مسئلہ یہ ہے کہ میرے بڑے بھائی عنایت اللہ ولد خوشی محمد قضائے الٰہی سے یکم مارچ ۲۰۰۲ء کو وفات پا گئے اور اُن کے ورثاء میں اُن کے والدین ، بیوہ اور دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اُن کی متروکہ رقم پانچ لاکھ بتیس ہزار پانچ سو ستتر (۵۳۲۵۷۷)روپے ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں مذکورہ بالا وارثوں کا حصہ علیحدہ علیحدہ نکال کر بتا دیں۔ (سیف اللہ، پیپلز کالونی ، گوجرانوالہ )
آپ کے وفات پانے والے بھائی صاحب کی اولاد ہے اس لیے والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ}[النسائ:۴؍۱۱] [’’اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے۔ اگر اس (میت ) کی اولاد ہو۔‘‘ ] اور بیوہ بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ} [النسائ:۴؍۱۲] [ ’’اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ ‘‘ ]اور دو بیٹے اور دو بیٹیوں کو باقی لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ کے حساب سے ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} [النسائ:۴؍۱۱] [’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ ] بھائی صاحب کا ترکہ ۵۳۲۵۷۷ روپے ہے اس لیے والدین میں سے ہر ایک کا حصہ ۸۳؍۸۸۷۶۲ ، ہر بیٹے کا حصہ ۷۴؍۹۶۱۵۹، ہر بیٹی کا حصہ ۸۷؍۴۸۰۷۹ اور ان کی بیگم کا حصہ ۱۲؍۶۶۵۷۲ روپے بنتا ہے۔ مسئلہ کی صورت مندرجہ ذیل ہے:
اصل=۲۴×۶ تصحیح = ۱۴۴ ترکہ = ۵۳۲۵۷۷
والد والدہ دو بیٹے دو بیٹیاں بیوی
از اصل = ۴ ۴ ۱۳ ۱۳ ۳
از تصحیح = ۲۴ ۲۴ ۷۸ ہر بیٹی =۸۷؍۴۸۰۷۹ ۱۸
از ترکہ = ۸۳؍۸۸۷۶۲ ۸۳؍۸۸۷۶۲ ہر بیٹا ۷۴؍۹۶۱۵۹ ۱۲؍۶۶۵۷۲