ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فاطمہ رضی اللہ عنہما بنت محمد نے وراثت مانگی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہنے (( لَا نُوْرَثُ مَا تَرْکَنَا صَدَقَۃٌ )) 1 ’’ہم و ارث نہیں بنائے جاتے جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ حدیث سنائی تو پھر فاطمہ رضی اللہ عنہما نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور کلام بھی نہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہما نے حدیث کی مخالفت کیوں کی؟ (محمد حسین کراچی)
1 صحیح بخاری؍کتاب الفرائض؍باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم لا نورث ما ترکنا صدقۃ
فاطمہ رضی اللہ عنہما کا اپنی موت تک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہکی بیعت نہ کرنا تو میرے علم میں نہیں لہٰذا آپ اس کا حوالہ ضرور دیں کہ یہ چیز کہاں ہے؟ رہاان کا مطالبۂ میراث تو ان کی معلومات میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث شامل نہ ہونے پر مبنی تھا ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جب انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان سن لیا اس کے بعد انہوں نے کبھی مطالبہ نہ کیا۔
دیکھئے قرآن مجید میں ہے : {وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَـإِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْھَا أَبَدًا}[الجن:۲۳] [ ’’ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے ۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ ] قرآن مجید میں ہی ہے: {وَعَصیٰٓ آدَمُ رَبَّہٗ فَغَویٰ} [طٰہٰ : ۱۲۱] [ ’’ اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی لہٰذا وہ بھٹک گئے۔‘‘ ] تو اب ان دونوں آیتوں کو دیکھ کر کوئی آدم علیہ السلامپر فتوے داغنے شروع کر دے اور ان کی توبہ و مغفرت والی آیات و احادیث کو نظر انداز کر دے تو کیا وہ حق پر ہو گا؟ نہیں 1ہر گز نہیں1 بالکل اسی طرح فاطمہ ، علی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں توبہ و استغفار اور عفو و مغفرت والی آیات و احادیث کو نظر انداز کرنے والا بھی حق و انصاف پر نہیں۔