میری ایک بہو اپنی بہن کی بیٹی ہے اور دوسری بیگانی ،میں دونوں کو دل و جان سے ایک سا سمجھتی ہوں۔ میرے سلوک کی زیادہ حق دار میری بہن کی بیٹی ہے یا میری بہو حقدار ہے؟
رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان: ((ثُمَّ أَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ))2 کی رو سے بھانجی بہو صرف بہو سے حقوق میں فائق و مقدم ہے زیادہ حق رکھتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف بہو کی زندگی اجیرن بنا دی جائے اور اس کے حقوق تک نہ ادا کیے جائیں اور قطع رحمی تک نوبت پہنچا دی جائے ۔ ((فَأَعطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ)) [’’ہر حق دار کو ا س کا حق دے دو۔‘‘]کو ملحوظ رکھاجائے۔واللہ اعلم۔
[ایک آدمی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم1 میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ تمہاری ماں۔ پھر تمہاری ماں ، پھر تمہاری ماں ، پھر تمہارا باپ۔ پھر جو تمہارے سب سے زیادہ قریب ہو ، پھر جو تمہارے سب سے زیادہ قریب ہو۔‘‘]2
۱۵،۴،۱۴۲۴ھ
2 صحیح بخاری،کتاب الأداب،باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ ۔ صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب برالوالدین وأنھما أحق بہٖ۔