سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(636) کیا شریعت میں والد کی وفات سے پہلے جائیداد کی تقسیم ہو سکتی ہے؟

  • 5003
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1237

سوال

(636) کیا شریعت میں والد کی وفات سے پہلے جائیداد کی تقسیم ہو سکتی ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گاؤں میں ایک والد نے اپنی جائیداد کی تقسیم اس طرح کی ہے:ایوب صاحب نے ایم اے کیا ، شادی کروائی اور علیحدہ ہو گئے ، انہوں نے جائیداد سے کچھ نہیں مانگا۔ مقصود ، مقبول ، نیاز (والد ) نے کمائی کی اور تقریباً ۲۴ لاکھ روپے کی جائیداد بنائی۔ اعظم صاحب نے جو کچھ کمایا وہ انہوں نے والد صاحب سے لے لیا۔ اس کا کھاتہ یہ ہے کہ نہ وہ گھر والوں سے کچھ لیتا ہے اور نہ ہی ان کو کچھ دیتا ہے ۔ قیوم صاحب کی نظر بہت کمزور ہے اور مقصود صاحب کے ساتھ دکان کرتے ہیں ۔ اب ۲۴ لاکھ روپے کی جائیداد کے ۴ حصے ہوئے۔ ایک حصہ مقبول کا ، ایک حصہ مقصود کا ، ایک حصہ والدین کا ، ایک حصہ قیوم کا۔ ایوب صاحب نے نہ ہی مطالبہ کیا اور نہ ہی اس کو حصہ دیا گیا۔ اعظم اور ندیم کو حصہ اس لیے نہیں ملا کہ انہوں نے چونکہ کمایا نہیں ہے اس لیے ان کا حصہ نہیں ہے ۔ اب سوالات یہ ہیں:

          ۱:…کیا شریعت میں والد کی وفات سے پہلے جائیداد کی تقسیم ہو سکتی ہے؟

          ۲:…کیا یہ تقسیم جو ہوئی ہے یہ صحیح ہے ؟

          ۳:… اعظم صاحب کا دعویٰ ہے کہ بڑے بھائی مقصود سے والد کی وفات کے بعد میں جائیداد چھین لوں گا ، اس لیے کہ اس میں میرا بھی حصہ ہے اور اس راستے میں اگر مجھے (معاذ اللہ ) قتل کرنا پڑا تو بھی میں کروں گا ، اپنا حق لینے کے لیے ۔ کیا ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے؟

          ۴:… اگر یہ تقسیم غلط ہے تو والد صاحب کے لیے اس کی کیا سزا (اُخروی) ہے؟

          ۵:… تقسیم کا صحیح طریقہ کار کیا ہے؟

          تفصیلاً جواب لکھیں ، جزاکم اللہ خیراً (نوٹ :… ایوب سب سے بڑا ہے اور ندیم سب سے چھوٹا ہے۔)

                                                                               (ابو دجانہ ندیم ، مرکز طیبہ مرید کے )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

۱:… ہبہ اور عطیہ کی صورت میں ہو سکتی ہے بشرطیکہ کچھ وارثوں کو محروم کرنا مقصود نہ ہو اور اولاد میں بطورِ ہبہ و عطیہ تقسیم کرتے وقت لڑکی کو لڑکے کے برابر دیا جائے۔ سوال میں تقسیم کی ذکر کردہ صورت کے ساتھ اس نمبر 1 کی کوئی مناسبت نہیں کیونکہ والد نیاز صاحب کی جائیداد تقسیم نہیں ہوئی بلکہ تین بیٹوں (مقصود ، مقبول اور قیوم )اور والد نیاز صاحب کی مشترکہ کمائی کو الگ الگ کیا گیا ہے۔

۲:…اگر ۲۴ لاکھ نیاز ، مقصود ، مقبول اور قیوم چاروں کی کمائی ہے ، ایوب ،اعظم اور ندیم اس ۲۴ لاکھ کمانے میں شریک نہیں تو پھر یہ تقسیم درست ہے بشرطیکہ چاروں کی کمائی برابر ہو یا اس تقسیم پر چاروں باہم رضا مند ہوں۔

۳:…اگر اعظم صاحب ۲۴ لاکھ کمانے میں بالکل شریک نہیں تو ان کا مقصود ،مقبول اور قیوم کے ۲۴ لاکھ سے حصص میں کوئی حق نہیں ، نہ والد صاحب کی زندگی میں اور نہ والد صاحب کی وفات کے بعد ۔ الا وہ کتاب و سنت کی رو سے ان کا وارث بنتا ہو۔

ہا ں اس ۲۴ لاکھ سے والد صاحب نیاز کے حصہ چھ (۶)لاکھ میں بیٹا ہونے کے ناطے اعظم صاحب کا دوسرے بیٹوں کے برابر حق ہے بعد از وفات والد اور قبل از وفات والد بھی اگر والد زندگی میں اپنے حصہ کو بطورِ ہبہ و عطیہ اپنی ۔اولادوغیرہ میں تقسیم کرے۔ باقی اعظم صاحب کی قتل والی بات کی شریعت میں کوئی وجہ جواز نہیں۔

۴:… صورتِ مسئولہ میں والد نیاز صاحب کی جائیداد تو تقسیم ہوئی ہی نہیں اس لیے اگر یہ تقسیم غلط ہے … الخ سوال بنتا ہی نہیں۔

          ۵:…مندرجہ بالا جوابات کے ضمن میں بیان ہو گیا ہے۔                                 ۱۷؍۳؍۱۴۲۴ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 525

محدث فتویٰ

تبصرے