم كانوا في المسائل الإجماعية التي لا اختلاف فيهأ بين المسلمين أو جمهور المجتهدين لايقلدون إلا صاحب الشرع وكانوا يتعلمون صفة الوضوء والغسل الصلوة والزكوة ونحو ذلك من آياتهم أو معلمي بلدانهم فيمشون حسب ذلك وإذا وقعت لهم واقعة استفتوا فيها أي مفت وجدوا من غير تعيين مذهب.

جان لے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ مذہب معین کی تقلید خالص پر جمع نہ تھے۔ ابو طالب مکی﷫ قوت القلوب میں فرماتے ہیں: کہ کتب اور مجموعات (مذہبی) بدعت ہیں اور لوگوں کے اقوال کا قائل ہونا اورلوگوں سے ایک شخص کے مذہب پر فتوی دینا اوراس کےقول کولینا اور ہر مسئلہ میں اس کے قول کی حکایت کرنا اوراس کے مذہب کی فقہ حاصل کرنا قدیم زمانے کے لوگ اس پر نہ تھے۔ یعنی قرن اول وثانی میں انتہی۔ میں (شاہ ولی اللہ) کہتا ہوں کہ قرن اول اورثانی کے بعد ان میں کچھ تخریج (یعنی امام کے اقوال سے مسئلہ نکال کربتلانا یہ بات ان میں) قدرے پیدا ہوگئی۔ مگر پھر بھی چوتھی صدی کے لوگ اس مذہب کی تقلید خالص پر اور اس کے اندر فقاہت پیدا کرنے پر اوراسی مذہب کے قول کی حکایت کرنے پر جمع نہ تھے۔ جیسا جستجو سے ظاہر ہے بلکہ ان میں علماء بھی تھے۔ اورعوام بھی۔ عوام مسائلِ اتفاقیہ اورجمہوریہ میں سوا صاحب شرع کے کس کا پٹہ گلے میں نہیں ڈالتے تھے۔ وضو ، غسل ، نماز ، زکوۃ وغیرہ کا طریقہ اپنے ماں باپ سے یا اپنے شہروں کے معلموں سے سیکھتے اور جب کوئی واقعہ پیش آتا تو سوا تعیینِ مذہب کے جس مفتی سے اتفاق پڑتا مسئلہ پوچھ لیتے۔

اہل حدیث  کا مسلک

وکان من خبرالخاصۃانہ کان اہل الحدیث منہم یستغلون بالحدیث فیخلص الیہم من احادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم واثارالصحابۃ مالایحتاجون معہ الی شئی أخرفی المسئلۃ من حدیث مستفیض اوصحیح  قدعمل بہ بعض الفقہاء ولا عذرلتارک العمل بہ اواقوال متظاہرۃ لجمہورالصحابۃ والتابعین ممالایحسن مخالفتہا فان لم یجد فی المسئلۃ مایطمئن بہ قلبہ لتعارض النقل وعدم وضوح الترجیح ونحوذلک رجع الی کلام بعض من مضی من الفقہاء فان وجدقولین اختاراوثقہماسواء کان من اہل المدینۃ اومن اہل کوفۃ وکان اہل التخریج منہم یخرجون فیمالایجدونہ ...مصرحاویجتہدون فی المذہب وکان ہؤلاء ینسبون الی مذہب اصحابہم فیقال فلان شافعی وفلان حنفی وکان صاحب الحدیث ایضاقدینسب الی احدالمذاہب لکثرۃ موافقہ بہ کالنسائی والبیہقی ینسبان الی الشافعی فکان لایتولی القضاء ولاالافتاء الامجتہد ولایسمٰی الفقیہ الامجتہدثم بعدہذہ القرون کان ناس اخرون ذہبوایمیناوشمالاوحدث فیہم امورمنہاالجدل والخلاف فی علم الفقۃ(باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ وبعدہاص157۔158)

اورخواص لوگوں سے جو اہلحدیث تھے۔ وہ حدیث کے ساتھ مشغول رہتے۔ احادیث نبویہ اورآثارصحابہ ان کو اس قدرپہنچتے کہ کسی مسئلہ میں ان کو اور چیزکی احتیاج نہ رہتی۔ حدیث مشہور یا صحیح پہنچتی۔ جس پرفقہا(مجتہدین)سے کسی نے عمل کیا ہو اور اس کے تارک کے لیے کوئی عذر نہ رہا ہو یا جمہور صحابہ اور تابعین کے اقوال پہنچتے جوایک دوسرے کے مؤید ہیں جن کی مخالفت اچھی نہیں۔ اگرکسی مسئلہ میں تعارض نقل کی وجہ سے اور کسی جانب کو ترجیح نہ ہونے کی وجہ سے اطمینان قلب نہ ہوتا توفقہا متقدمین میں سے کسی کے اقوال کی طرف رجوع کرتے۔ پس اگردوقول ہوتے تو زیادہ پختہ قول کواختیارکرتے۔ خواہ مدینہ والوں کا ہویا کوفہ والوں کا۔ اوراہل تخریج (جوامام کےاقوال سے مسئلہ نکال کربتلائے)وہ جس مسئلہ  میں صریح قول نہ پاتے مذہب میں اجتہاد کرکے مسئلہ بتاتے اور یہ لوگ اپنے اماموں کے مذہب کی طرف نسبت کیے جاتے۔ مثلاً کہا جاتا کہ فلاں شافعی ہے اورفلاں حنفی ہے اورکبھی اہل حدیث کوبھی بہت مسائل میں کسی مذہب کے موافق ہونے کی وجہ سے اس مذہب کی طرف نسبت کرتے۔ جیسے نسائی اور بیہقی شافعی کی طرف نسبت کیے جاتے ہیں۔ پس اس وقت قاضی اور مفتی مجتہد ہی ہوتا تھا۔ اور مجتہد ہی کا نام فقیہ رکھتے تھے۔ پھر ان زمانوں کے بعد اورلوگ پیدا ہوگئے۔ جو دائیں بائیں جانے لگے اورکئی اموران میں نئے پیدا ہوگئے۔ جن سے جھگڑا اورخلاف بھی ہے جوعلم فقہ میں ہے۔

حدیث کے مقابلہ میں مفتی کے قول یافتویٰ کی کوئی اہمیت نہیں

چونکہ یہ بات (یعنی خیر قرون کا طریق)بھی مسلّم  ہے۔ اس لیے انہی تین چارحوالوں پراکتفا کرکے یہ بتلاتے ہیں۔ کہ حدیث رسول کے  مقابلے میں کسی مفتی کے فتویٰ یا کسی کے قول کی رعایت ہوتی تھی یا نہ۔

وقدتواترعن الصحابۃ والتابعین انہم کانواذابلغہم الحدیث یعلمون بہ من غیران یلاحظواشرطا۔

صحابہ اور تابعین سے یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ان کوحدیث پہنچی تواس پرعمل کرتے بغیر اس کے کہ کسی شرط کی رعایت کریں۔

دارمی کے ص44میں ہے:

قال ابن عباس اماتخافون ان تعذبواویخسف بکم ان تقولواقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال فلان

یعنی ابن عباس﷜ فرماتے ہیں کہ تم ڈرتے نہیں کہ عذاب کیے جاؤ یا زمین میں دھنسائے جاؤ: اس بات پرکہ تم کہتے ہورسولﷺ نے کہا اور فلاں نے کہا یعنی رسول اللہﷺ کے بالمقابل فلاں کا ذکرکرتے ہو۔

حدیث کے مقابلہ میں ابوبکر﷜ اورعمر﷜ کی رائے پرعمل کرنا ہلاکت کا سبب ہے

تذکرۃ الحفاظ جلد3ص 53 میں محمدبن عبدالملک کے ترجمہ میں ہے۔

عن ابن عباس قال تمتع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال عروۃ نہی ابوبکروعمر عن المتعۃ فقال ابن عباس ماتقول عروۃ قال نہی ابوبکروعمرفقال اراہم سیہلکون اقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلعم ویقولون قال ابوبکروعمرقال ابن حزم انہالعظیمۃ مارضی بہاقط ابوبکروعمررضی اللہ عنہما

یعنی ابن عباس﷜ نے کہا ہے کہ رسول اللہ نے تمتع کیا عروہ نے کہا ابوبکر﷜ اورعمر﷜ نے تمتع سے منع کیا۔ ابن عباس﷜ نے کہا کہ اے عروہ توکیا کہتا ہے؟ کہا ابوبکر﷜ اورعمر﷜ نے منع کیا ابن عباس﷜ نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ عنقریب ہلاک ہوجائیں گے میں کہتا ہوں رسول اللہ نے کہا اور یہ کہتے ہیں۔ ابوبکر﷜ اورعمر﷜ نے کہا ابن حزم کہتے ہیں یہ بہت بڑی بات ہے حضرت ابوبکر﷜ اورحضرت عمر﷜ کبھی اس کوپسند نہ کرتے۔

عبداللہ بن عمر﷜ عنہ کی غیرت

ترمذی طبع مجتبائی کے ص 101میں ہے:

عن ابن شہاب ان سالم بن عبداللہ حدثہ انہ سمع رجلامن اہل الشام وہویسال عبداللہ بن عمر عن التمتع بالعمرۃ الی الحج فقال عبداللہ بن عمر ہی حلال فقال الشامی ان اباک  قدنہی عنہا فقال عبداللہ بن عمرارایت ان کان ابی نہی عنہا وضعہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امرابی یتبع ام امررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال الرجل بل امررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لقدصنعہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سالم بن عبداللہ نے ایک شخص کو اہل شام سے سنا کہ عبداللہ بن عمر سے تمتع کی بابت سوال کرتا ہے۔ عبداللہ بن عمرنے کہا حلال ہے سائل نےکہا تیرے باپ (عمر)نے تو اس سے منع کیا۔ عبداللہ بن عمرنے کہا بھلا یہ بتلا کہ میرے باپ نے اس سے روکا ہو اور رسول اللہﷺ نے کیا ہو۔ تو کیا میرے باپ کا حکم مانا جائے گا یارسول اللہﷺ کا۔ سائل نے کہا کہ رسول اللہﷺ کا عبداللہ بن عمر نے کہا۔ بس پھررسول اللہﷺ نے اس کوکیا ہے۔ نیزترمذی طبع مجتبائی کےص 110میں ہے۔

سمعت اباالسائب یقول کناعندوکیع فقال الرجل ممن ینظرفی الرائی اشعررسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقول ابوحنیفۃ ہومثلۃ قال الرجل فانہ قدوری عن ابراہیم النخعی انہ قال الاشعارمثلہ قال فرایت وکیعاغضب غضباشدیداوقال اقول لک قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتقول قال ابراہیم مااحقک ان تجس ثم لاتحرج حتی تنزع عن قولک ہذا۔

میں نےابوسائب سے سنا کہتےتھے۔ کہ ہم وکیع کے پاس تھے وکیع نے ایک شخص اہل رائے کوکہا کہ رسول اللہﷺ نےاشعارکیا ہے۔ اورابوحنیفہ نے کہا ہےکہ یہ مثلہ ہے۔ اس شخص نے کہا ابراہیم نخعی نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ وکیع بڑے جوش میں آگئےاور فرمایا کہ میں کہتا ہوں رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ توکہتا ہے ابراہیم نے کہا کس قدرلائق ہے کہ توقید کیا جائے۔ پھرقید سے نہ نکالاجائے یہاں تک کہ اس بات سے توبہ کرلے۔

مسلم جلداول طبع انصاری ص48میں ہے۔

ان ابوقتادۃ حدث قال کناعندعمران بن حصین فی رہط مناوفینابشیربن کعب فحدثناعمران یومئذقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحیاء خیرکلہ اوقال الحیاء کلہ خیرفقال بشیربن کعب اناالنجدفی بعض الکتب اوالحکمۃ ان منہ سکینۃ ووقارًا للہ ومنہ ضعف قال فغضب عمران حتی احمرتاعیناہ وقافل الااریٰ احدثک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتعارض فیہ قال فاعادعمران الحدیث قال فاعادبشیرفغضب فمازلنانقول انہ منایاابانجیذانہ لاباس بہ

یعنی ابوقتادہ کہتے ہیں۔ کہ ہم عمران بن حصین کے پاس تھے ایک جماعت میں اورہم میں بشیربن کعب بھی تھا۔ پس عمران نے حدیث سنائی کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا ہے۔ کہ حیا سب خیر ہے بشیرنے کہا ہم بعض کتابوں یا حکمت میں پاتے ہیں کہ بعض حیاء اطمینان اوراللہ کے لیے عزت ہے اور بعض حیاء ضغف ہے۔ عمران غضب میں آگئے یہاں تک کہ آنکھیں سرخ ہوگئیں اورفرمایا کہ میں رسول کی حدیث سناتا ہوں اورتو اس کا معارضہ کرتا ہے۔ پھرحدیث کولوٹایا بشیر نے بھی اپنےکلام کولوٹا یا عمران زیادہ غضب میں آگئے۔ ہم ان کا غضب کم کرنے کے لیے یہی کہتے رہے کہ بشیر ہم سے ہے اس کے ساتھ ڈر نہیں۔ یعنی یہ منافق یا بدعتی نہیں ۔(حوالہ)

اس قسم کے تشدّدات سلف کے حدیث کی بابت بہت تھے۔ دیکھئے ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر نےعورتوں کے مسجد میں جانے کی بابت حدیث سنائی۔ توان کے بیٹے نے کہا وہ بہانہ بنالیتی ہیں ہم تو روکیں گے۔ بس اتنی بات پرایسے سخت ناراض ہوئے کہ مرتے دم تک اس سے کلام نہیں کی۔ کیونکہ ایمان کا تقاضا یہ نہیں کہ حدیث کے سامنے انسان چون وچرا کرے یا کسی کے قول اورفتویٰ کی رعایت رکھے۔ اسی واسطے امام مالک کہتے ہیں ایسا کوئی شخص نہیں جس کی ساری باتیں لی جائیں۔ مگرصاحب اس قبرکا یعنی رسول اللہﷺ ہاں اگرقرآن وحدیث سے واقف نہ ہو تو کسی سے پوچھ لے۔ لیکن التزام ایک کا نہ کرے۔ بلکہ جس سے اتفاق پڑے پوچھ لے اورپوچھے بھی یوں کہ اس مسئلہ میں خدا رسول کا کیا حکم ہے۔ نہ یوں کہ فلاں امام کا کیا مذہب ہے۔ کیونکہ صحابہ کے زمانہ میں ایک مذہب کا التزام نہ تھا نہ کوئی یہ خیال رکھتا تھا نہ قرآن وحدیث میں ایک کی تعیین کی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے مطلق فرمایا

’’فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ‘‘(سورۃ الانبیاء:7)

یعنی اگرتمہیں علم نہ ہوتوعلم والوں سے پوچھ لو۔ اوررسول اللہﷺ فرماتے ہیں ۔

انماشفاء العی السوال (مشکوۃ باب التیمم)

یعنی جہالت کی شفاء پوچھنا ہے ایک مذہب کی تعیین کرنا اس آیت وحدیث کےخلاف ہے۔ کیونکہ نہ اللہ تعالیٰ نے ایک کی تعیین کی ہے نہ رسول اللہﷺ نے۔ بلکہ آیت وحدیث میں مطلق ہے تو اب کسی دوسرے کوکیا اختیار ہے کہ وہ تعیین کرے۔

خلاصہ

خلاصہ یہ کہ ٹھیٹھ اسلام میں تین باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن وحدیث کا صاف فیصلہ ہوتے ہو ئے کسی کے قول یا فتوی کی رعایت نہ رکھے۔ دوسری یہ کہ اگرکسی مسئلہ میں قرآن وحدیث سے فیصلہ نہ ملے تو وہاں پہلے لوگوں کے فیصلہ کو اپنی رائے پر مقدم کرے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگرخود قرآن وحدیث سے واقف نہ ہو تو بغیرالتزام تعیین مذہب کے کسی سے مسئلہ قرآن وحدیث کا پوچھ لے۔ بس یہی ٹھیٹھ اسلام ہے اوریہی رسول اللہﷺ اللہ کی طرف سے لیکرآئے تھے۔ اوراسی پرصحابہ کوچھوڑکر رخصت ہوئے اب جتنا کوئی ...اس روش سے ہٹے گا۔ اتنا ہی حق سے دورہوگا اورجتنا اس سے نزدیک ہوگا اتناہی حق سے نزدیک ہوگا۔

مسلک اہل حدیث اور ٹھیٹھ اسلام میں کوئی فرق نہیں

اب ہم بتلاتے ہیں کہ وہ کونسا فرقہ ہے جو اس روش پرقائم ہے اس کے بتلانے کی ضرورت تو نہ تھی۔ کیونکہ ہرایک کا طرزعمل ہی اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ میں اس روش سے کتنا دورہوں اورکتنا نزدیک ہوں۔ لیکن جس فرقہ کوہم اس روش پربتلانا چاہتے ہیں۔ اس کے طرزعمل پر چونکہ غورنہیں کیاجاتا اور دور دور ہی سے ان کولامذہب اورائمہ دین کے حق میں بے ادب اورگستاخ کہہ کرکوسا جاتا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کا طرز عمل تحریرمیں لائیں۔ تاکہ کسی بھولے بھٹکے کو اس تحریر کے دیکھنے کا اتفاق ہو توشاید برا کہنے سے بازآجائے۔ اوراگرزیادہ اس کی خوش قسمتی ہوتو یہی طرزعمل اختیارکرے۔ اگرچہ اس طرز عمل کا کچھ ذکر حجتہ اللہ کی عبادت میں ص 62پربھی گزرچکا ہے۔ لیکن یہاں قدرے تفصیل مطلوب ہے پس سنیئے۔

شاہ ولی اللہ صاحب انصاف کے ص36لغایت ص38پراہل حدیث کا طرزعمل بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس کاترجمہ یہ ہے کہ :

اہل حدیث کی یہ رائے نہ ہوئی کہ پہلے لوگوں میں سے کسی ایک کی تقلید کریں- کیونکہ وہ دیکھتے کہ پہلے لوگوں میں سے ہرایک کے مذہب کے خلاف کئی احادیث اورآثار ہیں( تواگرایک کی تقلید کرتے تو ان احادیث اورآثارکوچھوڑنا پڑتا حالانکہ طالب حق ایسا نہیں کرسکتا) پس انہوں نے ایسے چند قواعد کے ساتھ احادیث اور آثارصحابہ وتابعین ومجتہدین کی جستجواختیارکی- جوانہوں نے اپنے دلوں میں محکم کر رکھے تھے میں ان قواعد کومختصرعبارت میں تیرے لیے بیان کرتا ہوں (وہ یہ ہے )جب کوئی مسئلہ قرآن میں صراحتہً ہوتا توپھرکسی اورطرف نہ جاتے۔ جب قرآن میں کئی معنوں کا احتمال ہوتا توحدیث فیصلہ کرنے والی ہوتی۔ پس جب کتاب اللہ میں کوئی مسئلہ نہ پاتے توحدیث کولیتے خواہ وہ حدیث فقہاء میں مشہورہو یا ایک شہروالوں نے یا ایک گھروالوں نے روایت کی ہو یا صرف ایک ہی سند سے مروی ہو۔ اورخواہ صحابہ یا فقہاء نے اس پرعمل کیا ہو یا نہ اورجب کسی مسئلہ میں حدیث ہوتی تو پھراس مسئلہ میں اس حدیث کے خلاف کسی کے قول یا اجتہاد کی تلاش نہ کرتے اور جب کسی مسئلہ میں باوجود پوری تلاش کے کوئی حدیث نہ پاتے توجماعت صحابہ کے اقوال اورجماعت تابعین کے اقوال لیتے۔ لیکن ان میں سے کسی ایک قوم کے پابند نہ رہتے۔ جیسے ان سے پہلے لوگ کرتے تھے۔ پس جس مسئلہ پرجمہورعلماء اورفقہاء متفق ہوتے اسی کی اتباع کرتے اورجس مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو خلفاء اورفقہاء میں سے جو زیادہ عالم اورپرہیزگارہوتا اس کی حدیث کولیتے یا اس کی حدیث لیتے۔ جو حدیث میں ان کے نزدیک زیادہ ضبط والا یا زیادہ مشہور ہوتا۔ پس اگرکوئی ایسا مسئلہ ہوتا جس میں دو قول برابرہوتے (یعنی دلیل کی روسے ایک دوسرے پرترجیح نہ ہوتی ) تووہ مسئلہ دو قول والاہوتا۔ پس اگراقوال صحابہ وتابعین سے بھی عاجز ہوجاتے (یعنی کسی کو قول نہ پاتے) تو قرآن وحدیث کے عمومات اوراشارات میں اوران معانی میں جن کوعبارت چاہتی ہے غورکرتے(یعنی قرآن وحدیث میں اجتہاد) اورایک مسئلہ کو دوسرے پرحمل کرتے ، جبکہ دونوں مسئلے سرسری نظرسے ایک دوسرے کے قریب ہوتے (یعنی آپس میں بہت مشابہ ہوتے) اور(دوسرے فقہاء کی طرح) اصول کے (مقررہ) قواعد پراعتماد نہ رکھتے بلکہ جوفہم کی طرف پہنچتا اورجس سے سینہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے(یعنی دل تسلی پکڑتا ہے) اس پراعتماد کرتے۔ جیسے کہ تواتر کے لیے کوئی عدد مقرر نہیں۔ نہ نقل کرنے والوں کے اوصاف کا اعتبار ہے۔ بلکہ جتنے عدد سے  یقین ہوجائے (خواہ عدد تھوڑا ہو یا بہت اورنقل کرنے والے عادل ہوں یا غیرعادل) جیسا کہ صحابہ کے حال میں ہم نے اس پرآگاہ کیا ہے (یعنی جیسے صحابہ کی بھی بالکل یہی حالت تھی کہ ان کا مقررہ قواعد پراعتماد نہ تھا بلکہ جس طرح دل کی تسلی ہوتی اس پراعتماد کرتے) اور یہ اصول اہلحدیث کے پہلے لوگوں (یعنی سلف) کے طرز عمل اوران کی تصریحات سے لیے گئے۔ (چنانچہ سلف کے طرز عمل کی تفصیل ہوچکی ہے)

اہل حدیث پرطعن دراصل صحابہ پرطعن ہے

ناظرین!اہل حدیث کے اس طرز عمل کا مقابلہ صحابہ کی روش سے کرکے بتلائیں۔ کہ اہل حدیث کیسے صحابہ کے قدم بقدم ہیں۔ حریفوں پربڑا افسوس ہے کہ وہ اہل حدیث پرطعن کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ ہم درحقیقت صحابہ پرطعن کررہے ہیں۔ ہاں اگرصحابہ کی روش کسی کو پسندنہ ہو تو اس کی مرضی وہ جتنا چاہے طعن کرے۔ ایسے طعن کرنے والے پرکچھ افسوس نہیں کیونکہ وہ تو اپنے اسلام ہی کی خیرمنائے بیٹھا ہے۔ لیکن جوصحابہ کواچھاکہتا ہے وہ خدا جانے کیوں طعن کرتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتاکہ

            بربزرگاں سخن بسوئے خوداست          تف  بسوئے فلک بروئے خوداست

طائفہ منصورہ اہل حدیث ہیں

اورسب سے بڑھ کراس شخص پرافسوس ہے جومذہب اہلحدیث کونیا سمجھتا ہے۔ حالانکہ جوطرزعمل سلف کے موافق ہواورعین ٹھیٹھ اسلام ہواس کے نیا ہونیکی کوئی صورت ہی نہیں۔ خصوصاً جبکہ حدیث لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق کےمصداق بھی اہلحدیث ہی ہوں اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے ایک فرقہ کے ہمیشہ حق پر رہنے کی پشین گوئی فرمائی ہے۔

امام بخاری﷫ کی شہادت

امام بخاری کہتے ہیں اس سے مراد اہل علم یعنی اہلحدیث ہیں۔ کیونکہ محدثین کے نزدیک اصل علم حدیث کا علم ہے۔ اسی لیے امام بخاری نے اپنے استاد علی بن مدینی سے نقل کیا ہے۔ ہم اصحاب الحدیث یعنی اس سے مراد اہل حدیث ہیں۔

امام احمدکی شہادت

امام احمدکہتے ہیں کہ

ان لم یکونوااہل الحدیث فلاادری من ہم

یعنی اگراس سے مراد اہلحدیث نہ ہوں تو پھرمیں نہیں جانتا کہ کون ہیں۔ ملاحظہ ہوفتح الباری جز29ص 671

اکابراہل حدیث

اس کے علاوہ اور سنئیے شاہ ولی اللہ صاحب انصاف کے ص 35میں لکھتے ہیں

فکان رؤس ہؤلاء عبدالرحمن بن مہدی ویحیی بن سعیدالقطان ویزیدبن ہارون وعبدالرزاق وابوبکربن ابی شیبۃ ومسدوہنارواحمدبن حنبل واسحاق بن راہویہ والفضل بن دکین وعلی بن المدینی واقراہنم ۔

یعنی اہل حدیث کے بڑے یہ لوگ ہیں عبدالرحمن بن مہدی۔ یحیٰ بن سعید۔ قطان یزید بن ہارون۔ عبدالرزاق۔ ابوبکر بن ابی شیبہ۔ مسدد۔ ہناد۔ احمدبن حنبل۔ اسحق بن راہویہ۔ فضل بن دکین۔ علی بن مدینی اور ان کی مثل۔

بتلائیے ان لوگوں کا مذہب نیا تھا یا پرانا۔ اصل میں جن لوگوں نے مذہب اہل حدیث کونیا سمجھا ہے ان کومذہب ہندوستان سے دھوکا لگاہے۔ کیونکہ ہندوستان میں پچاس ساٹھ سال سے کچھ قبل مذہب اہلحدیث کا چنداں چرچا نہ تھا اس سے بعض کوتہ نظروں نے یہ سمجھ لیا کہ مذہب اہل حدیث کی عمر ہی کل پچاس ساٹھ سال کی ہے۔ ۔حالانکہ اس کی عمر سب مذاہب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ سب مذاہب سے پہلے موجود تھا۔ اورجب نئے مذاہب پیدا ہوگئے تو بھی ہرزمانہ میں موجودرہا۔ اورآئندہ بھی رہے گا۔ کیونکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔

لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق ۔ 

 

 

فتاویٰ ابن باز

جلد اول

تبصرے