سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(861) عشائے کے بعد واقعی چار رکعات کسی حدیث سے ثابت ہیں؟

  • 5229
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1204

سوال

(861) عشائے کے بعد واقعی چار رکعات کسی حدیث سے ثابت ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ ترجمہ فرما دیں:

(( حدثنی عمارۃ بن غزیۃ قال سمعت ابا النضر یقول سمعت عروۃ ابن الزبیر یقول قالت عائشۃ زوج النبی فقدت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وکان معی علی فراشی فوجدتہ ساجدا راصاً عقبیہ مستقبلا باطراف اصابعہ القبلۃ فسمعتہ یقول اعوذ برضاک من سخطک و بعفوک من عقوبتک و بک منک اثنی علیک لا ابلغ کل ما فیک فلما انصرف قال یا عائشۃ اخذک شیطانک فقالت امالک شیطان؟ قال ما من آدمی الا لہ شیطان فقلت و انت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال وانا لکنی دعوت اللہ علیہ فاسلم))       (صحیح ابن خزیمۃ جلد اوّل ص:۳۲۸)

۲۔ یہ ترجمہ فرما دیں:

(( قال معاذ بن جبل یا معشر العرب کیف تصنعوں بثلاث دنیا تقطع اعناقکم وزلۃ عالم و جدال منافق بالقرآن فسکتوا فقال اما العالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم و ان افتتن فلا تقطعوا منہ اناتکم فان المومن یفتتن ثم یتوب، و اما القرآن فلہ منار کمنار الطریق لا تخفی علی احد فما عرفتم منہ فلا تسالوا عنہ و ما شککتم فکلوہ الی عالمہ و اما الدنیا فمن جعل اللہ الغنی فی قلبہ فقد افلح ومن لا فلیس بنافعتہ دنیاہ))  (جامع بیان العلم و فضلہ ص:۲، ۱۱۱)

۳۔ اس کا ترجمہ فرما دیں اور یہ بتلا دیں یہ اصول درست ہے۔

(( لقولہ علیہ السلام لکم الاحادیث من بعدی فاذا روی لکم حدیث عنی فاضوہ علی کتاب اللہ تعالیٰ فما وافق فاقبلوہ و ما خالف فردوہ))(توضیح التلویح ص:۲۲۹قدیم)

۴۔ ((ولا بی حنیفۃؒ انہ علیہ السلام کان یصلی بعد العشاء أربعا ))

عشائے کے بعد واقعی چار رکعات کسی حدیث سے ثابت ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مجھے عمارہ بن غزیہ نے حدیث سنائی اس نے کہا میں نے ابو النضر سے سنا کہتے  میں نے عروہ بن زبیر سے سنا کہتے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ  رضی اللہ عنہما نے کہا میں نے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو گم پایا حالانکہ آپ میر ے ساتھ میرے بستر پر تھے تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سجدہ کی حالت میں اپنی ایڑیوں کو ملانے والے اپنی اُنگلیوں کو قبلہ کی طرف کرنے والے پایا تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سنا کہہ رہے تھے یا اللہ ! میں تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ مانگتا ہوں اور تیری معافی کے ساتھ تیری سزا سے اور تیرے ساتھ تجھ سے ۔ تجھ پر ثناء بھیجتا ہوں ہر جو کمال تجھ میں ہے اس کے بیان تک میں نہیں پہنچ سکتا۔ تو جب آپ صلی الله علیہ وسلم فارغ ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! تجھے تیرے شیطان نے پکڑ لیا ۔ تو اس نے کہا: آپ کے لیے بھی شیطان ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہر آدمی کے لیے شیطا ن ہے ۔ تو میں نے کہا: آپ  صلی الله علیہ وسلمکے لیے بھی اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم؟ فرمایا: ہاں! لیکن میں نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی ہے اس کے خلاف ۔تو میں سلامت رہتا ہوں۔

۲۔ معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عرب کی جماعت! تم تین چیزوں سے کیسا معاملہ کرو گے؟ دنیا جو تمہاری گردنیں توڑے گی ، عالم کی لغزش اور منافق کا قرآن کے ساتھ جدال و جھگڑا ۔ تو وہ خاموش ہو گئے تو انہوں نے فرمایا لیکن عالم اگر اس نے ہدایت پائی تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو اور اگر وہ فتنہ میں ڈال دیا گیا تو اس سے اپنی اُمید نہ توڑو کیونکہ مؤمن فتنہ میں ڈال دیا جاتا ہے پھر توبہ کر لیتا ہے۔ اور لیکن قرآن تو اس کے لیے منارو نشان ہے راستے کے منار و نشان کی طرح وہ کسی پر مخفی نہیں جو تم اس سے پہچانتے ہو تو اس سے سوال نہ کرو اور جس میں تمہیں شک ہو تو اس کو اس کے عالم کے سپرد کر دو۔ اور لیکن دنیا تو اللہ نے جس کے دل میں غنیٰ کو رکھ دیا بلاشبہ وہ کامیاب ہو گیا اور جس کے دل میں اللہ نے غنی کو نہ رکھا تو اس کو اس کی دنیا کوئی فائدہ و نفع دینے والی نہیں ہے ۔

۳۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے قول ’’ میرے بعد تمہیں مجھ سے بہت احادیث روایت کر کے سنائی جائیں گی تو جب میری طرف سے روایت کر کے تمہیں کوئی حدیث سنائی جائے تو اس کو اللہ کی کتاب پر پیش کرو تو جو موافق ہو قبول کر لو اور جو مخالف ہو اس کو رد کر دو۔[یہ روایت موضوع ہے قرآن مجید پر اس کو پیش کرو تو بھی رد و مردود ہی قرار پاتی ہے۔]

۴۔ ہاں واقعی ثابت ہے ۔ عبداللہ بن عباس  رضی الله عنہ کی حدیث بیتوتہ میں صحیح بخاری میں ایک مقام پر ان چار رکعات کا ذکر موجود ہے۔ 1واللہ اعلم                                                ۴، ۲، ۱۴۲۴ھ

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1  بخاری، کتاب العلم، باب السمر فی العلم۔

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 812

محدث فتویٰ

تبصرے