قرآن کی چند آیات ایک دوسری کی ضد کی طرح نظر آتی ہیں اس کی وضاحت فرمادیں۔ (۱) سورۂ الحاقہ :۴۳، الحاقہ:۴۰۔ (۲) نمل: ۸۔۹ ،القصص: ۳۰۔(۳) البقرۃ:۵۱،الأعراف: ۱۴۲۔
(محمد حسین بن عبدالصمد)
آپ لکھتے ہیں: ’’ قرآنِ مجید کی چند آیتیں ایک دوسری کی ضد کی طرح نظر آتی ہیں۔ ‘‘ یہ فقیر إلی اللہ الغنی کہتا ہے آپ کو یا کسی کو تضاد نظر آتا ہے مگر حقیقت اور واقع میں آیات تو آیات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث میں بھی کوئی تضاد نہیں۔
(۱) … سورۂ الحاقہ کی آیت نمبر: ۴۰ ہے: {إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ o} [ ’’ بے شک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے۔ ‘‘ ]اور آیت نمبر: ۴۳ ہے: {تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ o} [’’ رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔ ‘‘ ]ان دونوں آیتوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دوسری آیت میں واضح کردیا گیا ہے کہ پہلی آیت میں جس چیز کو قول رسول کریم قرار دیا گیا وہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ چنانچہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے وہ شاعر اور کاہن کا قول نہیں بعد میں تنزیل من رب العالمین فرماکر واضح کردیا گیا ہے کہ وہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھنا شروع کردے ٹھیک وہ شاعر کا قول نہیں، درست وہ کاہن کا قول بھی نہیں مگر وہ رسول کریم کا اپنا قول تو ہے تو اللہ تعالیٰ نے تنزیل من رب العالمین کہہ کر اس فہم کا ردّ فرمادیا۔
وبعبارۃ اخریقولِ رسول بسااوقات مرسل کا قول ہوتا ہے اور بسااوقات رسول کا اپنا قول ہوتا ہے۔ مرسِل کا قول نہیں ہوتا تو تنزیل من رب العالمین فرماکر قول رسول کریم میں دو صورتوں میں سے پہلی صورت کو متعین کردیا گیا ہے اور دوسری صورت کی نفی کردی گئی ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا: {وَالدَّمَ ط [البقرۃ:۱۷۳] } اور دوسرے مقام پر فرمایا: {أَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا ط [الانعام:۱۴۵] } [’’ یا بہتا ہوا خون۔ ‘‘ ] اب کوئی ان دونوں مقاموں میں باہمی تضاد سمجھنا شروع کردے تو یہ اس کی خطا ہوگی کیونکہ دوسرے مقام میں پہلے مقام سے مراد کی توضیح کردی گئی ہے کہ ’’ والدم ‘‘ میں دم مسفو ح مراد ہے۔ غیر مسفوح مراد نہیں تو یہ کوئی تضاد نہیں۔ اس کی دوسری مثال ہے ایک مقام پر فرمایا :{یَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْأَرْضِ ط}[الشوری:۵][’’زمین والوں کے لیے استغفار کر رہے ہیں‘‘] اور دوسرے مقام پر فرمایا: {یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ط}[المؤمن:۷][’’ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔‘‘] اب دونوں مقاموں میں کوئی صاحب تضاد سمجھنا شروع کردیں تو یہ ان کی نادانی ہے۔
(۲) … سورۂ نمل کی آیت نمبر: ۸ اور نمبر: ۹ میں جن چیزوں کا اثبات ہے۔ سورۂ قصص کی آیت نمبر: ۳۰ میں ان میں سے کسی چیز کی بھی نفی نہیں، اور سورۂ قصص کی آیت نمبر: ۳۰ میں جن چیزوں کا اثبات ہے سورۂ نمل کی آیت نمبر: ۸،۹ میں ان میں سے کسی بھی چیز کی نفی نہیں۔ لہٰذا دونوں مقاموں میں کوئی تناقض نہیں۔ جیسے کہ سورۂ حاقہ کی آیت نمبر: ۴۰ میں جن چیزوں کا اثبات ہے ان میں سے کسی چیز کی بھی آیت نمبر: ۴۳ میں نفی نہیں اور جن چیزوں کا آیت نمبر: ۴۳ میں اثبات ہے ، ان میں سے کسی چیز کی بھی آیت نمبر: ۴۰ میں نفی نہیں۔ لہٰذا ان دونوں آیتوں میں بھی کوئی تناقض نہیں۔
(۳) … سورۂ بقرہ کی آیت نمبر: ۵۱ اور سورۂ أعراف کی آیت نمبر: ۱۴۲ کا معاملہ بھی پہلے ذکر کردہ دو مقاموں کی طرح ہی ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر: ۵۱ میں جن چیزوں کا اثبات ہے ان میں سے کسی ایک کی بھی سورۂ اعراف کی آیت نمبر: ۱۴۲ میں نفی نہیں اور جن چیزوں کا سورۂ اعراف کی آیت نمبر: ۱۴۲ میں اثبات ہے ان میں سے کسی ایک کی بھی سورۂ بقرہ کی آیت نمبر: ۵۱ میں نفی نہیں۔ لہٰذا ان دونوں آیتوں میں بھی کوئی تعارض و تناقض نہیں۔
۱۷ / ۱۰ / ۱۴۲۲ھ