السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1 ۔ احناف دیوبندی اور اہل حدیث میں باعتبار عقائد اصولیہ وشرعیہ کیا فرق ہے؟
2۔ احناف دیوبندی باوجود عقید ۂ وجوب تقلید شخصی فرقۂ ناجیہ ہیں یا نہیں؟
3 ۔ اہلحدیث باوجود غیر مقلد ہونے کے محدثین امام بخاری ومسلم وغیرہ رحمہما اللہ کی تحقیقات واجتہاد کو آئمۂ اربعہ مجتہدین کی تحقیق واجتہاد پر کیوں ترجیح دیتے ہیں کیا یہ تقلید نہیں ہے؟
4 ۔ احناف کے فقہاء ومحدثین مثل عینی وطحاوی وابن الہمام رحمہم اللہ کی تحقیقات حدیثیہ کو اہلحدیث کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ حالانکہ یہ فقہاء بھی حدیث کی تصحیح وتضعیف بطریق محدثین کرتے ہیں؟
5 ۔ جو حدیث کو معمول بر زمانۂ سلف رہی گو وہ سنداً ضعیف ہو قابل قبول ہے یا نہیں؟
6 ۔ امام ترمذی جو اپنی جامع سنن میں فرماتے ہیں:
(وعليه عمل اهل العلم)
اس سے کون اہل علم مراد ہیں۔ آیا صحابہ سلف امت مراد ہیں یا تابعین وغیرہ اور مقصود امام ترمذی کا اس قول سے کیا ہے؟ جلال الدین سیوطی تعقبات (اصل میں تعصبات تھا)علی الموضوعات میں لکھتے ہیں:
قلت الحديث أخرجه الترمذی وقال حسن ضعفه أحمد وغيرہ والعمل هذاالحديث عند اهل العلم فأشار بذلک إلی أن الحديث اعتضد بقول اهل العلم وقد صرح غير واحد بأن من دليل صحة الحديث قول اهل العلم به وإن لم يكن له إسناد يعتمد عليه.
اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ جوحدیث ضعیف الاسناد ہو وہ معمول بہ ہونے کی وجہ سے صحیح اور قابل عمل ہے۔ لیکن اہلحدیث مطلقاً ضعیف کو قابل عمل نہیں ٹھہراتے۔ گو اس پر اہل علم کا عمل ہوا؟
7 ۔ مقلدین کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
8 ۔ ائمۂ اربعہ کا اختلاف مثل صحابہ رضی اللہ عنہم ہے یا اس میں فرق ہے؟
بينوا توجروا؟
ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ دیوبندی ہوں یا غیر دیوبندی ہوں جو تقلید شخصی کو شرعاً واجب قرار دیتے ہیں ان میں اور اہلحدیث میں تو فرق ظاہر ہے اور جو واجب نہیں کہتے وہ اہل الرائی کے حکم میں ہیں جن کی تفصیل شاہ ولی اللہ صاحب نے انصاف کے ص 89 وغیرہ میں کی ہے اور ہم نے بھی تعریف اہلحدیث کے صفحہ 41 لغایت 70 اور تعریف اہل سنت کے صفحہ 85 وغیرہ میں بھی کافی تفصیل کی ہے ۔
2 ۔ شرعاً وجوب تقلید شخصی کا قائل انتہاءً ناجی ہوسکتا ہے نہ کہ ابتداءً کیونکہ وہ دین میں امر محدث کا قائل ہے جو بدعت ہے۔ لیکن جو صاف آیت وحدیث کو ٹھکرا دیتے ہیں وہ بڑے خطرہ کے مقام میں ہیں بعید نہیں کہ کفر تک نوبت پہنچ جائیں۔
3۔ اہلحدیث بخاری ومسلم رحمہا اللہ کے اجتہاد کو آئمۂ اربعہ کے اجتہاد پر ترجیح نہیں دیتے بلکہ دلیل کے تابع ہیں۔ مثلاً ایک مجلس کی تیں طلاق میں بہت اہلحدیث بخاری وغیرہ کے خلاف ہیں اس لئے ہم نے تعریف اہل سنت کے صفحہ 87 کےحاشیہ میں اس مسئلہ کو صاف کردیا ہے کہ محدثین صحاح ستہ کے اجتہاد کو آئمہ کے اجتہاد پر ترجیح نہیں۔
4 ۔ عینی تو کچھ متعصب ہیں چنانچہ مولوی عبد الحیی صاحب لکھنوی مرحوم نے فوائد بہیہ میں لکھا ہے:
طحاوی ، ابن الھمام بھی مذہب کی خاطر تاویلات کرجاتے ہیں اور صحت میں قواعد محدثین سے نکل جاتے ہیں۔ چنانچہ ابن الھمام بخاری ومسلم رحمہما اللہ کی احادیث کو باقی کتب کی احادیث صحاح پر ترجیح نہیں دیتے۔ پھر یہ لوگ فن حدیث میں ایسے ماہر بھی نہیں ہیں اس لئے محدثین کے مقابلہ میں ان کی تحقیق معتبر نہیں ہاں تائیداً کام دے سکتی ہے۔
5 ۔ اگر اس مسئلہ میں اختلاف نہ ہو تو پھر صحت میں کچھ شبہ نہیں۔ چنانچہ اشتہار امامت مشرک میں ہم نے اس کی تفصیل کی ہے اگر اختلاف ہو تو کچھ تقویّت پہنچ جاتی ہے۔
6 ۔ اہل علم سے صحابہ وتابعین وغیرہ مراد ہیں چنانچہ امام ترمذی کئی جگہ تصریح کردیتے ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 01 |
|