سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(694) ہارو ت و ماروت کون تھے؟ فرشتے تھے یا آدمی؟

  • 5061
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-26
  • مشاہدات : 5266

سوال

(694) ہارو ت و ماروت کون تھے؟ فرشتے تھے یا آدمی؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہارو ت و ماروت کون تھے؟ فرشتے تھے یا آدمی؟ اگر فرشتے تھے تو اس کی دلیل دیں ، اگر آدمی تھے تو اس کی بھی دلیل دیں اور ان کو سزا کیوں دی گئی اگر آدمی تھے تو ان کو دنیا میں سزا کیوں دی گئی؟

ابن جریر کے حوالہ سے تفسیر ابن کثیر میں جو روایت آئی ہے کہ دومۃ الجندل کی ایک عورت آنحضرت  صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہماکے پاس آئی اور بابل میں دو لٹکے ہوئے لوہے میں جکڑے ہوئے شخصوں کا ذکر کیا ۔ یہ روایت وما اُنزل علی الملکین ببابل ہاروت و ماروت آیت کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

علامہ ابن کثیر نے اس روایت کی اسناد کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔  (کلاس اوّل ، دار العلوم محمدیہ ، شیخو پورہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ الخیر نے مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ کا کلام و دعویٰ اس طرح نقل فرمایا : (( وادعی أن ھاروت و ماروت ملکان أنزلھما اللہ إلی الأرض))[’’اور اس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاروت و ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کی طرف اُتارا ہے۔‘‘]پھر ان کے اس کلام و دعویٰ پر ان الفا ظ میں تبصرہ فرمایا: ((وھذا الذی سلکہ غریب جدا، وأغرب منہ قول من زعم أن ھاروت و ماروت قبیلان من الجن کما زعمہ ابن حزم))[’’یہ قول زیادہ غریب ہے اور اس سے بھی زیادہ غریب یہ قول ہے کہ ہاروت و ماروت جنوں کے دو قبیلے ہیں جیسا کہ ابن حزم نے خیال کیا ہے۔‘‘] تو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہاروت ماروت کے فرشتے ہونے اور ان کے جن ہونے کی بڑے لطیف انداز میں تردید فرما دی۔

اور اس سلسلہ میں جو مرفوع روایت پیش کی جاتی ہے اس کو متعدد سندوں کے ساتھ نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں: ((فھذا… یعنی حدیث سالم عن عبداللہ بن عمر عن کعب الاحبار… أصح وأثبت الی عبداللہ بن عمر من الاسنادین المتقدمین وسالم أثبت فی أبیہ من مولاہ نافع، فدار الحدیث ورجع إلی نقل کعب الأحبار عن کتب بنی اسرائیل )) [’’پس یہ( سالم کی حدیث عبداللہ بن عمر سے وہ کعب احبا رسے)پہلی دو سندوں کے ساتھ عبداللہ بن عمر سے زیادہ صحیح اور زیادہ ثابت ہے اور سالم بنسبت نافع کے ابن عمر رضی الله عنہ سے زیادہ ثابت ہے یعنی کعب والی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح موقوف ہے۔ پس ممکن ہے کہ وہ اسرائیلی روایت ہو۔‘‘]

پھر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ ہی اس بارے میں موقوف و مقطوع روایات نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:  ((وحاصلھا راجع فی تفصیلھا إلی أخبار بنی اسرائیل إِذ لیس فیھا حدیث مرفوع صحیح متصل الاسناد إلی الصادق المصدوق المعصوم الذی لا ینطق عن الھوی ، و ظاہر سیاق القرآن إجمال القصۃ من غیر بسط ، ولا إطناب فیھا ، فنحن نؤمن بما ورد فی القرآن علی ما أرادہ اللہ تعالیٰ ، و اللہ اعلم بحقیقۃ الحال))[’’ اس کا زیادہ تر دارو مدار بنی اسرائیل کی کتابوں پر ہے کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث اس باب میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلمسے ثابت نہیں اور نہ قرآنِ کریم میں اس  قدر بسط و تفصیل ہے پس ہمارا ایمان ہے کہ جس قدر قرآن میں ہے صحیح اور درست ہے اور حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔‘‘]

دومۃ الجندل کی ایک عورت والی روایت بھی مرفوع نہیں ، پھر اس میں وہ عورت مجہول ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اس کو اثر غریب اور سیاق عجیب قرار دیا ہے ۔ اس لیے روایت ضعیفہ کو قرآن مجید کی تفسیر میں ذکر کرنا درست نہیں ۔ واللہ اعلم                                                                     ۲۷؍۱؍۱۴۲۱ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 698

محدث فتویٰ

تبصرے