کیا اُمتی نبی صلی الله علیہ وسلم کو بھائی کہہ سکتا ہے؟ (قاری عبدالصمد بلوچ)
بھائی کہہ کر بلانا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {لَا تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا}[النور:۶۳] [’’تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔‘‘]رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی نفی کی صورت میں ان کے بھائی ہونے کا اعتقاد و عقیدہ رکھنا بھی درست نہیں کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم انسان ، عبداللہ بن عبدالمطلب کے بیٹے ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اور نبی بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {قُلْ یٰٓـأَیُّھَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا} [الاعراف:۱۵۸] [’’ کہہ دو اے لوگو1 میں رسول صلی الله علیہ وسلم ہوں اللہ کا تم سب کی طرف‘‘] نیز قرآن مجید میں ہے: {ھَلْ کُنْتُ إِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلًا}[الاسرائ:۹۳] [’’میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں۔‘‘] بلکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تو سید الانبیاء والمرسلین ہیں۔ والصلاۃ والسلام علیہم أجمعین۔ [(( عَنْ عُرْوَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم خَطَبَ عَائِشَۃَ اِلیٰ اَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَ لَہُ اَبُوْبَکْرٍ اِنَّمَا اَنَا اَخُوْکَ فَقَالَ اَنْتَ اَخِیْ فِی دِیْنِ اللّٰہِ وَکِتَابِہٖ وَھِیَ لِیْ حَلَالٌ۔))1
’’ عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو عائشہ کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو ابو بکر رضی اللہ عنہنے جواب دیا کہ میں تو آپ کا بھائی ہوں پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کے دین اور اس کی کتاب میں تیرا بھائی ہوں اور وہ میرے لیے حلال ہے۔‘‘]
[’’اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو ہم نے بھیجا۔‘‘ [ہود:۵۰]
’’اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔‘‘ [ھود:۶۱]
’’ اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔‘‘ [ھود:۸۴]
1 بخاری،کتاب النکاح،باب تزوج الصغار من الکبار۔