سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) شیعہ عامی کا سوال

  • 510
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2983

سوال

(10) شیعہ عامی کا سوال

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحضور جناب علامہ صاحب قبلہ وکعبہ صاحب یا علی مدد سلام علیکم کے بعد گزارش ہے کہ ایک مسئلہ کی تحقیق چار کتابوں سے دینا ہے وہ مسئلہ یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی آیت آنے سے قبل قرآن پڑھ کر سنایا ہے یا کہ نہیں ؟اگر سنایاہے تو بحوالہ کتاب ونمبر صفحہ کتاب اہلسنت وجماعت دیں اور دوسرا مسئلہ یہ ہےکہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم  وحی آیات لانے سے پہلے امت کو حکم خداوندی سنا دیا کرتے تھے اور خداتعالی ٰ سے حکم ہواکہ آپ وحی آنے سے پہلے حکم نہ سنایا کرو ۔ ہمارا اس پر ایمان ہےکہ سنا دیا کرتے تھے اور فریق ثانی  اس بات کے خلاف ہے وہ کہتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا اگر ایسا ہےتو میں شیعہ ہو جاؤں گا اگر نہ دکھایا تو تم سنّی ہو جاؤ اور ہمار ے درمیان تحریر نامہ لکھا گیا ہے اگر ثبوت نہ ہوا تو میں سنّی ہو جاؤں گا ۔ اگر ہوگیا تو وہ شیعہ ہو جائے گا  ۔ ثبوت ان چار کتابوں سے ہونا چاہیے : صحیح بخاری ، مسلم  ، ترمذی ، مشکوٰۃ۔؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا

 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

پیغمبراسلام علیہ والہ السلام کو یہ آیت ممانعت کرتی ہے کہ وحی پہنچنے سے پہلے تم آیت پڑھ کر مت سنایا کرو۔ آیت ہے:

’’ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْ‌آنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ‘‘

’’تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وه پوری کی جائے‘‘ (سورۃ طہ:114)

اب قرآن نازل ہونے سے پہلے وہ قرآن کو نہیں جانتا تھا تو کیونکر پہلے سنادیتا تھا جس سے ان کو منع کیا گیا جب قرآن خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے تو پھر بخاری ومسلم وغیرہ قرآن کے مقابلہ میں کیا زیادہ معتبر ہو سکتی ہے ؟ (دار الشریعہ سادات گنج لاہور ۔ نمقہ خادم الشریعۃ المطہرۃ علی الحائری لقلمہ)

محدث روپڑی

 شیعہ عالم کا فرض تھا کہ سائل کوکلمات شرکیہ (یاعلی مدد) سے روکتے نیز کسی کوقبلہ وکعبہ کہنا بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنےکا شبہ پڑتا ہے مگر شیعہ عالم نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ اسی سے ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ اصل سوال کے جواب میں کیا خیر ہوگی۔ خیر سنیے !

جواب کی بسم اللہ ہی غلط ہے معلوم ہوتا ہے کہ عربیت سے ناواقف ہیں ورنہ( عليه واٰله السلام) ترکیب ضعیف استعمال نہ کرتے بلکہ (عليه وعلی اٰله السلام) کہتے کیونکہ ضمیر مجرور پر عطف کے وقت اعادہ جارے کا ضروری ہے چنانچہ کتبِ نحو میں مسئلہ مشہور ہے ۔

پہلے سوال کا جواب تو کچھ نہیں دیا اور دیتے بھی کہاں سے جبکہ کتب اہلسنت میں اس کا نام ونشان نہیں ہاں دوسرے سوال کے جواب کے لئے جرأت کی ہے مگر اس کا جواب بھی نہ دیتے تو بہتر تھا کیونکہ جواب دینے سےان کی علمیت کا راز فاش ہو گیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

’’ وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُ‌وحًا مِّنْ أَمْرِ‌نَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِ‌ي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورً‌ا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ‘‘

’’ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ راه راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔‘‘(سورۃ الشوریٰ:52)

اس آیت میں صاف ظاہر ہے کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم ہوا ہے۔ پہلے آپ کو کتاب کا کوئی علم نہ تھا بلکہ ایمان کی اصل حقیقت سے بھی نا واقف تھے ۔

رہی وہ آیت جو شیعہ عالم نے پیش کی ہے وہ پوری نھیں لکھی ۔ اس کے اخیر میں

’’ وَقُل رَّ‌بِّ زِدْنِي عِلْمًا ‘‘

’’ ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار! میرا علم بڑھا ‘‘(سورۃ طہ:114)

 بھی  ہے اس کی تفسیر خیرالامۃ (ان کا لقب حبرالامۃ معروف ہے) مفسر القرآن ابن عباس﷜ نے یہ کی ہے کہ جب جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید کی وحی لے کر رسول اللہﷺ پر نازل ہوتے اور رسول اللہﷺ پرپڑھنا شروع کرتے تو آپ ﷺ بھولنے کے خوف سے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے جیسے شاگرد استاد کے سا تھ پڑھتا ہے اس پر ارشاد ہوا کہ وحی ہونے سے پہلے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں اور کہہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے ۔

اخیر کے ٹکڑے ( کہہ اے میرے رب! مجھے علم زیادہ دے) سے اس طرف اشارہ ہے جو وحی تجھے آچکی ہے تو اس کے بھولنے سے ڈرتا ہے خدا تجھے اس سے زیادہ دینا چاہتا ہے پس تیرا یہ ڈر فکر ٹھیک نہیں !

دوسری جگہ خداوند تعالیٰ اس کی زیادہ وضاحت کرتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے :

’’ لَا تُحَرِّ‌كْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ - إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْ‌آنَهُ - فَإِذَا قَرَ‌أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ‌آنَهُ - ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ‘‘

’’(اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے‘‘ (سورۃ القیامۃ:16 تا 19) ملاحظہ ہو بخاری جلد 2 کتاب التفسیر ص 734 ۔

ناظرین!

خیال فرمائیں کہ جب ان کے علامہ فہامہ بلکہ مجتہد العصر بلکہ قبلہ وکعبہ کلامِ الہی سے اتنے بے خبر ہیں کہ بعض آیات کا پتہ ہی نہیں کہ قرآن مجید میں ہیں یا نہیں اورجن کا پتہ ہے ان کی تفسیر کا پتہ نہیں تو ان کے عوام کی کیا حالت ہوگی ان کی نسبت تو یہ کہنا بالکل درست ہوگا ؂

قیاس کن زگلستان من بہار مرا

میرے خیال میں کلامِ الہی سے یہ اس لئے واقفی ضروری نہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ قرآن مجید حضرت عثمان﷜ وغیرہ کا جمع کردہ ہے۔ اگر واقعی یہ وجہ ہے تو پھر حضرت علی﷜  کا جمع کردہ قرآن مجید پیش کریں۔ اگر نہیں تو پھر مذہب شیعہ کی کوئی آسمانی کتاب ہی دنیا میں  موجود نہ ہوئی۔ پس اس سے بڑھ کر شیعہ مذہب کے بناوٹی ہونے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے؟ فقط

 

  

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 01 

 

تبصرے