سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(641) جناب ہم دو سگی بہنیں ہیں ۔ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے..الخ

  • 5008
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1631

سوال

(641) جناب ہم دو سگی بہنیں ہیں ۔ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب ہم دو سگی بہنیں ہیں ۔ بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ابو نے امی کو طلاق دے دی اور دوسری شادی کر لی جبکہ دوسری امی سے ہمارے چار (۴)بھائی اور ایک (۱)بہن ہے۔ کچھ عرصہ ہوا ہماری امی فوت ہو گئیں انہوں نے وراثت میں دو (۲)مکان چھوڑے ایک مکان وہ ہے جو امی نے اپنا زیور بیچ کر اور کچھ ذاتی پیسے ملا کر بنایا ۔ اور دوسرا مکان کا وہ حصہ ہے جو نانا جان کی طرف سے امی کو وراثت میں ملا۔

امی کی چار (۴)بہنیں حیات ہیں جن میں سے تین (۳)صاحب اولاد ہیں اور ہماری ایک (۱)خالہ کی کوئی اولاد نہیں ۔ جبکہ ہماری ایک (۱)خالہ امی کی وفات سے بھی ۱۰،۱۲ سال پہلے فوت ہو گئی تھیں ان کا صرف ایک (۱)بیٹا تھا او ر وہ بھی امی سے تقریباً دو(۲)سال پہلے فوت ہو گیا اب اس خالہ کی صرف ایک پوتی ہے۔جبکہ ہمارے ایک ماموں تھے اور وہ بھی امی سے تقریباً سات سال پہلے وفات پا چکے ہیں۔ اب ہمارے ماموں کی اولاد ہم سے دونوں مکانوں میں سے حصہ مانگتی ہے جبکہ نانا جان والے مکان میں اکثر کرایہ دار رہتے رہے ہیں ۔ سوائے تین (۳)سال کے شروع سے اس مکان کا کرایہ بھی ماموں کی فیملی لیتی رہی ہے۔ برائے مہربانی آپ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیے کہ وہ مکان جو امی کی ذاتی ملکیت ہے اس میں سے رشتہ داروں کو کس حساب سے حصہ ملے گا اور مکان کا وہ حصہ جو نانا جان کی طرف سے امی کو ملا اس میں سے کتنا حصہ وارثوں کو ملے گا؟



 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

صورتِ مسئولہ میں متوفاۃ کے دونوں مکان اور دیگر مال ۔ اگر موجود ہو۔ اس کی بیٹیوں وبہنوں میں تقسیم ہوں گے جو وارث رشتہ دار متوفاۃ کی وفات سے پہلے فوت ہو چکے ہیںوہ اس کے ترکہ میں حصہ دار نہیں۔ آپ کی تحریر کے مطابق مسئلہ کی نوعیت اس طرح بنتی ہے:

          اصل مسئلہ=۳ عائلہ مسئلہ =۴تصحیح × ۲=۸

          دو لڑکیاں چار بہنیں    بھتیجے

          از اصل وعول


=۲… از تصحیح=۴                   از اصل وعول
=۲… از تصحیح=۴      عصبہ باقی=×

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {فَإِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ} [النسائ:۱۱] [’اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زائد ہوں تو ان کا ترکہ سے دو تہائی حصہ ہے۔ ‘‘ ]پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {فَإِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ} [النسائ:۱۷۶] [’’اور اگر بہنیں دو ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔‘‘ ]  بھتیجے عصبہ ہیں انہوں نے اصحاب الفروض سے باقی بچا ہوا ترکہ لینا تھا مگر موجودہ صورت میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں بچا اس لیے وہ محجوب ہیں۔ بلکہ یہ مسئلہ عاملہ ہے۔ اصل مسئلہ تین سے ہے جس سے دو دونوں لڑکیوں کو اور دو چار بہنوں کو ملیں گے۔ عائلہ مسئلہ چار سے بنے گا لڑکیوں کا حصہ دو ہے جو دونوں لڑکیوں پر بلا کسر تقسیم ہو رہا ہے جبکہ چار بہنوں کا حصہ دوان پر بلا کسر تقسیم نہیں ہوتا اور چار دو میں توافق بالنصف ہے لہٰذا دو کو عائلہ مسئلہ ۴ میں ضرب دیں گے تو آٹھ تصحیح مسئلہ ہو گا۔ اب تصحیح سے دونوں لڑکیوں کو چار اور چاروں بہنوں کو چار ملیں گے۔ ہر لڑکی کو دو دو اور ہر بہن کو ایک ایک متوفاۃ کے ترکہ کو آٹھ حصوں میں تقسیم فرما کر مندرجہ بالا تفصیل کے ساتھ دونوں لڑکیوں اور چاروں بہنوں میں تقسیم کر لیں۔ واللہ اعلم                                       ۲۱؍۷؍۱۴۲۱ھ

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 535

محدث فتویٰ

تبصرے