سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(804) مصافحہ کرتے ہوئے ہاتھ چومنا؟

  • 5172
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3521

سوال

(804) مصافحہ کرتے ہوئے ہاتھ چومنا؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے مصافحہ کرتے ہوئے ہاتھ چومنے سے منع کیا ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں حضرت انس  رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی جو ترمذی کی ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے صرف بوسہ لینے سے بلکہ التزام سے بھی اور اس کے علاوہ جھکنے سے بھی منع کیا ۔ میں تو الحمد للہ حدیث پڑھ کر مطمئن ہو گیا لیکن بریلوی بھائی نے مجھے یہودیوں کے بارہ میں بتایا کہ وہ ایک دفعہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کچھ سوالات کیے اور جوابات ملنے کے بعد انہوں نے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ بھی چومے بلکہ پاؤں بھی ۔ یہ بھی ترمذی کی حدیث ہے۔

          اس بریلوی کا کہنا ہے کہ اگر رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے منع کرنا ہوتا تو آپ اُن کو بھی منع کر دیتے کہ نہیں یہ چومنا اور جھکنا ہمارے دین میں جائز نہیں ہے یا یہ ہے کہ 1 ان میں کون سی حدیث پہلے کی ہے اور کونسی بعد کی ؟ یا کونسی 5 سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب کیف السلام۔

حدیث ضعیف ہے اور کونسی قوی؟کس کے اوپر عمل ہو سکتا ہے؟ معانقہ اور التزام میں کیا فرق ہے؟

                                                                                           (حافظ محمد فاروق تبسم )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے یہودیوں کے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلمکے ہاتھ پاؤں چومنے والی روایت کی طرف توجہ دلائی تو :

          اولًااس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اور کئی دیگر اہل علم نے صحیح قرار دیا جبکہ محدث وقت شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ مشکاۃ کی تحقیق و تعلیق میں لکھتے ہیں : ((وَفِیْ سَنَدِ الْحَدِیْثِ ضُعْفٌ)) پھر انہوں نے اس روایت کو صحیح ترمذی میں بھی درج نہیں فرمایا ، ضعیف ترمذی میں لکھا ہے۔

ثانیاً رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے فرمایا تھا:((فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ)) [’’میری پیروی سے تمہیں کیا چیز روکتی ہے۔‘‘]تو اس فرمان میں آپ  صلی الله علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو ان تمام اُمور سے منع فرما دیا جن اُمور میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت نہیں اور معلوم ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے بوقت ملاقات تقبیل و بوسہ سے منع فرما رکھا ہے تو ان یہودیوں کے تقبیل و بوسہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت نہیں نافرمانی ہے اس لیے ((فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ)) میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اس تقبیل و بوسہ سے بھی منع فرما دیا ، اب کے یہ کہنا ’’اگر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے منع کرنا ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو بھی منع کر دیتے…الخ‘‘ درست نہیں کیونکہ آپ  صلی الله علیہ وسلم  نے ان کو بھی منع فرما دیا تھا۔

ثالثاً بالفرض تسلیم کر لیا جائے کہ آپ  صلی الله علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو تقبیل و بوسہ سے منع نہیں فرمایا تھا تو بھی اس روایت سے تقبیل و بوسہ کے جواز پر استدلال درست نہیں کیونکہ وہ یہودی تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا سکوت اور منع نہ فرمانا تقریرو تصویب اس وقت قرار پاتا ہے جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے عمل و قول والا مسلم ہو جیسا کہ اُصول کی کتابوں میں وضاحت موجود ہے اور یہ جن سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے تقبیل و بوسہ کا فعل سر زد ہوا مسلم نہیں یہودی ہیں ، ان یہودیوں ہی نے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے فرمان:((فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ)) کے جواب میں کہا:((إِنَّ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ دَعَا رَبَّہٗ أَنْ لاَّ یَزَالَ مِنْ ذُرِّیَتِہٖ نَبِیٌّ)) [’’بے شک داؤد  علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ نبی رہے۔‘‘]1مگر رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ان کو ان کی اس بات سے منع نہیں فرمایا تو آیا یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تقریر و تصویب بنی؟ نہیں کیونکہ وہ یہودی تھے اور مسلم نہیں تھے۔

رابعاً روایت سے واضح ہے کہ تقبیل و بوسہ والے یہودی تھے تو اگر بالفرض اس کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی تقریر و تصویب قرار دینا ہی ہے تو اس سے اتنی بات نکلے گی کہ یہودیوں کو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا لہٰذا اگر کوئی یہودی تقبیل و بوسہ کا ارتکاب کرتا ہے تو کر لے مسلم یہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ انس  رضی اللہ عنہ والی روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے تقبیل و بوسہ کی بابت سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔1

۲۔معانقہ اور التزام میں فرق یہ ہے کہ معانقہ درست ہے اور التزام نا درست۔ کچھ لوگوں نے کہا تھا :((إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا)) تو ایک تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب و ردّ ارشاد فرمایا: {وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}                                                           ۲۸،۴،۱۴۲۱ھ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 جامع ترمذی،ابواب الاستئذان والادب،  باب ما جاء فی قبلۃ الید والرجل۔

2 جامع ترمذی،ابواب الاستیذان و الادب، باب ما جاء فی المصافحۃ۔

 

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 776

محدث فتویٰ

تبصرے