السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس حدیث میں امت کے تہتر گروہوں میں تقسیم ہونے کا بیان ہے۔ اس لفظ امت سے امت اجابت مراد ہے یا امت دعوت؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث سے امت اجابت مراد ہے یعنی مسلمانوں کے تہتر فرقے ہوجائیں گے۔ جس کی کئی وجوہ ہیں:
پہلی وجہ
یہ کہ اس حدیث میں پہلے ذکر ہے کہ تم بنی اسرائیل کے برابر ہوجاؤ گے جیسے جوتے کا ایک پاؤں دوسرے کے برابر ہوتا ہے یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے ماں سے بدکاری کی ہوگی تو تم میں سے بھی کوئی یہ کام کرے گا۔ پھر فرمایا بنی اسرائیل بہتر فرقے ہو گئے تھے تم تہتر فرقے ہو جاؤ گے اور ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کی امت اجابت ہے تو اس امت سے بھی امت اجابت مراد ہونی چاہیے تاکہ مقابلہ اور موازنہ برابر ٹھیک ہو جائے۔
دوسری وجہ
یہ کہ آپﷺ نے آئندہ پیشگوئی فرمائی ہے اگر کفار بھی شامل ہوتے تو یہ فرقے اس وقت بھی موجود تھے پھر آ ئندہ کی پیشیگوئی کا کیا معنی؟
تیسری وجہ
یہ کہ حضورﷺ کا مقصد ڈرانا ہے تاکہ گمراہ فرقوں سے پرہیز کیا جائے۔ اس سلسلہ میں کفار کے فرقوں کا ذکر فضول ہے کیونکہ وہ حضورﷺ کی نبوت سے منکر ہیں اور آپ کو معاذاللہ کاذب سمجھتے ہیں۔ تو وہ اہل اسلام کی گمراہی کا سبب نہیں ہو سکتے بلکہ گمراہی کا باعث اسلامی دعویٰ اور اسلامی رنگ ڈہنگ میں اپنے خیالات کو پیش کرنا ہے اور یہ بات اسلامی فرقوں ہی میں پائی جاتی ہے بس وہی مراد ہوں گے۔
چوتھی وجہ
یہ کہ رسول اللہﷺ نے ناجی فرقہ کی پہچان میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی ذکر کیا ہے اور ظاہر ہے کہ کفار مکہ کی پہچان کے لئے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی پہچان صرف یہی ہے کہ وہ آپ کی رسالت کے منکر ہیں۔ ہاں اسلامی فرقوں کی پہچان کے لیے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ضرورت ہے کیونکہ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ میں کتاب وسنت کو مانتا ہوں۔ سو اس کی پہچان میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو دخل ہے۔ اگرقرآن وحدیث کو اسی طریق پر تسلیم کرلیا جائے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا اور ان کے موافق تفسیر کی تو وہ ناجی ہے ورنہ اہل نار سے ہے۔ اس قسم کی بعض اور وجوہ بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امت سے مراد امت اجابت ہے۔ اور ترمذی میں ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اورمجمع البحار والے نے تذکرۃ الموضوعات کے صفحہ نمبر15 میں اس کو حسن کہا ہے اور یہ حدیث مختصر بھی مروی ہے جس میں صرف اتنا ذکر ہے کہ یہود ونصاریٰ بہتر فرقے ہو گئے میری امت تہتر فرقے ہو جائے گی اور اس کو ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے (ترمذی ، باب افتراق ہذہ الامۃ ، ص89 ، جلد دوم) علاوہ اس کے یہ حدیث قرناً بعد قرن ایسی مشہور چلی آتی ہے کہ اس شہرت نے اس کو اعلیٰ درجہ کی صحیح بنا دیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فتاویٰ اہلحدیثکتاب الایمان، مذاہب، ج1ص2محدث فتویٰ |
|