آج کل مختلف کمپنیاں اقساط پر چیزیں فروخت کر رہی ہیں ، کیا ان سے قسطوں پر چیزیں لینا جائز ہے ،ان شرائط پر:
(۱)…جب وہ نقد کیش پر اُدھار سے رعایت دیں۔
(۲)…جب ان کی اور بازار کی ریٹ لسٹ ایک ہو۔
(۳)…فرض کریں کہ بازار میں اور ان کو ۲۰/فی صد کمیشن ملتا ہے ۔اور وہ کمیشن کم نہ کریں اور بازار والے نقد مال پر کمیشن کم کر دیں ۔ دونوں کو فیکٹری والوں نے ایک ہی کمیشن پر مال دیا ہے) اور اقساط پر دینے والی کمپنی بھی نقد کیش پر اپنا کمیشنکم کر دے۔
(۴)…کیا یہ چیز سود میں آتی ہے اگر سود میں نہیں آتی تو کیایہ جائز ہے؟ (کیونکہ یہ رقم کے بدلے رقم نہیں ایک چیز کے بدلے رقم ہے)
(۵)…ہمارے پاس نقد خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔ اقساط میں ہم خرید سکتے ہیں اوپر دی گئی مختلف شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے جواب دیں۔ (عامر صالح)
قسطوں پر بیع کی صورتیں دو ہیں۔ ایک قسطوں میں جو قیمت وصول کی جائے وہ نقد قیمت کے برابر ہو یا کم نہ زیادہ۔ دوسری قسطوں میں جو قیمت وصول کی جائے وہ نقد قیمت سے زیادہ ہو۔ پہلی صورت درست و جائز ہے جبکہ دوسری صورت نا درست و ناجائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) ’’جس نے ایک بیع میں دو بیعیں کیں تو اس کے لیے ان دونوں میں سے کم ہے یا سود۔ ‘‘ یہ حدیث ابو داؤد 1وغیرہ میں موجود ہے۔پھر ربا اور کئی ایک ربوی بیوع پر غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مہلت اور اُدھار و تاجیل کے عوض پیسے وغیرہ وصول کرنا سود کے زمرہ میں شامل ہے ۔ آپ نے جو پانچ چیزیں نمبر وار ذکر کیں ان میں سے کوئی ایک بھی قسطوں والی بیع کی دوسری صورت میں زیادہ قیمت کے مہلت و تاجیل کے عوض ہونے کو ختم نہیں کرتی لہٰذا ان پانچوں چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی بیع بالاقساط کی دوسری صورت سود ہی ہے اور سود ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَحَرَّمَ الرِّبٰوا} [البقرۃ:۲۸۵] [’’اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘] اس سلسلہ میں اگر آپ تفصیل چاہتے ہیں تو مجلہ نداء الاسلام‘‘ کی طرف رجوع فرمائیں کہ اس کی جلد نمبر ۳، شمارہ ۸ میں بیع بالاقساط کے موضوع پر اس فقیر الی اللہ الغنی کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ ۳/۱/۱۴۲۲ھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 کتاب البیوع/باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ۔