(۱)اگر کسی آدمی نے اپنی زندگی میں اپنے والدین کو پایا اور اُن کی خدمت پوری طرح سے نہ کر سکا یعنی کمی بیشی ہو گئی ہو تو اُن کے فوت ہونے پر پریشان ہوا کہ کاش! میں کوئی گستاخی نہ کرتا ، والدین کے فوت ہونے کے بعد وہ کون سا عمل کرے جس سے اُس کے والدین کو بھی فائدہ ہو اور اس آدمی کی غلطیوں کو معاف کر دیا جائے اور بخشش کا سبب بن سکے۔
(۲) حج کرنے سے کہتے ہیں سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں کبیرہ گناہ یا صغیرہ گناہ ، توبہ کرنے سے یا نہ کرنے سے ، حقوق اللہ یا حقوق العباد بھی۔ اس کی وضاحت کریں۔
(۳) سورۃ النساء کی آیت:۱۱۰ ترجمہ:’’ جس نے برائی کی یا اپنی جان پر ظلم کیا اور پھر بخشش یعنی استغفار کیا وہ اللہ تعالیٰ کو بخشنے والا پائے گا۔‘‘ حقوق العباد استغفار اور توبہ کرنے سے معاف ہو جائیں گے یا اس شخص کو بدلہ دیا جائے گا؟
(۴) بنی اسرائیل کے شخص کا واقعہ ۱۰۰ آدمیوں کو قتل کرنے والا حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے لیکن توبہ سے اس کی بخشش ہو گئی ، اس کی وضاحت کریں؟ (ڈاکٹر منظور احمد)
اپنے لیے اور والدین کے لیے استغفارو دعاء ، والدین کے دوست ، احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان و حسن سلوک سے پیش آنا ، صلہ رحمی سے کا م لینا ، والدین کی طرف سے صدقہ ، حج اور عمرہ کرنا اور والدین کے مواعید ، معاہدات اور جائز وصایا کو پورا کرنا۔
ایک آدمی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کوئی ایسی نیکی باقی ہے جو میں والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ کروں ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ان کے حق میں دعائے خیر کرنا اور ان کے لیے مغفرت مانگنا ان کے بعد ان کے ( کیے گئے) عہد کو پورا کرنا اور ان کے ان رشتوں کو جوڑنا جو انہی کی وجہ سے جوڑے جاتے ہیں اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا ۔1
معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے لیے ان کی زندگی کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اگر ان کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کرنا چاہے تو حدیث میں مذکور طریقے اختیار کیے جائیں ان طریقوں میں قرآن خوانی ، تیجہ ، ساتواں ، دسواں اور چہلم وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ، اس لیے ایصالِ ثواب کے یہ سارے طریقے غیر شرعی ہیں ان سے مُردوں یا زندوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے کیونکہ یہ کام حدیث میں والدین کے ساتھ نیکی شمارکیے گئے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کاموں سے اولاد کو والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا صلہ ملے گا اور والدین کے لیے بھی مغفرت اور رفع درجات کا باعث ہوں گے ، وفات کے بعد والدین کے حق میں دعائے خیر کی مقبولیت اس حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے ساتھ ہی عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے: صدقہ جاریہ کا ، ایسے علم کا جس سے لوگ فیض یاب ہو رہے ہوں ، نیک اولاد کی دعاؤں کا۔2
(۲)حج مبرور سے جس میں رفث و فسوق نہ ہو تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ حج مبرور کرنے والا مؤمن ہو کافر یا مشرک نہ ہو ، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہٗ )) 1[’’جو شخص اللہ کے لیے حج کرے پھر نہ کوئی گناہ کا کام اور فحش بات کرے تو وہ ایسا بے گناہ واپس ہو گا جیسے اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو۔‘‘](متفق علیہ)(۳)توبہ و استغفار کے ساتھ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والے ہوں خواہ حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے حتی کہ اکبر الکبائر کفر اور شرک بھی توبہ و استغفار کے ساتھ معاف ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاoیُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْفِیْہٖ مُھَانًاo إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئٰاتِھِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرً رَّحِیْمًا o}[الفرقان:۷۵] [’’اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کر رہے گا ۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لیے پڑا رہے گا۔ ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے۔ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘]نیزاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْآ إِنْ یَّنْتَھُوْا یُغْفَرْ لَھُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ} [الانفال:۳۸] [’’ان کافروں سے کہیے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘]بشرطیکہ توبہ واستغفار عند اللہ قبول ہو جائیں ، ہاں توبہ و استغفار کو حقوق العباد کے غصب کرنے کا حیلہ اور ذریعہ بنانا درست نہیں ، پوری کوشش کرے کہ دنیا میں حقوق العباد اد اکرکے اس دنیا سے رخصت ہو ، کسی بندے کا کوئی حق حتی الوسع اس کے ذمہ نہ رہے۔
(۴) ٹھیک ہے ، حقوق العباد کے زمرہ میں آتا ہے اور توبہ کرنے سے اس کا یہ جرم بھی معاف ہو گیا تھا۔ واللہ اعلم ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سنن ابی داؤد؍کتاب الأدب باب براء الوالدین اسے ابن حبان حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
2 صحیح مسلم ؍ کتاب الوصیۃ ؍ باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ۔
1 صحیح بخاری,کتاب الحج/باب فضل الحج المبرور۔ صحیح مسلم /کتاب الحج/باب فضل الحج والعمرۃ۔