قسطوں کا کاروبار ، اس کی کئی صورتیں ہیں، ایک تو عام ہے جو تقریباً ہر شہر میں ہے کہ پنکھے ، استریاں اور دوسری چیزیں قسطوں پر دیتے ہیں ، ہمارے ہاں سوتر منڈی میں ، سوتر فروخت کرتے وقت دکاندار گاہک کو کہتا ہے کہ دس دن کے بعد پیسے دو گے تو ۷۰/ روپے کلو کے حساب سے ملے گا، بیس دن کے بعد دو گے تو ۹۰ / روپے کے حساب سے، ابھی ادا کردو گے تو ۵۰ / روپے کلو کے حساب سے ۔ غرضیکہ مدت کے کم زیادہ ہونے سے قیمت میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ اسی طرح نئے نوٹوں کی ۱۰۰/ روپے کی کاپی ۱۱۰ / روپے میں ملتی ہے۔ ۱۱۰/ روپے دے کر ۱۰۰/ روپے لیتے ہیں۔ اس طرح کی اور بھی کئی صورتیں ہیں آپ ان کو بہتر جانتے ہیں اس کا تفصیل سے جواب دیں؟ (قاسم بن سرور)
بیع تقسیط میں متعدد قسطوں میں وصولی کی جانیوالی رقم و قیمت اگر نقد رقم و قیمت کے برابر یا اس سے کم ہو تو یہ بیع شرعاً درست اور جائز ہے او ر اگر متعدد قسطوں میں وصول کی جانے والی رقم و قیمت نقد رقم و قیمت سے زیادہ ہو تو یہ بیع بوجہ سود شرعاً نا درست اور ناجائز ہے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))1 [’’جو شخص ایک بیع میں دو سودے کرتا ہے تو اس کے لیے کم تر قیمت والا ہے یا سود ہے۔‘‘]اسی طرح ۱۰۰/ روپے دے کر یا لے کر ۱۱۰/ روپے لینا یا دینا بھی سود ہے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے :((لَا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ إِلاَّ سَوَائً بِسَوَائٍ ، وَالْفِضَّۃَ بِالْفِضَّۃِ إِلاَّ سَوَائً بِسَوَائٍ)) 2[سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض کمی بیشی سے مت فروخت کرو۔‘‘]
بیع تقسیط کو جائز قرار دینے والے دلیل میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ کی حدیث: ((أَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم أَمَرَہٗ أَنْ یُجَھِّزَ جَیْشًا ، فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ فَأَمَرَہٗ أَنْ یَّاْخُذَ عَلٰی قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَ یْنِ إِلٰی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ))3 [’’عبداللہ بن عمر و رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ، پس اونٹ ختم ہو گئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ صدقہ کی جوان اونٹنیوں کے وعدے پر اونٹ حاصل کر لے۔ پس عبداللہ رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹ آنے تک ایک ایک کو دو دو اونٹ کے بدلے حاصل کرتے تھے۔‘‘ ][اس حدیث کی سند میں مسلم ابن جبیر اور ابو سفیان ہیں۔ امام ذہبی نے ان دونوں کو مجہول کہا ہے۔]پیش فرماتے ہیں مگرشیخ البانیk نے تعلیق مشکاۃ[کتاب البیوع/ باب الربا/الفصل الثانی] میں تصریح فرمائی ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے پھر بیع حیوان بحیوان میں نقد کی صورت میں بھی تفاضل درست ہے لہٰذا نسیئہ کی صورت میں بیع حیوان بحیوان میں ایک طرف اضافہ کا بوجہ نسیۂ ہونا متعین نہیں ۔ اور کئی کہتے ہیں بیعتین فی بیعتہ میں نہی کی علت عدم تعیین قیمت ہے مگر ان کی یہ بات مذکورہ بالا حدیث: ((فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) میں نہیں چل سکتی کیونکہ اس میں نہی کی علت ربا ہونا منصوص ہے اور معلوم ہے جہاں موجود ہو نص جلیل وہاں کسی عالم و مجتہد کی تعلیل ہوتی ہے فقط چالِ علیل سمجھ ہے تو آپ کو اجر جزیل۔ ۵/۱۱/۱۴۲۵ھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1سنن ابی داؤد/کتاب البیوع/باب فی من باع بیعتین فی بیعۃ۔
2 صحیح بخاری/کتاب البیوع/باب بیع الذھب بالذھب۔ 3 ابو داؤد/کتاب البیوع/باب فی الرُّخصۃ۔