حافظ صاحب عرض یہ ہے کہ بندہ نے ایک بار آپ سے سوا ل کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کس جگہ پید اکیا گیا؟ ‘‘ آپ نے کہا کہ انہیں پیدا نہیں کیا گیا ۔‘‘ پھر میں نے کہا کہ چلو کس جگہ بنایا گیا ہے ان کو ؟ تو آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جنت میں ہی تھے تو وہیں بنائے گئے ہوں گے۔‘ ‘ تو بات یہ ہے کہ میں نے مختصر صحیح مسلم ( پاکٹ سائز) جو کہ دار السلام سے طبع ہوئی ، اس میں سے حدیث پڑھی ہے کہ: ((عن أبی ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم قَالَ: خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ وَفِیْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِیْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلاَّ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ)) [’’بہترین دن جس پر سورج طلوع ہو کر چمکے جمعہ کا دن ہے ۔ اسی دن آدم علیہ السلامپیدا ہوئے اسی دن جنت میں داخل کیے گئے ، اسی دن جنت سے ( زمین پر) اُتارے گئے ، اور قیامت بھی جمعہ کے دن قائم ہو گی۔](ابواب الجمعۃ؍باب فضل یوم الجمعۃ)
اور قرآن مجید کی آیت ہے کہ : {اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ}[آل عمران:۳؍۵۹] [’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال ہو بہو آدم کی مثال ہے جسے مٹی سے پیدا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا ، پس وہ ہو گیا۔‘‘]ہر دو حدیث اور آیت میں لفظ خلق استعمال ہے کہ جو پیدا کرنے والے معنی رکھتا ہے لہٰذا ذرا وضاحت فرما دیں کہ یہ بات کہ اگر ان کو جنت میں پیدا کیا گیا تھا تو پھر وَفِیْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ سے کون سا دخول مراد ہے یا اس کا مطلب کیا ہے؟ (عبداللہ ناصر ،پتو کی )
آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اس بندہ فقیر الی اللہ الغنی نے آج تک کبھی نہیں کہاکہ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں آپ نے جو لکھا ہے ’’ آپ نے کہا تھا انہیں پیدا نہیں کیا گیا ‘‘ مجھے تو یاد نہیں اگر کہا بھی ہو تو یہ خطا ہے۔ ۲۴؍۱۱؍۱۴۲۵ھ